بچوں پر ویڈیوگیمز کے اثرات

917

قدسیہ ملک
یوں تو ویڈیو گیمز کھیلنے میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ہر عمر کے افراد اس سستی تفریح سے محظوظ ہوتے ہیں۔ گیم کھیلنے کے لیے بہت زیادہ مہارت درکار نہیں ہوتی۔ آج مختلف قسم کے ویڈیو گیمز دستیاب ہیں۔ ان میں اضافہ لڑکیوں کے مخصوص کھیلوں کا بھی ہے۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے مخصوص کھیل تیار کرتے ہوئے بچوں کے مقاصد کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ویڈیو گیمز کھیلنے کے حوالے سے مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔
تاریخی پس منظر:
ویڈیو گیمز کی ابتدا 1950ء میں پیش کردہ اس تصور سے ہوئی کہ کمپیوٹر پر ایسے پروگرامات وضع کیے جاسکتے ہیں جن کے ذریعے شطرنج کھیل سکتے ہیں۔ ابتداً مغرب میں عوامی مقامات پر جاکر ان کھیلوں کو کھیلنے کی روایت پروان چڑھی۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز میں بہت سے گیم متعارف کروائے گئے۔ yokoi, Mario Bros, Donkey Kong, Metroid تخلیق کیے گئے۔ پھر لوگ ایک جیسے کھیلوں سے تنگ آگئے۔ 1984ء میں کھیلوں میں مزید جدت آئی۔ جاپانی کمپنیوں Sony,sega,Nintando نے اس صنعت کو ترقی دی۔ اس دور میں بچوں کو ہدف بناکر خصوصی کھیل متعارف کروائے گئے۔ اس کا آغاز ایک پُرتشدد کھیل Mortal Kom سے ہوا۔
ویڈیو گیمز کھیلنے سے مرتب ہونے والے مثبت اثرات:
ان کھیلوں کو کھیلنے کے لیے دماغ کے علاوہ ہاتھ اور آنکھ کا استعمال ہوتا ہے۔ گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ گیم کھیلنے میں وقوفی مہارتوں کی تمام سطحیں شامل ہوتی ہیں۔ صرف ہاتھ اور آنکھ کا ربط نہیں ہوتا بلکہ مسائل کو حل کرنے، یادداشت، سوچ، inductive thinking، متوازی طور پر مختلف عمل کاری کی صلاحیت وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈویلپمنٹ کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق سوپر ماریو 64 روزانہ دو مہینے کے لیے 30 منٹ تک کھیلنے والوں کے دماغ کے مختلف حصوں میں Gray Matter میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دماغ کے یہ حصے strategic planning, navigation, working memory, motor performance کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ ان حصوں میں گرے میٹر میں ہونے والا اضافہ بہترین یادداشت سے براہِ راست تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔ مختلف دماغی امراض کے لیے ویڈیو گیمز کو بطور علاج کھیلنے کا مشورہ دیا گیا۔ ویڈیو گیمز کھیلنے سے ہاتھ اور دماغ کے ربط میں بہتری آتی ہے، مہم سر کرنے پر نمبر اسکور کرنے پر حساب جیسے مشکل مضمون سے کھیل ہی کھیل میں شناسائی ہوتی ہے۔ 1999ء میں بچوں پر حساب کے مضمون میں fraction,propotion کی تدریس کے لیے ایک کھیل Spatial temporal Mathکے استعمال کا تجربہ کیا گیا جو بہت مؤثر ثابت ہوا۔گیمز مشکل حالات سے نمٹنا اور فیصلہ کرنا سکھاتے ہیں۔ الیکٹرانک گیمز بچوں کو اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی سکھا سکتے ہیں۔ کچھ گیمز میں نہ صرف صحت کے بارے میں آگاہی پیدا کی گئی بلکہ طبی احکامات کو ماننے کی صلاحیت بھی پیدا ہوئی۔ ان کھیلوں کو کھیلنے سے بچوں کی خوداعتمادی اور خودپسندی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
بچے منطق (logic) کا استعمال سیکھتے ہیں، ان ویڈیو گیمز کے ذریعے بہترین منصوبہ بندی سیکھتے ہیں جس سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔
ویڈیوگیمز سے مرتب ہونے والے منفی اثرات:
ویڈیوگیمز سے ہونے والے منفی اثرات کی بھی ایک طویل فہرست ہے:
1۔ صحت پر مرتب ہونے والے اثرات میں ہاتھ اور کلائی میں درد، کھانے پینے کی بے قاعدگی، کھانے کی طرف عدم توجہی بہت نمایاں ہے۔
2۔ بہت زیادہ گیم کھیلنے والوں میں موٹاپے کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ دل کے عوارض کی طرف بچوں کا جھکائو پایا گیا۔
3۔ اس کے علاوہ سر درد، پسینہ آنا، ہلکے درجے کا بخار، تھکن، کم کھانا، متلی… محققین کے مطابق 19 مریضوں میں یہ علامات ویڈیو گیمز کو ایک ہفتہ چھوڑنے سے ختم ہوگئیں۔
4۔ ویڈیو گیمز جارحانہ رویوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
5۔ پُرتشدد ویڈیوگیمز کا ایک منفی اثر معاشرے کے متعلق غلط تصورات اور روایات کی تعلیم سے ہے۔
6۔ جس طرح منشیات کی لت لگ جاتی ہے بالکل اسی طرح ویڈیو گیمز انسانی دماغ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
7۔ ایک اور منفی اثر یہ ہے کہ بچوں کی تعلیمی قابلیت متاثر ہوتی ہے۔ کئی بچوں نے اپنے خراب رزلٹ کا ذمہ دار کثرت سے ویڈیو گیمز کھیلنے کی عادت کوقرار دیا ہے۔
8۔ ویڈیو گیمز کے عادی بچے اساتذہ سے فضول بحث اور دوسرے بچوں سے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔
9۔ عادی کھلاڑی ہونے کی مختلف علامات میں زیادہ وقت اور پیسہ صرف کرنا، گھریلو ذمہ داریوں سے فرارکی کوشش، پیسے چرانا وغیرہ شامل ہیں۔
10۔ جو بالغان ویڈیو گیمز کم کھیلتے ہیں وہ زندگی میں نسبتاً اچھے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
یہ تمام اثرات اتنے مؤثر نہیں ہوتے۔ ان کے مقابلے میں گھر کے افراد، دوست، معاشی صورتِ حال بچوں یا نابالغوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
طریقہ کار(Methodology):
کراچی کے8 سے 14 سال تک کے بچوں کا نامعلوم امکان کی نمونہ بندی(Non_probablity Sampling) کے ذریعے انتخاب کیا گیا۔ متوسط طبقے کے یہ بچے مختلف اسکولوں میں زیر تعلیم تھے۔
حاصلات(Findings): نمونے میں شامل بچوں میں صبح کے اوقات میں تعلیمی سرگرمیوں کے باعث ویڈیو گیمز کھیلنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر یعنی صرف 4 فیصد ہے۔
جدول نمبر2: ویڈیوگیمز کھیلنے کا دورانیہ(فیصد میں)
ایک گھنٹہ24،2گھنٹے28،3گھنٹے16،4گھنٹے12،5گھنٹے4،
6 گھنٹے6،7گھنٹے4،8گھنٹے6،
ماحصل:
کراچی کے 8 سے 14 سال کے بچوں میں ویڈیوگیمز کھیلنے کے رجحان کے مطالعے سے مختلف اہم نتائج آشکار ہوئے۔ نمونے میں شامل بچوں کی اکثریت سنسنی خیز کھیل کھیلنا پسند کرتی ہے۔ جبکہ کھیلنے کے لیے کھیلوں کا انتخاب تفریحی مقاصد کے لیے کیا گیا ہے۔
کراچی کے بچے کھیل کھیلنے کے لیے کسی نہ کسی ساتھی کا انتخاب ضرور کرتے ہیں جو انہیں کھیلنے کی تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کھیلنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اس سے مرتب ہونے والے منفی اثرات میں زیادہ گیمز کھیلنے والے اپنی روزمرہ کی اہم سرگرمیوں کو معطل کردیتے ہیں، جن میں غذا، نیند، تعلیم، جسمانی سرگرمیاں شامل ہیں۔
منفی اثرات میں ویڈیوگیمز کھیلنے کے لیے وقت کا صرف کیا جانا ہے، بچے اگر گیمز نہ کھیلتے تو یہ وقت اپنے گھر والوں بالخصوص بہن بھائیوں کے ساتھ گزارتے۔ گھریلو تعلقات میں دوری کی وجہ ویڈیو گیمز ہیں۔ منفی اثرات میں گیمز کے کرداروں کی حقیقی زندگی میں نقل کا رجحان بھی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کراچی کے 8 سے 14 سال کے بچوں میں ویڈیو گیمز کی صورت میں آنے والی سستی تفریح سے لطف اندوز ہونے کا قومی رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے دوررس اثرات کا وسیع پیمانے پر جائزہ لینے کا اہتمام حکومتی سطح پر کیا جانا وقت کا اہم ترین تقاضا اور ضرورت ہے۔

حصہ