برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

505

( قسط نمبر :140)
اٹھارواں حصہ
ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی دوسری عالمگیر جنگ میں روسی علاقے ’کورسک‘ کے مقام پر جرمنی اور روس کے درمیان لڑی گئی۔ اس کے بعد دوسری بڑی اور خوفناک جنگ ’سرزمین چونڈہ‘ پر لڑی گئی۔ دشمن نے اپنے چھ سو ٹینک اس لڑائی میں جھونک دیئے تھے۔ دشمن کے 120 ٹینک اسی مقام پر تباہ و برباد ہوئے اور بہت سے مالِ غنیمت کے طور پر ہمارے حصے میں آئے۔ ہمارے مقابلے پر تین گنا سے زائد فوج اور پھر ’فخرِ ہند‘ کے نام سے موسوم کیے جانے والے دستے جیسے ڈوگرہ، پہاڑی فوج اور راجستھانی دستے بھی اس محاذ پر موجود تھے۔ اپنی تمام تر کوشش اور گھمنڈ کے باوجود چونڈہ ناقابلِ تسخیر رہا۔
11 ستمبر کی رات کے پہلے حملے میں دشمن نے ’پھلروان‘ پر قبضہ کرلیا۔ اس لڑائی میں پاکستانی 35 ٹینکوں سے محروم ہوئے۔ مگر جب ہندوستان اپنی ابتدائی فتح کے غرور میں چونڈہ کی جانب بڑھا تو دوبدو لڑائی کے بعد اُن میں سے 9 ٹینک پاکستان کو واپس مل گئے جو دشمن کے قبضے میں پہنچ چکے تھے۔ اِس معرکے میں دشمن کے چھ سات ٹینک ہی تباہ ہوئے۔
پاکستانی فوج نے پیچھے ہٹنے کے بعد سب سے اہم کام یہ کیا کہ چونڈہ میں دفاعی پوزیشنیں مستحکم کرلیں۔ دشمن کی تعداد سیالکوٹ سیکٹر میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھی۔ مزید یہ کہ انفنٹری، گولہ بارود سے لیس 225 ٹینکوں کی کمک بھی اس علاقے میں پہنچا دی گئی۔ جبکہ اس کے مقابلے پر پاکستان کے پاس صرف پچاس ہزار فوجی موجود تھے۔ جن کے پاس صرف 135ٹینک تھے۔ بعدازاں وہاں مزید 15ٹینک پہنچا دیے گئے۔ سیالکوٹ سیکٹر میں پاکستانی فوج کے سربراہ میجر جنرل ابرار حسین تھے، جن کے ساتھ جنرل ٹکا خان چونڈہ کے محاذ پر شامل ہوئے۔
1965ء میں چونڈہ کے محاذ پر جرأت و عزیمت کے ایسے ایسے کارنامے انجام پائے ہیں کہ انسانی عقل حیران ہوجاتی ہے۔ میجر ضیاء الدین احمد عباسی شہید (ستارۂ جرأت) اور ان کے بہادر جوانوں نے تیس ٹینکوں کے ساتھ دشمن کے کئی ٹینک تباہ کیے اور اسے بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ دشمن کی جانب سے مسلسل برستے ہوئے گولوں کی بارش میں میجر ضیاء الدین احمد عباسی اپنے ٹینک پر کھڑے ہوکر اپنے سپاہیوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دشمن کا ایک گولہ ان کے جسم سے ٹکرایا اور وہ شہید ہوگئے۔
[حوا لہ: مضمون نگار ڈاکٹر جمال عباسی ’’معرکہ چونڈہ کا ہیرو‘‘]
خفیہ اداروں کی طرف سے پاکستانی افواج کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ دشمن ’معراجکے‘ تک پہنچ چکا ہے۔
پاکستانی بریگیڈئیر نے دشمن کو گھیرے میں لینے کا پروگرام ترتیب دیا، کیونکہ ہمارے پاس ٹینک نہایت قلیل تعداد میں تھے، لہٰذا دشمن کو نرغے میں لینا اتنا آسان نہ تھا۔
پاکستانی فوج کے تین اسکواڈرن تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی ہوئی ہندوستانی فوج کو نرغے میں لینے کے لیے انگریزی زبان کے لفظ ” U ” کی فارمیشن میں آگے آئے۔
14بلوچ رجمنٹ کو حکم ہوا کہ دشمن کے عین سامنے جاؤ، اور اسی طرح ’پھلوار‘ کے قریب میجر محمد احمد کے اسکواڈرن کو آہنی ٹینکوں کا راستہ روکنے کا حکم ملا۔
ہمارے جوان، دشمن کے سامنے سخت مشکل حالت میں ڈٹے ہوئے تھے کہ اچانک پاکستانی شاہین فضاء میں نمودار ہوئے اور آناً فاناً دشمن کے ٹینکوں پر راکٹوں کی بارش شروع ہوگئی۔
زمینی فوج کے جوان ہاتھوں میں ہینڈ گرنیڈ اور کاندھوں پر راکٹ لانچرز لیے دشمن کے ٹینکوں میں گھس کر پھٹنے لگے، چشم فلک نے اتنی جواں مردی اور بہادری کم ہی دیکھی ہوگی، یہ منظر دیکھ کر دشمن اپنی چال بھول گیا۔ چونڈہ اور اس سے ملحقہ پھلورہ، بھاگوال، گڈگور، ظفر وال، ٹھرو منڈی، چوبارہ، اور خانے والی اس لڑائی کا اصل میدان تھے۔
چونڈہ کی جنگ میں تقریباً 120ہندوستانی ٹینک تباہ ہوئے۔ 800 گز کے فاصلے پر انگریز صحافیوں نے 11 تباہ شدہ ہندوستانی ٹینک دیکھے اور رپورٹ کیے۔
فضائی اور برّی افواج کی طرح ہماری پاک بحریہ بھی ان کارناموں میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ 1965ء کی جنگ میں ہندوستانی بحریہ طیارہ بردار جہاز ’وکرانت‘ سے لیس تھی۔ ہندوستان کے بڑے بحری بیڑے کے مقابلے میں پاک بحریہ کے پاس صرف چند جہاز تھے اور صرف ایک آبدوز (سب میرین) ’’غازی‘‘ تھی۔ زمینی اور فضائی جنگ جاری تھی مگر بحری محاذ بظاہر خاموش تھا۔
مگر دشمن کے ناپاک عزائم سامنے آچکے تھے، اور وہ کسی بھی وقت بحری محاذ کو چھیڑ سکتا تھا۔ دشمن کے ارادوں کا اندازہ لگاتے ہوئے پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل واحد آبدوز ’غازی‘ کو ہندوستانی بحریہ کے ہیڈ کوارٹر بمبئی کے قریب نگرانی کے لیے بھیج دیا گیا۔
ہماری اکلوتی آبدوز نے دشمن کو عملی طور پر بمبئی تک ہی محصور رکھا اور اپنے مستقر سے باہر نکلنے کا موقع نہ دیا۔ آبدوز غازی نے دشمنوں کے دلوں پر ایسی دھاک بٹھائی کہ ہندوستانی بحریہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ یہ کون سی طاقت ہے جو اس کا راستہ روک کر کھڑی ہوگئی ہے۔ دشمن کے ایک جہاز نے جب باہر نکلنے کی کوشش کی تو ’غازی‘ نے اس پر تارپیڈو داغے، جس سے ہندوستانی جہاز میںآگ لگ گئی۔ اس حملے نے دشمن کے رہے سہے اوسان بھی خطا کردیئے اور وہ دو ہفتوں کی جنگ کے دوران ایک مرتبہ بھی کھلے سمندر میں نکل کر مقابلہ کرنے کی جرأت ہی نہ کرسکا۔ ہماری غازی آبدوزنے تن تنہا پورے ہندوستانی بیڑے کا محاصرہ کیے رکھا اور اسے باہر نکلنے نہ دیا۔
ایسے میں کموڈور ایس ایم انور کی قیادت میں ’’معرکہ دوارکا‘‘ نے دشمن کے چھکے چھڑا دیئے۔ اس آپریشن ’دوارکا‘ کہ جس میں پاکستان کی شیر دل بحریہ نے نہ صرف بزدل دشمن کو اُس کے گھر میں شکست دی بلکہ اُس کے انتہائی اہم معلوماتی مرکز کو تباہ کیا، بہادر پاکستانی، ڈیڑھ سو کلومیٹر تک ہندوستانی سمندری حدود میں داخل ہوئے، ریڈار اسٹیشن برباد کیا، اس آپریشن کے بحری بیڑے میں پاک بحریہ کے جنگی جہاز شاہ جہاں، بدر، بابر، خیبر، جہانگیر، عالمگیراور ٹیپو سلطان شامل تھے۔
6ستمبر کو جیسے ہی ہندوستان نے پاکستان کی سرحدوں کو اپنے قدموں سے ناپاک کیا، تب ہی پاک بحریہ نے خاموشی کے ساتھ اپنے جہاز ہندوستانی مستقر دوارکا کی جانب روانہ کردئیے تھے۔
رات کی تاریکی میں ہمارے جہاز کسی مواصلاتی رابطے کے بغیر آگے بڑھ رہے تھے، لاکھوں میل پر پھیلے سمندر کا سینہ چیرتے جہاز مشن مکمل کرنے کو بے تاب تھے۔ نصف شب کو پاک بحریہ کے جانباز ’دوارکا‘ کے سامنے پہنچ چکے تھے، حکم یہ تھا کہ ہر جہاز کو پچاس گولے پھینکنے ہیں اور ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنا ہے، وہ ریڈار اسٹیشن جو کراچی کی پل پل کی خبر بھارتی سورمائوں کو پہنچا رہا تھا۔
نعرۂ تکبیر کی گونج میں صداقت حسین نے پہلا گولہ داغا اور اللہ اکبر کی صدا میں گولہ باری شروع ہوگئی۔ چند منٹوں میں ’دوارکا‘ کا ریڈار اسٹیشن کھنڈر بن چکا تھا۔ دوارکا میں ہوائی جہازوں کے لیے بنایا گیا رن وے تباہ ہوچکا تھا۔ ہمارے شیر دل جوان ہندوستان کا غرور خاک میں ملا کر واپس آگئے۔ دوارکا کی بربادی پاک بحریہ کا عظیم کارنامہ ہے۔ (جاری ہے )

حصہ