اپنے ملک، شہر اور اپنے آپ سے محبت کیجیے

377

سید اقبال چشتی
پاکستان جب سے معرضِ وجود میںآیا ہے اُس وقت سے لے کر آج تک پاکستان میں بسنے والے عوام اور ملک کی قسمت نہیں بدلی۔ ہر الیکشن میں عوام اپنے پاس ووٹ مانگنے کے لیے آنے والوں کو اس اُمید اور آس پر منتخب کرتے رہے کہ اس بار ملک کی نہ سہی کم از کم ہمارے شہر کی قسمت بدل جائے گی۔ لیکن ستّر سال بعد بھی نہ ملک کی قسمت بدلی اور نہ ہی کوئی شہر لندن اور پیرس بن سکا، بلکہ پہلے سے زیادہ مسائل نے ملک اور شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس قوم کے غریب کے بچوں کو نہ تعلیم کی سہولت ملی نہ صحت کی، اور جیسے تیسے کچھ پڑھ لکھ جانے کے بعد نہ روزگار ملا اور نہ ہی امن و امان اور سکون مل سکا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک پورے ملک کی صورتِ حال ایک جیسی ہے۔ جو بھی حکمران آتا ہے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے اور پھر اس قوم کے کیے گئے فیصلوں کا مذاق اڑاکر ملک سے باہر جابستا ہے ۔
ایک بار پھر الیکشن کی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے اور ہر سیاسی پارٹی عوام کو نئے نئے نعروں اور اپنے انقلابی منشور سے قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ عوام ہمیں اقتدار کی مسند تک پہنچائیں پھر دیکھیں ملک کی ترقی اور خوشحالی۔ لیکن عوام شاید اِس بار سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ کون واقعی اس ملک کی قسمت بدل سکتا ہے! کیا وہ لوگ جو دو سے تین بار اقتدار کی مسند پر آچکے ہیں انہیں ایک بار پھر آزمایا جائے؟ یا پھر اُن لوگوں کو جو ہر پارٹی کے مزے لے چکے ہیں اور وزیر مشیر رہ چکے ہیں، اپنے آپ کو الیکٹ ایبلز کہلانے والے جوکبھی اِدھر کبھی اُدھر ہوکر پارٹیاں بدلنے کے ماہر ہیں جنھیں عرفِ عام میں لوٹا کہا جاتا ہے، وہ ایک بار پھر لوٹے بن کر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ عوام اور ملک کی قسمت بدلنے کا خواب دکھاکر عوام کے پاس آرہے ہیں؟ یا پھر وہ لوگ جن کی کارکردگی اور دامن ملک اور قوم کے سامنے ہے، جو کرپشن سے پاک دیانت دار قیادت کہلاتی ہے منتخب کرکے ایک موقع ان کو بھی دیا جائے؟ بہرحال فیصلہ عوام ہی کو کرنا ہے، کیونکہ سیاسی قیادت ایک بار پھر اپنی قسمت کا فیصلہ کروانے عوام کے پاس ہی آئی ہے۔ کسی ایمپائر یا الیکٹ ایبلز کے پاس اقتدار کی چابی نہیں ہے۔ ہر الیکشن میں عوام نے ان سیاسی افراد کو منتخب کیا جو عوام کے مسائل ہی سے واقف نہیں تھے، جو عوام کو اپنی دولت کی چمک دکھا کر ایوانوں میں پہنچتے رہے۔ ہمارے یہ ارب پتی اور کروڑ پتی ارکانِ اسمبلی دراصل ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملک کی دولت اور سیاست پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور حکومتی ایوانوں میں بڑھتی ہوئی خاندانی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے صحیح فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص کر جن لوگوں نے ملک و قوم کی دولت کو باپ کا مال سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ان کے احتساب کا وقت آچکا ہے۔ اب جبکہ عوام کے سامنے اس کرپٹ اشرافیہ کے کارنامے آچکے ہیں، اس کے بعد بھی ان کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانا ملک اور قوم کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ اس الیکشن سے قبل عوام نے جن لوگوں کو منتخب کیا اُن کی کارکردگی کیا رہی؟ کیا عوام کو اپنے بچوں کے لیے معیاری سرکاری اسکول میسر آسکے؟ اگر عوام صرف اس بات پر ہی ان حکمرانوں کا احتساب کریں تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ غریب کے بچوں کے پڑھنے کے لیے کوئی اسکول نہیں۔ اگر اسکول کی عمارت ہے تو اساتذہ نہیں، اگر اساتذہ ہیں تو اسکول کی عمارت نہیں، یا پھر سہولیات سے محروم اسکول جہاں نہ بچوں کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر ہے اور نہ پینے کا صاف پانی ہی میسر ہے، بلکہ زیادہ تر اسکول… شہر ہو یا گائوں… ان ہی ارکانِ اسمبلی کی اوطاق یا باڑے بنے ہوئے ہیں اور غریب ان ہی الیکٹ ایبلز سے اُمید لگائے ہوئے ہیں کہ شاید ہماری قسمت بدل جائے۔ لیکن عوام کی قسمت بدلنے کا نام نہیں لے رہی۔ غلط فیصلوں کا خمیازہ ایک فرد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بقول سید منور حسن: عوام جھولی بھر بھر کر کرپٹ نمائندوں کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر پانچ سال گالیاں دیتے ہیں۔ یقینا اِس بار عوام کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنا پڑے گی، کیونکہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ عوام نے پورے رمضان میں بلکہ ان پانچ برسوں میں یہ دعائیں مانگی ہیں کہ اے اللہ ہمیں اور ہمارے ملک کو مصائب و مشکلات سے محفوظ رکھ… اللہ نے اپنے بندوں کے لیے کرم ہی کرم لکھ رکھا ہے، مگر دعائیں کرنے والے خود ہی کرپٹ اور اللہ کے باغیوں، اسلام دشمن نمائندوں کو منتخب کرکے اپنے اور ملک کے لیے مصائب و مشکلات کو دعوت دیتے ہیں، اور کرپٹ اشرافیہ اس بات پر خوش ہوتی ہے کہ ایک بار پھر عوام نے ان کو منتخب کرکے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ بھی کرپشن فری پاکستان نہیں چاہتے، اور ہمیں عوام نے لوٹ مار ہی کا مینڈیٹ دیا ہے۔
تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے، مگر ستّر سال گزرنے کے بعد بھی پاکستانی قوم ان سہولیات سے آج بھی محروم ہے۔ ارکانِ اسمبلی اپنی معمولی بیماری کا علاج بھی بیرونِ ملک جاکر کراتے ہیں مگر عوام کو سرکاری ہسپتالوں میں درد کی گولی بھی نہیں ملتی۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے چاروں صوبوں کے بڑے شہروں میں قائم سرکاری ہسپتالوں کا دورہ کیا اور ان حکمرانوں کی صحت کے حوالے سے فراہم کردہ سہولیات کا بھانڈا پھوڑ دیا، انہیں ہر جگہ ناقص انتظام اور کرپشن ہی نظر آئی۔ ان دوروں سے یہ بات سامنے آئی کہ ان حکمرانوں کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں، عوام مریں تو مریں حکمران کرپشن نہیں چھوڑیں گے۔ چیف جسٹس کو چاروں صوبوں میں مختلف مقامات اور اداروں میں جاکر یہی پیغام ملا کہ ان کرپٹ لوگوں کو منتخب کرکے عوام نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اب عوام کو سمجھ جانا چاہیے کہ انہیں اس الیکشن میں کیسے لوگوں کو منتخب کرنا ہے۔ کرپشن سے پاک عوامی نمائندے ہی عوام کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اس بار کروڑپتی و ارب پتی امیدواروں کو نہیں بلکہ ایسے لوگوں کو منتخب کیا جائے جو عوام کے درمیان رہتے ہیں۔ ایسی قیادت جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہو، عوام کے مسائل خود اُن کے مسائل ہوں، جو خود ان مسائل سے پریشان رہتے ہوں۔ اگر اس طرح کی قیادت اسمبلیوں میں پہنچے گی تو یقینا عوام کے مسائل پر بات ہوگی اور عوام کے مسائل حل ہوں گے۔ ورنہ جن کو معلوم ہی نہ ہو کہ پانی کی قلت کیا ہوتی ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ کس بلا کا نام ہے، مہنگائی کے کیا معنیٰ ہیں، امن و امان سے کیا مراد ہے، وہ عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیں گے بلکہ اپنے بینک بیلنس بڑھانے کی فکر کریں گے، اور کرپٹ اشرافیہ یہی کرتی ہے، کیونکہ جب تک بیوقوف زندہ ہے عقل مند بھوکا نہیں مر سکتا۔ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی ہوتا ہے، کیونکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے کالے انگریزوں کے ذریعے اس ملک کے عوام اور معیشت سب کو غلام بنا رکھا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بھارتی ریاست اُتر پردیش میں منتخب ہونے والے ہر چار نئے ارکان اسمبلی میں سے ایک قتل یا عصمت دری جیسے سنگین واقعات اور فوجداری مقدمات میں ملوث ہے، جبکہ 80 فیصد ارکانِ اسمبلی کروڑ پتی ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال پاکستان کے ارکانِ اسمبلی کی بھی ہے۔ لیکن عوام ذات برادری اور عصبیت کی عینک اتار کر دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ اس سے نہ صرف ہمارا بلکہ ملک اور قوم کا نقصان ہورہا ہے۔
جس شہر اور گائوں چلے جائیں مسائل کے انبار ہی نظر آئیں گے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار سٹر کیں، اُبلتے گٹر، پانی کی تلاش میں سر گرداں بچے اور بو ڑھے، بجلی آنے کے انتظار میں گلی میں باہر بیٹھے عوام۔ ہر محلے اور گلی کا یہی منظر ہے اور کئی دفعہ حکمرانی کے منصب پر بیٹھنے والے ایک بار پھر وہی کچھ کہہ رہے ہیں کہ اگر عوام نے ہمیں ایک بار پھر مو قع دیا تو ملک اور قوم کی قسمت بدل دیں گے۔ سوچنے کا مقام ہے تمام وسائل اور اختیارات رکھنے والے جوحکمران عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا نہ کرسکیں وہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پرکیسے ڈالیں گے!
کسی دوسرے شہر کی کیا بات کریں، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام کے غلط فیصلوں اور پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مہاجر سندھی عصبیت نے روشنیوں کے شہر کو کچرے اور مسائل کے انبار میں تبدیل کردیا ہے۔ اربوں روپے کا بجٹ کہاں جارہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ دو کروڑ آبادی والا شہر تمام جدید سہولیات سے محروم کسی دوردراز دیہات کا منظر پیش کررہا ہے جہاں نہ صفائی ہے، نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے اور نہ ہی روزگار… میئر کراچی کے بقول کراچی پورے ملک کو چلا رہا ہے مگر خود اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ مگر میئر کراچی میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہے کہ اس شہر کو میری پارٹی ہی نے اس حال میں پہنچایا ہے، اس شہر کو ہم نے ہر حکومت میں شامل ہوکر خوب لوٹا اور تباہ و برباد کیا ہے۔ خود ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہمارے وزیروں کے باہر اثاثہ جات موجود ہیں جس میں سابق وفاقی وزیر بابر غوری کے ہیوسٹن میں پیٹرول پمپ اور ریسٹورنٹ ہیں۔ یہ بیان دیگ کے چند چاول ہیں جبکہ پوری مہاجر قیادت نے اپنی قوم کو لفظ مہاجر کے نام پر بیوقوف بنایا ہے، مگر تیس سال گزرنے کے بعد بھی اس شہر اور عوام کی قسمت نہیں بدلی، بلکہ جہاں بھی زبان کا نعرہ لگا وہاں کراچی جیسا ہی حال ہے ۔
عالمی ادارے رپورٹ دے رہے ہیں کہ پاکستان کا کرپشن میں کون سا نمبر ہے، پاکستان میں ماہانہ کتنے ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، کرپٹ اشرافیہ ملک کی ترقی اور خوشحالی میں کس طرح رکاوٹ ہے۔ پاناما لیکس اور نجانے کون کون سی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ کون سی سیاسی قیادت کرپٹ ہے، کون ملک سے باہر کتنی دولت رکھتا ہے، کون قاتل، کون ملک دشمن اور کون اسلام دشمن ہے، کون جرائم پیشہ اور شرابی ہے۔ یہ سب اس لیے قوم کے سامنے لایا جارہا ہے کہ اِس بار الیکشن میں قوم اپنے مستقبل اور ملک کی بہتری کا فیصلہ کرے۔ اگر قوم اپنے ملک اور شہر سے محبت رکھتی ہے تو اس الیکشن میں اسے سوچ سمجھ کر دیانت دار، کرپشن سے پاک، ملک اور قوم سے مخلص قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا، کیونکہ مسائل کے گرداب میں حکمران نہیں عوام ہیں، اور یہ الیکشن محرومیوں کے تحفے دینے والوں کو مسترد کرکے ان کے بہترین احتساب کا ذریعہ ہوسکتا ہے، اور عوام سے بڑھ کر کوئی احتساب نہیں کرسکتا۔

حصہ