کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی تباہی کا آغاز

391

محمد انور
کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ( کے ایم ڈی سی ) جس کی بنیاد 1991 میں رکھی گئی تھی اس کی بنیاد رکھنے کا سہرا اس وقت کے میئر فاروق ستار کو جاتا ہے لیکن اسے نئی عمارت میں منتقل کرنے اور مکمل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں ڈھالنے کا اعزاز سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خاں نے حاصل کیا۔ نعمت اللہ خاں کی کوششوں و کاوشوں سے اس کالج کو بلدیہ عظمٰی کا منفرد حیثیت رکھنے والے میڈیکل انسٹیٹیوٹ کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے اس میں بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نتیجہ میں اس طبی تعلیمی درسگاہ مالی بحران کا بھی شکار ہونے لگی۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اساتذہ و افسران کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہیں بھی نہیں مل سکیں۔ جس کی وجہ سے تنخواہوں سے محروم اساتذہ و افسران ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
کے ایم ڈی سی میں جاری بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے اس کی ساکھ روز بروز متاثر ہورہی ہے۔ حال ہی میں روزنامہ جسارت نے اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ” بلدیہ کراچی کے واحد کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی) میں پرنسپل کی تقرری اور اساتذہ کی ترقیوں کے معاملے پر سنگین نوعیت کی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں۔ اس رپورٹ میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر نے جو کے ایم ڈی سی کے چیئرمین بھی ہیں نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو جواز بنا کر کے ایم ڈی سی کا پرنسپل ایک ڈینٹسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمود حیدرکو بنا دیا ہے جبکہ دوسری طرف بلدیہ عظمیٰ میٹرو پولیٹن کمشنر نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود ڈپارٹمینٹل پروموشن کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے سینارٹی لسٹ کو ظاہر کیے بغیر من پسند افراد کو ترقیاں دینے کا فیصلہ کرلیا جس کے باعث کالج اساتذہ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔رپورٹ میں جسارت کی اپنی تحقیقات کا بھی حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ میئر وسیم اختر نے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کالج کے سینئر پروفیسر
ڈاکٹر محمود حیدر کو جلاف ضابطہ تعینات کیا ہے‘ ڈاکٹر محمود حیدر اس سے قبل اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ چونکہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ( پی ایم ڈی سی ) کے رولز کے تحت کسی میڈیکل و ڈینٹل کالج میں ڈینٹل سرجن کو وائس پرنسپل مقرر کیا جاسکتا ہے جبکہ پرنسپل کے لیے ایم بی بی ایس گریجویٹ پروفیسر ہی کو پرنسپل مقرر کیا جاسکتا ہے۔ پی ایم ڈی سی نے اپنے قوانین میں واضح کیا ہے کہ اس رولز کی خلاف ورزی پر کالج کا کونسل سے الحاق ختم بھی کیا جاسکتا ہے تاہم مئیر وسیم اختر نے ڈاکٹر محمود حیدر کو وائس پرنسپل کی اسامی سے ہٹا کر پرنسپل مقرر کردیا ہے اور س حکم کو عدالت کی ہدایت سے مشروط کیا گیا ہے حالانکہ عدالت نے اپنے حکم میں واضح کیا تھا کہ کالج کے کسی سینئر پروفیسر کو جو قواعد پر پورا اترتا ہو پرنسپل مقرر کیا جائے۔ ساتھ ہی عدالت نے سینارٹی لسٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ کے ایم ڈی سی میں ڈینٹسٹ کو پرنسپل مقرر کیے جانے سے قوانین کے تحت اس اسامی کے حقدار سینئر پروفیسر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جسارت کی تحقیقات کے دوران ایک سینئر پروفیسر نے بتایا ہے کہ کے ایم ڈی سی کی گورننگ باڈی کے2 سابقہ اجلاس کے منٹس کی منظوری نہ ہونے کے باوجود مزید اجلاس بھی طلب کیے گئے۔ اسی طرح 26 مئی کو کالج کی ڈپارٹمینٹل کمیٹی کا اجلاس بھی خلاف قانون طلب کیا گیا اور خلاف ضابطہ اس اجلاس کی صدارت میٹرو پولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان نے کی اس اجلاس کے 23مئی کو جاری کیے جانے والے سرکلر کے مطابق اجلاس کی صدارت میئر کراچی کو کرنا تھی جبکہ اجلاس میں کمیٹی کے دیگر ممبران کو مدعو کیا گیا تھا۔ ڈی پی سی کمیٹی میں بحیثیت ممبر میٹرو پولیٹن کمشنر کے نہ ہونے کے باوجود انہوں نے26 مئی کو ہونے والے اجلاس کی صدارت خلاف قانون کی اور مختلف گریڈ کے اساتذہ اور دیگر کی ترقی کا فیصلہ کیا گیا جس کا اعلامیہ 27 مئی کو بلدیہ عظمیٰ کے ترجمان نے جاری کیا۔ اس اعلامیے کے مطابق ڈی پی سی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت میٹرو پولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمان نے کی جس میں ترقیوں کے لیے تمام تجاویزکا جائزہ لیا گیا اور ترقیوں کا فیصلہ کیا گیا تاہم جن اساتذہ و دیگر افراد کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا ان کے نام نہیں بتائے گئے اور نہ ہی کے ایم ڈی سی میں اس حوالے سے کوئی سرکلر جاری نہیں کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی کے اجلاس سے قبل سینارٹی لسٹ فائنل کی جانی تھی اور طریقہ کار کے تحت یہ لسٹ کالج میں آویزاں بھی کی جانی تھی مگر اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔ کے ایم ڈی سی کی گورننگ باڈی اور ڈی پی سی میں شامل ایک افسر نے بتایا ہے کہ گزشتہ اجلاس میں صرف یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ گورننگ باڈی اور پروموشن کمیٹی میں میٹرو پولیٹن کمشنر کو بھی نامزد کیا جائے گا۔ اس اعلیٰ اورذمے دار افسر نے ڈپارٹمینٹل کمیٹی کے اجلاس سے ہی لاعلمی ظاہر کردی ہے۔ذرائع کے مطابق کے ایم سی کے ترجمان نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے اس کے مطابق جن ٹیچرز اور دیگر کی ترقی کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ ان میں ایک ڈاکٹر زہرہ بتول بھی ہیں جو میٹروپولیٹن کمشنر کی قریبی رشتے دار ہیں‘ اس لحاظ سے بھی ایم سی نہ پروموشن کمیٹی میں شامل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے اجلاس کی صدارت کرسکتے ہیں۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ اس بے قاعدگی کو درست کرنے کے لیے ہفتہ 9 جون کو کے ایم ڈی سی میں طلب کیے جانے والے اجلاس میں اس کی منظوری دیدی جائے گی۔
ان بے قاعدگیوں کی بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں جاری بے قاعدگیوں کے حوالے سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کالج میں حکومت سندھ کی منظوری کے بغیر گریڈ 20 اور 21 کی ناصرف اسامیاں تخلیق کرلی گئیں ہیں بلکہ من پسند اساتذہ کو گریڈ 21 دینے کی کوشش بھی شروع کردی گئی۔ حال ہی میں کے ایم ڈی سی میں خلاف قانون پرنسپل کی اسامی پر تعینات کیے جانے والے ڈینٹسٹ ڈاکٹر محمود حیدر کسی طرح گریڈ 21 میں پہنچ چکے ہیں جبکہ کے ایم سی جس کا” کے ایم ڈی سی” ذیلی ادارہ ہے اس کے میئر/ ایدمنسٹریٹر اور میٹروپولیٹن کمشنر کی اسامی بھی گریڈ 20 کی ہے۔ لیکن کے ایم ڈی سی میں ڈینٹسٹ پروفیسر گریڈ 21 کے مزے لے رہیں ہیں۔ اس ضمن میں معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر محمود حیدر کی بحیثیت پرنسپل تعیناتی اس لحاظ سے بھی خلاف قانون ہے کہ یہ گریڈ 20 کی پوسٹ ہے جبکہ ڈاکٹر محمود حیدر گریڈ 21 میں ہیں۔ جسارت سنڈے میگزین کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں سینئر ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی اسامی موجود ہی نہیں مگر اس پوسٹ پر گریڈ 20 کی نرگس شگفتہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ کے ایم ڈی سی کی منظورشدہ اسامیوں میں صرف ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی پوسٹ موجود ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ایم ڈی سی میں سینئر ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی اسامی نہ ہونے کے باوجود یہ غیرقانونی اسامی یہاں فعال ہے اور اس اسامی پر تعینات نرگس شگفتہ کی گریڈ 20 کی تنخواہ ڈائریکٹر ریسرچ کی اسامی لے رہی ہیں یہ یہ اسامی اکیڈمک پروفیسر کی ہے اور اس پر صرف پروفیسر ہی مقرر کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ نرگس شگفتہ کے ایم سی میں براہ راست 17 گریڈ میں سیاسی بنیاد پر بھرتی کی گئیں تھیں۔ وہ ایم کیو ایم کے سابق و مقتول سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق کی ہمشیرہ ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کے ایم ڈی سی کے متعدد پروفیسر اور دیگر افسران دوہری شہریت کے حامل بھی ہیں جو ہر سال کم از کم دو مرتبہ بغیر اجازت اور چھٹیاں لیے بغیر ہی بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔
کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں خلاف قانون کڑورں روپے کی مشینیں خریدی گئیں۔
یہ مشینیں بغیر ٹینڈر کے خریدکر عباسی شہید بھیج دی گئیں تھیں جہاں وہ چل نہیں سکیں اس سارے معاملات پر قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے تحقیقات شروع کردی۔ کالج کے موجودہ پرنسپل اور اکاؤنٹس افسر سمیت 3 اہم شخصیات دہری شہریت رکھتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیہ عظمٰی کے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی ) میں مختلف غیر ضروری سامان کی خریداری میں سرکار کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے اور دہری شہریت کے حامل ڈائریکٹر اکاؤنٹس اور دو پروفیسرز کی دہری شہریت رکھنے اور بغیر اطلاع چھٹیوں پر چلے جانے کے الزامات والے ان افراد کے خلاف انکوائری کی جارہی ہے۔ جن پر خلاف قانون بیرون ملک دورے کرنے کا بھی الزام ہے۔ دہری شہریت کے اساتذہ پر الزام ہے کہ وہ ہر سال بغیر اجازت چھٹیوں پر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور کے ایم سی سے تنخواہ بھی پوری وصول کرتے ہیں۔نیب کے ذرائع کے مطابق کے ایم ڈی سی میں 2014 میں 11 کروڑ 50 لاکھ روپے کی لاگت سے ایسی مشینیں خریدی گئیں تھیں جن کی کالج کو ضرورت نہیں تھی۔ان میں انڈوسکوپی برین آٹواسکوپ ایئر ، دو عدد ایکسرے مشینیں جن میں دو او پی جی ڈینٹل ایکسرے اور ہائیڈروانسنٹور مشینیں شامل تھیں جنہیں عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ تمام مشینیں بغیر ٹینڈر اور دیگر قوانین کے خلاف خریدی گئیں بعدازاں یہ تمام مشینیں چل ہی نہیں سکی۔کروڑوں روپے کی اس خریداری میں اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو ، کے ایم ڈی سی کے اس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر وقار کاظمی ( الطاف حسین کے معالج سابق ) ، کے ایم ڈی سی کی سینئر ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اور ڈائریکٹر اکاؤنٹس براہ راست ملوث ہیں۔ ان مشینوں کی خریداری کی منظوری ثاقب سومرو سے پہلے موجود ایڈمنسٹریٹر نے دی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کالج کے ڈائریکٹر اکائونٹس رفیع مرشد جو کہ مبینہ طور پر کنیڈین نیشنلٹی بھی رکھتے ہیں ان دنوں پھر ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں تاہم نیب نے ان کو ایک ہفتے میں طلب کیا ہے۔ زرائع کے مطابق نیب کالج کی ایک خاتون پروفیسر ریحانہ شاہ کے حوالے سے بھی اس الزام کی تحقیقات کررہی ہے کہ انہوں نے چند سال قبل پانچ سال تک ڈیوٹی سے غیر حاضر رہیں بعد ازاں شوکاز نوٹس کے اجرا کے بعد مبینہ طور پر جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرکے طبی بنیادوں پر رخصت منظور کروالیں۔ زرائع کا کہنا ہے کہ مزکورہ پروفیسر امریکا کی نیشنیلٹی رکھتی ہیں جبکہ کالج کے موجودہ پرنسپل بی ڈی ایس ڈاکٹر محمود حیدر بھی مبینہ طور پر برطانیہ کی بھی شہریت رکھتے ہیں۔ نیب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ایم ڈی سی سنگین نوعیت کی خلاف ورزیوں کی جاری تحقیقات سے مزید اہم انکشافات ہونے کے امکانات ہیں۔

کے ایم ڈی سی کی تنخواہیں کہاں جارہی ہیں ؟

ان دنوں کے ایم ڈی سی شدید مالی بحران کا شکار ہے اور وہاں کے پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز سمیت تمام ملازمین کو تنخواہیں معمول کے تحت نہیں مل رہیں۔ بلکہ متعدد اساتذہ و افسران کو گزشتہ 3 ماہ سے تنخواہوں کی مد میں ایک پائی بھی نہیں ملی۔ حالانکہ حکومت سندھ کے ایم ڈی کو ماہانہ اس مد میں ڈھائی کروڑ روپے دیا کرتی ہے جس میں کمی کو پورا کرکے کے ایم سی 3 کروڑ 80 لاکھ روپے ادا کرتی تھی لیکن میئر وسیم اختر کے چارج سنبھالنے کے بعد انہوں نے اس مد میں کے ایم سی کی جانب سے دی جانے والی گرانٹ کو بند کردیا اور کے ایم ڈی سی کو ہدایت کی کہ وہ اپنی آمدنی میں سے یہ پورا کرے۔ ایسا کرنے کے باعث کے ایم ڈی سی کی اپنی سالانہ آمدنی 22 کروڑ روپے بھی ختم ہوگئی جس کی وجہ سے کالج کے ضروری نوعیت کے کام بھی نہیں ہو پارہے۔ کالج کے واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ سابق ایڈمنسٹریٹرز کے کسی دور میں تنخواہوں کا مسلہ پیدا نہیں ہوا مگر اب منتخب دور میں ایسا ہورہا ہے جو ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔

حصہ