کچھ حیا ہوتی ہے، کچھ شرم ہوتی ہے

555

سید اقبال چشتی
منتخب حکومتیں پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد رخصت ہو رہی ہیں‘ جنھوں نے عوام کی قسمت بدلنے کے وعدے کیے تھے اور عوام نے جنھیں اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے منتخب کیا تھا‘ وہ وعدے آج بھی وعدے ہی ہیں۔ حکومتیں رخصت ہونے سے قبل کچھ نہ کچھ عوام کی بہتری کے لیے ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ عوام پانچ سال کی کارکردگی کو نظر انداز کر کے صرف چند ماہ کی کارکردگی کو دیکھ کر حکومت کے گُن گانے لگتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ پانچ سال بھی گزر گئے مگر چاروں صوبائی اور وفاقی حکومت عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کر نے میں بری طرح ناکام رہی ہیں جس میں سر فہرست بجلی اور پانی شامل ہیں۔ پانی اور بجلی کا بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ بجلی کی لو ڈشیڈنگ کے خاتمے اور پانی کے بحران کو حل کرنے کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے‘ ہر طرح کے اختیارات رکھنے کے باوجود عوام کو لوڈشیڈنگ اور پانی کے بحران سے نجات نہیں دلا سکے مگر دعویٰ سب ہی کا یہی ہے کہ ہم نے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
رمضان کے مہینے میں مدت پوری کرنے والی حکومتیں کچھ ایسا اس مہینے میں کر جاتیں کہ لوگ یاد رکھتے مگر جن حکمرانوں کو عوام سے کوئی ہمدردی ہی نہ ہو اُن کے لیے سب دن برابر ہو تے ہیں۔ ادھر رمضان شروع ہوا نہیں کہ عوام کو تنگ کر نے کا سلسلہ ہر ادارے نے شروع کر دیا۔ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ رمضان میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی لیکن سخت گرمی میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے اور پہلے دوسرے روزے میں ہی حکومتی اعلانات دھرے کہ دھرے رہ گئے‘ ملک کے اکثر علاقوں میں سحر اور افطار کے وقت لوڈ شیڈنگ نے عوام دوست حکومتی اقدامات کی قلعی کھول دی۔ ایک مصیبت کیا کم تھی کہ گرمی کے مارے عوام بجلی سے محروم رہ کر اپنا وقت کاٹ رہے تھے کہ پانی کے بحران نے اس مصیبت میں مزید اضافہ کردیا۔ پانی اور بجلی کا بحران صرف کراچی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام شہر اوردیہات اس بحران کا شکار ہیں۔ شہروں میں لوڈ شیڈنگ 8 گھنٹے اور دیہات میں 14 گھنٹے تک جاری ہے ۔ عوام کی بدنصیبی ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کا بحران ختم کرنے کے وعدوں پر حکمران اقتدار کی مسند تک آئے تھے لیکن ان پانچ سال میں بحران ختم ہونے کے بجائے ان میں روز بروز اضافہ ہی ہو تا گیا اور حکمران ان مسائل کے حل کی تاریخ ہی دیتے رہے بالآخر ان حکمران کے رخصت ہو نے کی تاریخ آگئی۔
پانی اور بجلی کے بحران کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ دریائوں کے خشک ہونے کی وجہ سے پورا ملک ان بحرانوں کا شکار ہے کیونکہ ڈیم بنانا غیرت کا معا ملہ قرار پایا ہے اور کسی بھی ڈیم کی تعمیر سے پہلے تمام صوبوں کا اتفاق لازمی جزو قرار پایا ہے چاہے یہ زرعی ملک خشک سالی کا شکار ہی کیوں نہ ہو جائے۔ مگر ڈیم نہیں بننے دیں گے اگر ڈیم بن گئے تو یہ سیاسی پارٹیاں پھر کس طرح پانی اور بجلی پر سیاست کریں گی۔ لیکن دوسری طرف بھارت کشن گنگا ڈیم دریائے نیلم اور جہلم پر بنا کر پاکستان کے پا نی پر قبضہ کر رہا ہے جس سے ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں لیکن بھارت سے دوستی خراب نہ ہو جائے اس معاملے پر تمام قوم پرست اور سیاسی دکان چمکانے والے خاموش ہیں مگر ملک میں ڈیم نہیں بننے دیں گے کہ نعرے پر سب متفق ہیں۔ پاکستانی عوام پانی کی بو ند بوند کو ترس رہے ہیں مگر حکمران ’’ہم بھارت کو ایسا نہیں کرنے دیں گے‘ بھارت عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا‘‘ جیسے بیانات دے کر عوام کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔ دوسری طرف نریندر مودی پاکستان کے دریائوں پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیم بنا کر اس کا افتتاح کر رہا ہے اور ہمارے حکمران اور دیگر کرتا دھرتا صرف بیا نات اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق عالمی سطح پر پاکستانی وفد کشن گنگا ڈیم پر بات کرنے امریکا گیا تھا لیکن مایوسی اور نا کامی کے ساتھ واپس آگیا ہے۔ جس طرح پاکستانی وفد اپنا مؤقف پیش کرنے میں عالمی عدالت کے سامنے ناکام رہا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پا کستان کو بنجر کر نے میں عالمی سطح کے ساتھ اندرونی طور پر بھی انتشار پیدا کرکے پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جس کا واضح ثبوت سندھ ، بلو چستان اورکراچی میں پانی و بجلی کا بحران ہے۔ لیکن سندھ کے حکمران اور اپوزیشن پانی دو بجلی دو کے بینر لگا کر نہ جانے کس سے مطالبہ کر کے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر سندھ کو اس کے حصے کا پا نی نہیں دیا گیا تو سندھ کی سرحد بند کر دیں گے۔ مگر بھارت‘ جو سندھ کے دریا کا پانی روک رہا ہے اور ڈیم پر ڈیم بنا کر اپنے علاقے کو سیراب کر نے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے‘ اُس کو دھمکی دینے کی کسی میں جرأت نہیں ہے۔
سندھ کے عوام کی ترقی اور خوش حالی دیکھنے کی دعوت دینے والے خورشید شاہ صاحب نے کبھی اپنے ہی علاقے کا دورہ کیا ہوتا تو انہیں اندازہ ہو جاتا کہ عوام کتنی دیر تک بجلی اور پا نی آنے کے منتظر رہتے ہیں‘ لیکن جو منرل واٹر پیتے اور ائر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر سرکاری افسران کی بنائی گئی کاغذی پریزنٹیشن کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘ اُن سے ایسے ہی بیا نات کی توقع رکھنی چاہیے۔
سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں کا تو معلوم نہیں کہ عوام کب تک صبر کریں گے مگر کراچی کے عوام کا صبر اب جواب دے گیا ہے۔ گھنٹوں کے الیکٹرک کی طرف سے بجلی کی بندش اور تاریخ کے بدترین اور نااہلیت کا ریکارڈ قائم کرنے والے ’’میئر کراچی‘‘ وسیم اختر نے اس شہر کے باسیوں کو پانی جیسی نعمت سے بھی محروم کردیا ہے اور عوام بجلی اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے احتجاج پر مجبور ہو گئے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں بھی عوام پانی کے حصول کے لیے بوتلیں اُٹھائے اِدھر اُدھر مارے مارے پھر رہے ہیں مگر کسی کو عوام کی حالت پر ترس نہیں آرہا، ’’کچھ شرم ہو تی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔‘‘ مگر ان حکمرانوں کے اندر سے شرم و حیا کا عنصر شاید ختم ہو گیا ہے اس لیے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ‘ بالخصوص کراچی کے شہریوں کو بجلی اور پانی کی مسلسل فراہمی میں ناکامی پر ایک دوسرے کے خلاف بینر لگا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کو شش کر کے مظلوم بننے کی کو شش کر رہے ہیں اور دوسری طرف ’’اندھا بانٹے ریو ڑیاں اپنوں میں‘‘ کے مصداق عوام کو محرومیوں کے تحفے دینے والے ناکام حکمران اسمبلی میں اپنے آپ کو بہترین کارکردگی پر ایوارڈ دے رہے ہیں۔ کراچی‘ جو روشنیوں کا شہر تھا‘ آج اندھیرے میں ڈوبا نظر آتا ہے‘ کراچی جو معیشت کا حب اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کر رہی ہیں اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث یہ شہر پانی‘ بجلی و دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ سخت گرمی اور ہیٹ ویو میں بھی بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور پانی کی بندش پر شہری سراپا احتجاج ہیں مگر کوئی کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے ساتھ ٹینکر مافیا کے خلاف نوٹس نہیں لے رہا اس سے لگتا یہی ہے کہ ان کی پشت پر کوئی طاقت ہے جو ان اداروں کی لوٹ مار اور ظلم کے باوجود حکومتیں خاموشی اختیا ر کی ہوئی ہیں۔ ان مسائل پر ایک بزرگ شہری کا کہنا ہے کہ جب ہم سات سال کی عمر کے تھے اُس وقت بھی لائن میں لگ کر پانی بھر کر لاتے تھے اور آج ستر سال کی عمر میں بھی پا نی کی لائن میں لگ کر پانی بھر کر لا رہے ہیں یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی ترقی لیکن خود ہی کہنے لگے اس میں حکمرانوں سے زیادہ عوام کا قصور ہے کہ جس نے ان کرپٹ اور بار بار کے آزمائے ہوئے لوگوں کو منتخب کیا۔
بزرگ نے بالکل سچ کہا کہ عوام نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے اور اب کرپٹ‘ اسلام بیزار لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ دنیا چاند پر قدم رکھ رہی ہے اور ہم پانی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اگر عوام آئندہ اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ان نا اہل اور بار بار آزمائی ہوئی پارٹیوں اور لوگوں سے نجات کے ساتھ کرپشن سے پاک قیادت کو منتخب کرنا ہوگا ۔

حصہ