بسکٹ

341

مریم شہزاد
’’ارے واہ، مزے آگئے آج تو ہمارے‘‘ دیوار پہ بیٹھے کوے نے نانو کے ہاتھ میں بسکٹ دیکھے تو اس کے منہ میں پانی آگیا۔
’’کیا ہوا کیسے مزے آگئے‘‘ چڑیا نے پوچھا۔
ارے دیکھ نہیں رہی، کتنے مزے مزے کے بسکٹ ہیں آج ہمارے کھانے کے لیے، آج تو ہماری دعوت ہوگئی‘‘ کوے نے کہا۔
ہاں واقعی، کبوتروں کے منہ میں بھی پانی آگیا ’’مگر ان میں کریم تو لگی ہوئی ہی نہیں ہے‘‘۔
مگر پھر بھی بہت مزے کے ہیں، چڑیا نے بسکٹ پر چونچ مارتے ہوئے کہا۔
یہ بچے کریم کھا کے بسکٹ کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ کبوتر نے پوچھا۔
پتا نہیں، ان بچوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اصل طاقت تو بسکٹ میں ہوتی ہے کریم میں نہیں، کوے نے کہا۔
’’اور پھر انڈا، دودھ سب اس میں ہی تو ہوتا ہے‘‘ کبوتر بولا۔
ارے دیکھو، یہ پیلی کریم والا کتنے مزے کا ہے، کوئل نے کہا۔
اور یہ کالا والا بھی، علی نے اس کی کریم تو کھا لی مگر بسکٹ چھوڑ دیا یہ تو بہت اچھاہے،
چڑیا نے کہا شکریہ علی۔
ادھر احمد، یوسف اور علی جو نانو کے ساتھ چھت پر آگئے تھے حیران و پریشان تھے کہ ان کو سب سمجھ کیسے آرہا ہے تینوں ہی بہت ڈرے ہوئے تھے نانو نے پوچھا کیا ہوا تو احمد نے کہا۔
’’نانو، یہ پرندے جو باتیں کر رہے ہیں وہ ہم تینوں کو سمجھ آرہی ہیں کہ یہ کیا بول رہے ہیں‘‘۔
اور ابھی چڑیا نے علی کو شکریہ بھی کہا تھا، یوسف نے بتایا۔
اچھا، اور کیا کہہ رہے تھے، نانو نے پوچھا۔
تو علی نے جلدی جلدی پوری بات بتائی۔
نانو نے کہا ’’اصل بات یہ ہے کہ آپ تینوں کریم کھا کر بسکٹ ضائع کردیتے ہیں اور اب ان پرندوں کو شوق سے بسکٹ کھاتے دیکھ کر آپ کو ایسا لگا کہ سب آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں‘‘۔
ان کو سمجھ تو نہیں آیا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے مگر تینوں نے سر ہلا دیا جیسے سب سمجھ آگیا اور نانو کے ساتھ نیچے آگئے دوسرے دن احمد اور علی کی مما نے فون کیا اور بتایا کہ آج بچوں نے پورا بسکٹ کھایا ہے اور ان کو بہت مزے کا لگا۔
اور یوسف کو تو لگا کہ اس میں طاقت بھی آگئی۔
نانو یہ سن کر مسکرا دیں۔
کیوں بچوں آپ بھی کریم کھا کر بسکٹ پھینکتے تو نہیں نا، پورا کھاتے ہیں نا؟؟؟

حصہ