حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس اور مشاعرہ

460

حجاز مہدی
حلقہ اربا ب ذوق کراچی کا ہفتہ وار اجلاس۵ جون 2016کو منعقد ہوا۔یہ اجلاس تین (۳) حصوں پر محیط تھا۔ پہلے حصے میں سید کاشف رضا نے میلان کنڈیرہ (ترجمہ: عمر میمن) کے کچھ اقتباسات نذر سامعین کیے۔ان پر گفتگو کرتے ہوئے رفاقت حیات نے کہا،’’اس اقتباس کا بیانیہ کمال کا ہے۔ اس میں کردار کی نفسیات کے ساتھ ساتھ اس کا المیہ بھی بہت واضح ہے۔‘‘دوسرے حصے میں ظہیر عباس نے حضرت علیؓ کے حوالے سے اپنا مسدس تنقید کے لیے پیش کیا جس کا عنوان تھا ’’علم اور علیؓ ‘‘
’’وسعتِ علم ہے کیا وسعتِ افکارِ علیؓ ‘‘
مسدس سنتے ہوئے تمام حاضرین نے اسے خوب سراہا اور داد دی۔ حجاز مہدی نے کہا،’’میں ظہیر عباس کو ایک کامیاب مسدس لکھنے پر مبارک باد دیتا ہوں۔ جب مسدس کا آغاز تھا تو اس میں جوش احب کا رنگ نظر آرہا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس مسدس نے اپنا آہنگ تبدیل کر لیا۔ پھر اس میں نسیم امروہوی کے اسلوب کی باریکیاں نظر آنے لگیں۔ البتہ ظہیر عباس کا جو اپنا رنگ ہے وہ بھی اس مسدس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک جگہ خیبر کا دروازہ کھولنے کو علم کا دروازہ کھولناکہا گیا ہے۔ میرا خیال ہے یہ مضمون درست نہیں۔‘‘شکیل وحیدنے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’تنقید کی بات مجھے اس میں نظر نہیں آتی۔ بحر رمل میں ایک کامیاب کوشش تھی۔‘‘شبیر نازش نے کہا،’’علیؓ کے حوالے سے شاعری ہو یا تقریر جو گھن گرج اس میں ہونی چاہیے وہ اس مسدس میں ہے اور اس کے بیانیے کو آسان رکھا گیا ہے۔ اچھی کوشش ہے۔‘‘مہر جمالی صاحبہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس مسدس میں یہ مضمون بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ حضر ت علی علم کا دروازہ ہیں۔‘‘کاشف رضانے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ ’’اردو میں مسدس نگاری کی روایت بہت پرانی ہے۔ پرانے جو مسدس نگار ہوتے تھے وہ تیس پینتیس بند تو ضرور لکھتے تھے۔ ظہیر کی طبیعت میں کلاسیکیت ہے۔ اس مسدس کے بند زیادہ ہونے چاہییں۔‘‘زیب اذکارنے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے تو یہ مسدس ایک چشمہ لگا جو ابل رہا ہے۔ ظہیر کے ہاں ہر بند میں ایک تازگی ہے۔ خیبر والی بات جو حجاز صاحب نے کی میں سمجھتا ہوں کہ اس تناظرمیں بند میں پہلے سے مرتب ہو رہا ہے۔‘‘ذوالفقار عادل اپنی گفتگو میں کہا’’اس دور میں جب لوگ نثری نظم کہہ رہے ہیں، مسدس کہنا ایک قابل تشویق کام ہے۔ یہ صنف قصہ گوئی کے بہت قریب ہے۔ اس مسدس میں بہت خوبصورت مصرعے ہیں۔‘‘صاحب صدارت زیب لاسی صاحب نے شکرگزاری کے بعد کہا،’’مسدس ایک قدیم صنف ہے اور جدید شاعری میں کم ہی لکھی جاتی ہے، ایسی صورت حال میں ایک نوجوان شاعر کا مسدس لکھنا قابل قدر بات ہے۔‘‘تیسرے حصے میں پنجاب کی جامعات سے آئے ہوئے نوجوان شعرا نے اپنا کلام سنایا اور اس کی نظامت کے فرائض آصف علی واثق نے انجام دیے۔شعرائے کرام کے نام ان کے اشعار کے ساتھ درج ہیں۔

آصف علی واثق:
دروازہ بھی جانے کب سے نیند میں ہے
دروازے کو دستک کی بیماری ہے
انس سلطان:
اپنے جیون کے مقصد کو پورا کرنے والوں میں
اک میت میری بھی ہوگی لڑکے مرنے والوں میں
مبشر ستار:
ظالم جو اپنی بھوک مٹانے میں لگ گیا
میں اپنی بیٹیوں کو چھپانے میں لگ گیا
مدثر راؤ:
کسے خبر کہ کبھی خود ہنسا بھی ہے کہ نہیں
وہ مسخرا جو سبھی کو ہنسا کے بیٹھا ہے
اسامہ ضوریز:
گاؤں میں اسپتال نہیں ہیں تو کیا ہوا
گاؤں میں سانس لینے کو تازہ ہوا تو ہے
ضامن عباس:
جیسے میں دوستوں سے ہنس کے گلے ملتا ہوں
کوئی معمولی اداکار نہیں کر سکتا
خرم شہزاد:
میرے شعر میں لکھی بات پرانی ہے
لیکن میرے دل کی یہی کہانی ہے
محمد آصف:
شاعری میں اب پرانے استعارے ترک کر
پنچھیوں کو بخش دے اشجار کی چھٹی کرا

اس کے بعد افطاری پیش کی گئی۔ اجلاس کے اس حصے کے آخری دور میں کراچی کے شعرا نے شعر سنائے۔ اس کی نظامت کے فرائض حجاز مہدی نے انجام دیے۔

حجاز مہدی:
سنیچر کی سپہروں میں کنارے پر کیے وعدے
ہم اور تم بھول جاتے ہیں سمندر یاد رکھتا ہے
ذیب اذکار حسین :
یہ نکتہ اب کہیں جا کر کھلا ہے
یہاں جو فاصلہ ہے فیصلہ ہے
مہر جمالی:
اب تمہارا ساتھ دینا ہے مجھے
اب تمہاری ہار میری ہار ہے
شکیل وحید:
جفا سے تم نہ باز آؤ وفا سے ہم نہ باز آئیں
اک ایسے موڑ پر آ کر کھڑی ہے دوستی اپنی
شبیر نازش:
میرے کفن کے بند نہ باندھو ابھی مجھے
ملنا ہے ایک شخص سے بانہیں نکال کر
کاشف رضا:
معاف کر دیے اْس کے دیے ہوئے سبھی دْکھ
اْتر گیا مرے بوسے میں اشتعال مرا
ذوالفقار عادل:
کس کو ٹھہرایے ٹوٹی ہوئی چیزوں کا امیں
اپنی لکنت کا سبب کس کی زبانی کہیے

اس کے بعد صاحب صدارت نے اجلاس کے باقاعدہ ختم ہونے کا اعلان کیا اور سیکریٹری زیب اذکار حسین صاحب تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

حصہ