وہ کتاب جو اشاعت سے قبل ہی۔۔۔

304

سلمان علی
ہر سال کی طرح رمضان المبارک کا تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا پروانہ لے کر آیا ہے۔ شیطان کی گیارہ ماہ کی معیت نے پوری کوشش کی ہے کہ اس ’بمپر آفر‘ سے کم سے کم لوگ ہی فائدہ اٹھا سکیں۔ اس ضمن میں پہلے انٹرنیٹ اور اب نئے عنوان کے ساتھ سوشل میڈیا ایک بھرپور، جامع مثال کی صورت سامنے ہے۔ لغویات کی ایک تعریف یہ بھی ہے: جو آپ کو فرض سے غافل کردے، بھلا دے، یا وقت نکال دے۔ عوام الناس کا سوشل میڈیا سے بڑھتا ہوا تعلق یہ بتا رہا تھا کہ سیاسی، سماجی حالات و واقعات پر تجزیوں، تبصروں اور آراء کے ساتھ حصولِ انصاف اور مسائل کے حل کے لیے حکمران طبقات کو متوجہ کرنے کا عمل بدستور زور و شور سے جاری رہا۔ خیر یہ تو سوشل میڈیا کا ایک ہی پہلو ہے، وگرنہ لغویات کی تمام دیگر شکلوں کے ساتھ اس سے کئی کاروباری و معاشی سرگرمیاں بھی انجام دی جا رہی ہیں۔

سوشل میڈیا انٹرویو:

اسی شیئرنگ میں ایک تازہ ویڈیو اسلام آباد کے ایک شخص شاکر اللہ کی فیس بک پر سامنے آئی۔ اس ویڈیو میں انہوں نے سی ڈی اے کے ساتھ ایک کیس کے سلسلے کی تفصیل بتاتے ہوئے موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ماضی میں کرپشن (رشوت) کی داستان نہایت ہی ڈٹ کر بیان کی۔ پھر اُنہوں نے سی ڈی اے کے خلاف میٹرو کے چکر میں شہر کے ماسٹر پلان کی تباہی اور قبضہ مافیا پر ایک کیس کی سماعت کے موقع پر بدھ کو سپریم کورٹ میں مستقل ریلیف نہ ملنے پر خوب شور شرابا کیا اور چیف جسٹس ثاقب نثار کو غیر قانونی تجاوزات و قبضہ مافیا کے حوالے سے متوجہ کیا۔ اس واقعے کی خبر کو تو میڈیا نے دبا دیا لیکن سماجی میڈیا پر ایک تفصیلی انٹرویو دے کر موصوف نے چیف جسٹس کے ماضی کو کھنگال ڈالا اور خوب ریٹنگ لے لی۔ شاکر صاحب کہتے ہیں کہ میں چیف جسٹس کے ساتھ ٹی وی شو میں تمام ثبوتوں کے ساتھ لائیو مباحثہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس ویڈیو میں جہاں چیف جسٹس کے کردار(کرپشن) کی نشاندہی کی گئی ہے وہیں اسلام آباد میں ہونے والی بڑے پیمانے پر کرپشن اور قبضہ مافیا کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔

زبردستی وائرل:

پچھلے ہفتے کی طرح اِس ہفتے بھی ملک کے معروف مزاحیہ ٹی وی میزبان عامر لیاقت حسین سوشل میڈیا پر مختلف طریقوں سے چھائے رہے۔ پہلے تو پیمرا پابندی، پھر عدلیہ کے حکم پر واپسی کے بعد فاتح کی صورت میں۔ پھر اس دوران مولانا قاری خلیل الرحمن جاوید کی بھی اُسی پروگرام میں حیرت انگیز واپسی بھی زیر بحث رہی۔ اس واپسی کو ’سنگھم ریٹرن‘ اور ’ٹارزن کی واپسی‘ سے تشبیہ دے کر سوشل میڈیا پر خوب طنز کا نشانہ بنایا گیا۔ خصوصاً اُن کی اُس گفتگو کو جو انہوں نے عامر لیاقت کے حوالے سے لائیو شو میں تعریفی کلمات کی صورت میں کی۔ معروف صحافی و بلاگر فیض اللہ خان اس حوالے سے کسی سماجی میڈیا مہم کا حصہ نہ بننے پر یوں اظہارِ تشکر کرتے نظر آئے: ’’قاری خلیل نے عامر لیاقت کے چرن چھو کر وہی کام کیا جو سیاسی سلفی مصر، سعودی عرب اور پاکستان میں کرتے ہیں، فرق بس اتنا ہے کہ قاری خلیل اینکر اور وہ حکمرانوں کے قدموں میں گرے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ جیسے ’’ستھرے عقیدے‘‘ کے حامل مواحد کے واسطے مہم نہیں چلائی‘‘۔ اسی طرح وہ تمام لوگ جو قاری خلیل کی حمایت مہم کا حصہ بنے تھے، اُن کی مایوسی بھی کچھ اس طرح کے تبصروں کے ساتھ سامنے آئی: ’’باپ بڑا نہ بھیا… سب سے بڑا روپّیا‘‘۔ دوسرا طریقۂ شہرت اُن کے روزانہ کے شو کے کلپس کا ہے، یہ وہ ٹکڑے تھے جو لائیو نشر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر خاصے وائرل رہے۔ ان کلپس میں علماء کے درمیان فقہی معاملات پر سخت بحث و مباحثہ ہوتے تھے۔

سوشل میڈیا اور انصاف کی مہم:

اس ہفتے بھی سوشل میڈیا اور ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا نے ایک مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے اہم کام انجام دیا۔ یہ قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر دو سال قبل 2016ء میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے مجرم کی آزادی پر اٹھنے والا شور تھا، جسے سماجی میڈیا پر بھرپور مقبولیت ملی اور رمضان میں تو شاید زیادہ نیکیوں کے حصول کے لیے خوب وائرل کیا گیا۔ 23 جان لیوا وار جسم پر کھانے کے باوجود رب کائنات کی منشاء کے مطابق وہ زندہ بچ گئی۔گزشتہ سال مجرم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے اقدام قتل کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ مجرم اُس کے کالج اور کلاس کا ہی طالب علم بتایا گیا جو کہ ایک سینئر وکیل کا بیٹا تھا۔ اُس وقت بھی سوشل میڈیا پر یہ موضوع بہت وائرل رہا تھا۔ بہرحال سخت دباؤ کے باوجود خدیجہ نے اپنے والدین کی معاونت اور عوامی سپورٹ کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑا۔ مئی 2017ء میں سات سال سزا کے اعلان کے دو ماہ بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے مجرم کی سزا سات سال سے پانچ سال میں تبدیل کردی، پھر سیشن کورٹ میں خدیجہ نے سزا بڑھانے کا مطالبہ کیا جسے درست تسلیم کیا گیا۔ اس کے بعد مجرم کے والد ماحول ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرتے رہے، اور سزا ختم کروانے لاہور ہائی کورٹ پہنچے۔ تاریخ چلتی رہی، شاید حکومت کے جانے کا انتظار تھا… اور پھر وہی ہوا کہ ایک شارٹ آرڈر کے تحت سابقہ عدالتوں کی تمام کارروائی، گواہیوں اور ثبوتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے مجرم کو باعزت بری کردیا گیا۔ اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر بھی سخت ردعمل سامنے آیا، جس نے ماضی میں اس طرح کے واقعات کی یاد تازہ کی۔ سوشل میڈیا کی ایک صارف نے اس کو مہم کے طور پر چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے دیگر لوگوں کو بھی اُبھارا: ’’خدیجہ کے جسم پہ لگے زخموں کے نشان تو ابھی باقی ہیں لیکن اس کی جیت کو ہار میں بدلنے کا پورا انتظام کردیا گیا ہے۔ ستم یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جج صاحب نے مجرم شاہ حسین کے والد جو ایک وکیل ہیں، کے سامنے خدیجہ کو بلا کر کہا کہ بڑے بڑے قتلوں میں صلح ہوجاتی ہے۔ کیا آپ اس ’’معمولی‘‘ کیس میں صلح نہیں کرسکتیں! ہوسکتا ہے کہ آپ نے شاہ حسین کی انسلٹ کردی ہو اور اُس نے مشتعل ہوکر حملہ کردیا ہو۔ یعنی اگر خدیجہ نے شاہ حسین کی کوئی بات نہ مان کر اسے غصہ دلا دیا تو وہ حق بجانب ہے کہ خنجر لے کر خدیجہ پہ پل پڑے! ابھی آگے اور سنیے ہمارے ججوں اور گورنروں کی منطق۔ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے خدیجہ سے کہا کہ ’’بس اب جانے دیں۔ مجرم کو معاف کردیں۔ اس کا بھی آگے کیریئر ہے‘‘۔ سب مل کر کہیے سبحان اللہ۔ کیا آپ کو مجرم کے چہرے پر شرمساری کی ایک رمق بھی دِکھتی ہے؟ اس کا اعتماد بتارہا ہے کہ ایک لڑکی کو جان سے مار دینے کی کوشش کرنے کے باوجود کوئی ماں کا لال اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ یہ مہم چلانے میں ہمارا ساتھ دیں، اسے شیئر کریں، آگے پہنچائیں تاکہ مجرم کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ یقین کیجیے اگر ہم چاہیں تو بہت کچھ بدل سکتے ہیں‘‘۔ بہرحال عوام کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر کئی پاکستانی معروف فنکاروں نے بھی اس مہم میں اپنا حصہ ملایا جن میں حمزہ علی، ماہرہ خان، علی گل پیر، ماورا، ارمینہ خان، عثمان خالد اور حسن نیازی شامل تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے خدیجہ صدیقی کیس کا ازخود نوٹس لے کر مقدمے کی فائل طلب کرلی ہے اور سماعت 10جون کو لاہور رجسٹری میں کی جائے گی۔

اشاعت سے قبل کی مشہورکتاب:

سوشل میڈیا کا زمانہ ہے لیکن دو کتابوں نے اس مہینے ایسا کہرام برپا کیا کہ سوشل میڈیا کے تمام کونوں سے انہی کی آوازیں بلند ہوتی دکھائی دیں۔ دونوں میں ایک بات مشترک تھی کہ اپنے تئیں دونوں نے وہ راز کھولے جن کی انہیں اخلاقی، قانونی، سماجی، معاشی آزادی نہ تھی۔گویا سادہ الفاظ میں وہ ایک جرم اور گناہ کی مرتکب ہوئیں۔ پہلی کتاب پاکستان کی خفیہ دفاعی ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے لکھی اور اپنے دشمن ملک بھارت سے بڑھ کر پاکستان دشمنی یا یوں کہیںکہ بھارتی بالادستی تسلیم کرنے کا ثبوت دیتے نظرآئے۔ دوسری کتاب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے لکھی ہے (اس کا کی پبلشنگ کا مرحلہ باقی ہے، لیکن ملکی مخصوص حالات میں اس کے مواد کا اجراء ہوجانا درست نیت کی جانب اشارہ نہیںکرتا)۔ ریحام خان نے عمران خان کے ساتھ اپنے چند ماہ کے ازدواجی تعلقات کو بنیاد بناکر اُن کی نجی زندگی کے ایسے پہلو بیان کیے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اس تبصرے کو خاصی مقبولیت ملی۔ ’زرداری کا مفاد عامہ میں مشورہ : بیوی کو چھوڑنا ہو تو کبھی زندہ مت چھوڑو‘۔ یہ بات کم از کم عمران خان کی شخصیت کے حوالے سے بالکل واضح ہے کہ انہوں نے جتنی شادیاں کیں اور ختم کیں کبھی بھی اُس کو موضوع نہیں بنایا۔ اینکروں، صحافیوں کے لاکھ کریدنے پر انہوں نے ہمیشہ اچھے، مثبت الفاظ ہی ادا کیے۔ مگر یہ بات بھی درست ہے کہ ان کے خلاف زمانۂ کھیل سے اب تک کئی خواتین اسکینڈلز پارٹی میں اور اس کے باہر سامنے آتے رہے۔ بہرحال اس کتاب کے مواد نے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ہر جانب شور برپا کردیا، یہ شور پاکستانی میڈیا کے ساتھ بھارتی میڈیا پر بھی نظر آیا۔ جمائما گولڈ اسمتھ نے بھی جو عمران خان کی سابق اہلیہ ہیں، ٹوئٹر پر اس کتاب کی اشاعت کو برطانیہ میں ناممکن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ کتاب وہاں شائع ہوئی تو وہ قانونی کارروائی کریں گی۔ تحریک انصاف کے سپورٹر اس کو نوازشریف کی سازش قرار دیتے رہے۔ اسی طر ح ایک اور اسٹیٹس بھی خاصا شیئر ہوتا رہا ’’عورت کی پستی سے بچو، وہ گرنے پر آئے تو ریحام خان بن جاتی ہے‘‘۔ ایک اور دوست کہتے ہیں: ’’پی ٹی آئی کا مقابلہ اِس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) سے نہیں بلکہ کتاب سے ہوگا‘‘۔ البتہ سب سے اچھا اور جامع تبصرہ جو مجھے لگا وہ ہارون رشید صاحب کی ٹوئٹر آئی ڈی سے ہوا: ’’ریحام نے چار غلطیاں کیں: 1۔غیر ضروری بلکہ بہیمانہ تنقید، 2۔ جذبۂ انتقام سے مغلوب غیر متعلق شخصیات کو ہدف کرنا، 3۔ نوازشریف، شہباز، حمزہ اور مریم کی بے وجہ ستائش، 4۔ انڈین ٹی وی کو انٹرویو۔ اس کا وار خطا ہوا‘‘۔ اس کے بعد ہی اس کو سماجی میڈیا پر ’’بین الاقوامی سازش بھی قرار دیا گیا، خصوصاً بھارتی ٹی وی کے انٹرویو کے مواد کے بعد۔ بہرحال عمران خان کا فون بلیک بیری آج تک اُن کے پاس ہے جو بہت سارے ثبوتوں اور کتاب کے مواد کی ایک سورس ہے۔ ان سب سے ہٹ کر ایک اہم بات جس کی جانب نورالہدیٰ شاہین نے اشارہ کیا اور یاد دلایا کہ ’’ریحام تم چاہو تو سی ڈی لے آؤ، اسد درانی کی کتاب پھر بھی نہیں بھولیں گے‘‘۔ اس سارے شور میں ملکی سالمیت اور نظریات کے خلاف لکھی گئی کتاب ’’اسپائی کرانیکلز‘‘ واقعی موضوع سے باہر نکل گئی، ہوسکتا ہے کہ یہ ملکی مفاد میں ہو لیکن عوام اس غداری کا انجام دیکھنا چاہتے ہیں۔

گل بخاری کے چند گھنٹے :

اسی طرح ایک اور نام گل بخاری، جو کہ ایک 50سالہ برطانوی نژاد پاکستانی کالمسٹ، سماجی کارکن اور سماجی میڈیا پر ایک متحرک شخصیت کا تعارف رکھتی ہیں۔گزشتہ تین دن سے وہ بھی حیرت انگیز طور پر ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈ پر چھائی ہوئی ہیں۔ ہوا صرف یہ کہ چند گھنٹوں کے لیے انہیں کچھ نامعلوم افراد نے اغوا کیا۔ یہ خبر اتنی تیزی سے پھیلی کہ مریم نواز سے لے کر برطانوی پارلیمنٹ کے ردعمل اور پھر بھارتی چینلزکا بھی حصہ بن گئی۔ وائس آف امریکا اور بی بی سے نے بھی اس چند گھنٹے پر مبنی واقعے کو رپورٹ کیا۔ لاہور میں مقیم یہ خاتون مقامی ٹی وی کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے جارہی تھیں کہ راستے میں لاہور کینٹ کے علاقے میں اُن کی گاڑی کو چند نامعلوم افراد نے روکااور انہیں اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں زبردستی ڈال کر لے گئے۔ بہرحال خاتون کچھ (چار پانچ) گھنٹوں کے اندر صحیح سلامت گھر واپس پہنچ گئیں۔ واپس آنے کے بعد اب تک انہوں نے کچھ نہیں بتایا، بس گھر والوں کا کہنا ہے کہ فی الحال گل بخاری کو آرام و سکون کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر خاصی گفتگو تب چھڑی جب نسٹ (نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) کے ایک طالب علم نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ کیا اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔ موصوف کی آئی ڈی مرسلین پی ٹی آئی کے نام سے منسوب تھی، گو کہ انہوں نے پذیرائی ملنے کے بعد اپنے احساسات ٹوئٹر سے ڈیلیٹ کردیئے تاہم نگہت داد صاحبہ نے جو کہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی ہیں، وہ اسکرین شاٹ محفوظ کرکے جو ٹوئٹ ماری ہیں تو جاکر سینیٹر شیری رحمن صاحبہ نے نسٹ انتظامیہ کو ایسے طالب علم کے خلاف ایکشن لینے اور ڈگری واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ اگر ہیش ٹیگ گل بخاری کے ذیل میں جاکر دیکھیں تو آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جہاں گل بخاری پر پاک فوج کے خلاف بولنے پر تنقید کی گئی وہیں اُن کا دفاع کرنے اور اُنہیں معصوم ثابت کرنے والے ایکـ ہی سوچ، فکر، نظریہ رکھنے والے کس حد تک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔

ڈیم بناؤ۔۔۔ پانی بچاؤ۔۔۔

ساؤتھ افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کے پانی بحران کا خاصا چرچا رہا پھر کراچی اور اسلام آباد میں پانی کی قلت نے پانی کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ سوشل میڈیا پر اندھا دھند ڈیم بنانے اور وہ بھی کالا باغ ڈیم بنانے کی تحریک زوروں سے چل پڑی۔ جس کے جو سمجھ آتا اس نے کہنا کرنا شروع کر دیا۔ کسی نے ڈی پی سجا لی، کسی نے ووٹ کو ڈیم سے مشروط کیا، کہیں سے پارٹی منشور میں شامل کرنے کا مطالبہ ہوا۔دکھ کی ایک بات یہ ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کو کسی نے ایڈریس نہیں کیا جو وہ ہمارے دریاؤں کا پانی روک کر کر رہا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان نے مختلف سیاسی ایشوز بنا کر پانی کو ڈیم کی صورت۔ محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
اسی ضمن میں عمران خان کی ایک تقریر کا کلپ بھی وائرل ہوا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ کالا باغ ڈیم کسی صورت تعمیر نہیں ہونے دیں گے۔(2013) لیکن اب تحریک انصاف کا بیانیہ کچھ اور ہو گیا ہے۔ بہر حال پانی انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے اور انسان پانی کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ خود قابل تشویش ہے۔ ہم نے دیکھا کہ متحدہ مجلس عمل نے اپنے انتخابی منشور میں کسی نہ کسی شکل میں نئے ڈیموں کی تعمیر کو شامل کر لیا۔ بہر حال ڈیم پاکستان کی بجلی اور پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہیں، اسکے لیے نیک نیتی اور تمام صوبوں میں اتفاق رائے، بھارت کی آبی جارحیت کا مکمل ادراک اور پاکستانیت درکار ہے جس کے لیے سوشل میڈیا نے مثبت پیش قدمی کی ہے۔

حصہ