عطرِ خیال، شبنم رومانی کے جذبۂ عقیدت کی خوشبو!۔

1053

ڈاکٹر عزیز احسن
(دوسرااور آخری حصہ)
شبنم رومانی کی بعض نعتیہ غزلوں میں غزلِ مسلسل کا گمان ہوتا ہے، کیوں کہ ان کے ہر شعر میںایک ہی خیال زینہ بہ زینہ ترفع حاصل کرتا ہے اور اس طرح ان کا شاعرانہ اظہار بھی ایک قسم کے منطقیانہ ربط و تسلسل کی مثال بن جاتا ہے۔ذرا یہ نعت ملاحظہ ہو:
بس اک لباس ہمارا ، لباسِ عشقِ رسولؐ
رُتوں کے ساتھ بدلتے نہیں قبائیں ہم
بس ایک راہ ہماری ، صراطِ مصطفویؐ
کبھی بھٹک کے نہ جائیں گے دائیں بائیں ہم
بس ایک رنگ ہمارا، بہارِ طیبہ رنگ
اِسی کو رنگِ بہارِ سخن بنائیں ہم
بس اک دعا ہے ہماری، فروغِ جاں کی دعا
انھیں کو یاد رکھیں، خود کو بھول جائیں ہم
ان اشعار میں لفظ ’’بس‘‘ کی تکرار اور اس کے منفرد انداز کے استعمال نے صوتیاتی فضا میں لطافت پیدا کردی ہے اور شعری پیغام کو تبلیغ کی بے اثری سے بچا لیا ہے۔ اشعار میں ایک اہم پیغام ،شاعرانہ بیانیہ (Poetic narrative) بن کر فن کا حصہ بھی بن گیا ہے اور قاری کے لیے حُسن آفریں بھی۔ شاعر صرف اور صرف ذاتِ محمد ی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو محور و مرکزِ حیات جانتا ہے اور اپنے معاشرے میں ہر پہلو سے آپﷺ کے پیغام کی ترویج و اشاعت، آپﷺ کے اسوہء مبارکہ کی کامل پیروی ، آپ ﷺ کے رنگ میں مکمل طور سے رنگ جانے ہی کو مقصدِ حیات جانتا اور اسلامی معاشرے کو اسی رنگ میں رنگا ہوا دیکھنے کا متمنی ہے۔ ردیف کا جزوِ آخر ’’ہم‘‘اس فکری نکتے کو اجتماعیت کا آئینہ اور دعوت الی الحق کا مظہر بنارہا ہے۔
اقبال نے کہا تھا:

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زنورِ مصطفیٰؐ اورا بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ است

تم جہاں جہاں رنگ اور خوشبو کی دنیا دیکھتے ہو۔ایسی دنیا جس کی خاک سے کمال حاصل کرنے کی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔یا تو نورِ نبوی ﷺ سے اتصال کے سبب اس کی قیمت متعین ہوچکی ہے اوراس کی چمک دمک بڑھ چکی ہے اور وہ جہان از خود منور ہوگیا ہے۔ یا اگر دنیا کا کوئی گوشہ آپ ﷺ کے نور سے ابھی محروم ہے تو وہ بھی آپ ﷺ کے نور کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کیوں کہ پوری کائنات میں صرف آپﷺ کا نور جلوہ آراء ہے۔
درجِ بالا اشعارمیں شبنم رومانی نے حقیقتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ادراک کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ان اشعار میں حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا صفات کی مرکزیت ، آپﷺ کی ذات کے عرفان اور اتباع کی انسان کے لیے ناگزیریت اور آپﷺ سے وفا کرنے کا پختہ عزم بھرپور شاعرانہ اسلوب کے ساتھ نظم کیا گیا ہے۔ آخری شعر میںتو شاعرنے اپنے لیے فروغِ جاں کی دعا کو بھی حضورِ اکرم ﷺ کی ذات میں مکمل فنائیت کی کیفیت سے مشروط کردیا ہے:
بس اک دعا ہے ہماری، فروغِ جاں کی دعا
انھیں کو یاد رکھیں، خود کو بھول جائیں ہم
ہر شاعر اپنے خاص لہجے اور مخصوص الفاظ میں بات کرتا ہے۔ شبنم رومانی نے لفظ ’’فروغ‘‘ استعمال کرکے شعر کو وسیع المفہوم بنادیا ہے۔فروغ (فت نیز ضم ف، و مع) امذ۔۱۔زیب و زینت، چمک، رونق، تابناکی۔ ۲۔سربلندی، عروج، ترقی، ۔۳۔اثر، زیادتی، شدت۔۴۔ترجیح،سبقت
(اُردو لغت)
اب ذرا غور فرمائیے کہ ’’فروغِ جاں‘‘ کی دعا میں شاعر نے کیا کچھ نہیں مانگ لیا…زیب و زینت، چمک، رونق، تابناکی،سربلندی، عروج، ترقی،اثر، زیادتی، شدت،ترجیح،سبقت … وغیرہ وغیرہ۔ ’’جاں‘‘ کو اگر ہم ’’روح‘‘ کہیں اور ’’روح‘‘ کو زندگی سے تعبیر کریں تو حیاتِ دنیوی میں شاعر کی طلب کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ معاشرتی ( امتِ مسلمہ)کی زندگی کے لیے ،زیب و زینت، چمک، رونق، تابناکی،سربلندی، عروج، ترقی،اثر، زیادتی،شدت،ترجیح کے ساتھ ساتھ ہر طبقہء انسانیت پر مسلم امت کی’’ سبقت‘‘ کا متمنی ہے…اور یہ تمام خصوصیات اس معاشرے (امت) کو صرف ایسی صورت میں مل سکتی ہیں کہ وہ ہر طرف سے منہ پھیر کر اور اپنی ذات کی نفی کرکے، صرف آقا صلوٰۃ اللہ علیہ کی ذات کا دھیان پختہ کرلے۔ صرف انہی کو یاد رکھے ۔ اس شعر کی بین متنیت (Intertextuality ) حافظ شیرازی کے ایک متن سے بھی قائم ہوتی ہے۔
مصلحت دید ِمن آنست کہ یاراں ہمہ کار
بگزارند و خمِ طُرَّۂ یارے گیرند
(میرے نزدیک تو اب مصلحت اسی میں ہے ، کہ سارے دوست[معاشرہ]سب کام چھوڑ چھاڑ کے [صرف] محبوب کی زلف کے خم کی طرف مشغول ہوجائیں۔کیوں کہ محبوب کی زلف [نظام] سے وابستگی ہی غموں سے نجات کا ذریعہ ہے)۔
حافظ کا ہر شعر مجاز کے پردے میں حقیقت پژوہی کا اشاریہ ہوتا ہے، اس لیے ہم اس شعر کا یہ مطلب بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ اب غم و ہم سے نجات کی صرف ایک صورت ہے کہ ہم ہر طرف سے منہ پھیر کے صرف حضورِ اکرم ﷺ کی ذات سے اپنی محبت بڑھائیں اور آپﷺ کی تعلیمات اپنائیں، آپ ﷺ کا لایا ہوا نظامِ زندگی اپنائیں ۔صرف و محض اسی ایک ترکیب سے زندگی کو تابناک بنایا جاسکتا ہے۔
علامہ اقبال اور حافظ کے متون (Texts) کی تجدیدی شکل جب ہم اردو غزل کے مخصوص لہجے میں شبنم رومانی کی شعری کائنات میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکری زاویوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو حافظ سے اقبال اور شبنم رومانی تک پہنچا ہے۔جذبے کی سچائی ، خیال کی رعنائی ، فکری صداقت اور اظہارِ حقیقت کا داعیہ ہر اس شاعر کو حضورِ اکرم ﷺ کی ذات سے منسلک رہنے کا پیغام عام کرنے پر ابھارتا ہے جس کے دل میں جوہرِ عشقِ رسول ﷺ پایا جاتا ہے۔ اس طرح شبنم رومانی ،صالح فکری روایت کے امین اور پِرِچارَک بھی نظر آتے ہیں۔
شبنم رومانی نے حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی کا تصور زندگی کا لازمہ قراردیا ہے:
نام اُن کا جو حرزِ جاں نہیں ہے
سمجھو کہ کہیں اماں نہیں ہے
اس شعر میں شاعر کے اپنے لیے خود ترغیبی اور معاشرے کے لیے تبلیغی عنصر شامل ہے۔ لیکن یہ تبلیغی عنصرشعری لطافت میں ملفوف ہے۔
حقیقتِ محمدیہ ﷺ کا سِرِّی نکتہ یہ ہے کہ حضور ختمی مرتبت علیہ السلام ہی کی ذات خلقِ اول ، برزخِ کبریٰ اور ظہور و بطون میں رابطہ ہے۔ آپﷺ کا نور‘ اللہ تعالیٰ نے اسما ء و صفات کے ظہور سے قبل اور زمان و مکان کی پیدائش سے پہلے چمکایا۔ تو ثابت ہوا کہ کائنات کے تمام مظاہراور زندگی کی تمام صورتیں آپﷺ کے نور کے طفیل وجود میں آئی ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے کائنات کے آئینے میں اپنی ذات کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس حقیقت کا شاعرانہ بیان شبنم رومانی کے اس شعر میں ملاحظہ ہو:
زیست جب تک اُنؐ کے حدّو خال میں آئی نہ تھی
قدرتِ بے مثل آپ اپنی تماشائی نہ تھی
حقیقت ِ محمدیہؐ کے اس خیال کو غالب نے بھی شعری قالب میں ڈھالا تھا:
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رُخ سے ظہور کی
لیکن غالب نے صرف ظہورِ حیات و کائنات کی بات کی تھی۔ شبنم نے ’’قدرتِ بے مثل آپ اپنی تماشائی نہ تھی‘‘ کہہ کر صوفیانہ فکری ضَو سے بھی شعر کو چمکادیا ہے۔
مجھے ’’عطرِ خیال‘‘ میں بہت سارے اشعار پسند آئے اور تقریباً ہر شعر میں عصری حسیت ، جذبے کی شدت اور بیان کی ندرت محسوس ہوئی۔ لیکن چوں کہ میری تحریر اس مجموعہء کلام کا حصہ بنے گی ،اس لیے صرف چند اشعار پیش کرکے رخصت چاہوں گا:
آفاق میں ہے اسمِ محمدؐ کی بڑی گونج
یہ کیا ہے، اگر ذکر کی محفل نہیں کوئی
علاج ہر شرک و شر کا قرآں
ہر ایک باطل کا رد محمدؐ
شبنم رومانی نے بھارت کے شہر شاہجہاں پور سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ منیر نیازی سے لے کر محسن بھوپالی، سرشار صدیقی ،اقبال عظیم اور شبنم رومانی تک بہت سے شعراء کو مملکتِ خدادا دمیں مہاجرت کے بعد ، پناہ گزینی کے طعنے سننے پڑے تو ہجرت کا وہ تجربہ جو مقدس روایت کے تسلسل میں کیا گیا تھا، بہت تلخ اور جذبے کی رائگانی کا سبب محسوس ہونے لگا۔ شبنم رومانی نے ،مدحتِ مصطفیٰﷺ کو عصری حسیت کا آئینہ بنانے کے لیے اس طرح کے اشعار بھی کہے ہیں:
جو ’’ابن الارض‘‘ بنتے ہیں‘ مدینے کی طرف دیکھیں
کہ یہ ’’تقدیسِ ہجرت‘‘ کی طرف واضح اشارہ ہے
غزل طور لکھی ہوئی نعتیں جس لطافتِ اظہار کی مقتضی تھیں ان کا فنی ادراک شبنم رومانی کے حرف حرف سے مترشح ہے۔ لیکن نظموں میں تخلیقی وفور نے ایک اور ہی فضا قائم کی ہے۔ یہاں مثالیں دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ کتاب کا قاری ، شاعر کا سلیقہء اظہار، خیال کی لطافت، فکری اِصابت اور تخلیقی وفور ،خود محسوس کرسکتا ہے۔
بلا شبہ ’’عطرِ خیال‘‘ قابلِ قدر اور لائقِ تقلید متن کا حامل مجموعہ ٔ کلام ہے جو نعتیہ ادب کے مطبوعہ سرمائے میں ایک گراں بہا اضافہ ہے۔
میں اس مجموعہء شعرِعقیدت کی اشاعت پر شبنم رومانی کے صاحبزادے جناب فیصل عظیم اور ناشر سید صبیح الدین صبیح رحمانی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ حمد و نعت و مناقب کے اس نذرانے کو مرحوم شبنم رومانی، ان کے فرزندِ ارجمند اورناشر کے لیے زادِ آخرت بنادے (آمین)

نعتیں

مولانا ابوالکلام آزاد

موزوں کلام میں جو ثنائے نبیؐ ہوئی
تو ابتدا سے طبع رواں منتہی ہوئی
ہر بیت میں جو وصفِ پیمبرؐ رقم کیے
کاشانۂ سخن میں بڑی روشنی ہوئی
ظلمت رہی نہ پر توِ حسنِ رسولؐ سے
بیکار اے فلک شبِ مہتاب بھی ہوئی
ساقی سلسبیل کے اوصاف جب پڑھے
محفل تمام مست مے بے خودی ہوئی
دل کھول کر رسول سے میں نے کیے سوال
ہرگز طلب میں عار نہ پیشِ سخی ہوئی
تاریک شب میں آپ نے رکھا جہاں قدم
مہتابِ نقش پا سے وہاں روشنی ہوئی
ہے شاہِ دیں سے کوثر و تسنیم کا کلام
یہ آبرو تمام ہے حضرت کی دی ہوئی
سالک ہے جو کہ جادۂ عشقِ رسولؐ کا
جنت کی راہ اس کے لیے ہے کھلی ہوئی
آزاد اور فکر جگہ پائے گی کہاں
الفت ہے دل میں شاہِ زمن کی بھری ہوئی

ڈاکٹر خورشید رضوی

شان انؐ کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے
سونپ دیجے دیدۂ تر کو زباں کی حسرتیں
اور اس عالم میں جتنا بن پڑے رو جائیے
یا حصارِ لفظ سے باہر زمینِ شعر میں
ہو سکے تو سرد آہوں کے شجر بو جائیے
اے زہے قسمت کسی دن خواب میں پیشِ حضورؐ
فرطِ شادی سے ہمیشہ کے لیے سو جائیے
اے زہے قسمت اگر دشتِ جہاں میں آپؐ کے
نقشِ پا پر چلتے چلتے نقشِ پا ہو جائیے

اجمل سراج

خدا کی بزمِ جہاں پر ہے یہ عنایتِ خاص
کہ دے کے آپؐ کو بھیجا گیا ہدایتِ خاص
خدا اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں
نگاہِ شوق میں آیت یہی ہے آیتِ خاص
بجز زیارتِ روئے رسولؐ جنت سے
غرض ہی خاص ہمیں ہے کوئی نہ غایتِ خاص
نبیِؐ خاتم و ختم الرسلؐ ہیں آپؐ بس آپؐ
نہایتوں میں نہایت ہے یہ نہایتِ خاص
ہم امتی ہیں رعایت یہ خاص ہے ہم سے
خوشا کہ حشر کے دن بھی ہے یہ رعایتِ خاص

حصہ