برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

657

قسط نمبر139
سترہواں حصہ
دشمن کی جانب سے جنگ کی ابتدا ہوتے ہی اس کو پے در پے شدید ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ ہندوستانی فضائیہ نے دو دن کی جنگ میں اپنے 22 لڑاکا بمبار طیارے تباہ کروا لیے تھے۔ ہندوستان کو اپنے جنگی طیاروں، آرٹلری اور ٹینکوں پر بہت فخر تھا۔ مگ 21 لڑاکا طیارے روسی ساختہ جدید ٹیکنالوجی کے حامل تھے جنہوں نے کوریا کی جنگ میں امریکی ایئرفورس کے ائیراٹیک کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے مقابلے پر پاکستان کے پاس پرانے سیبر طیارے تھے۔
اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور توجہ ہٹانے کے لیے ہندوستان نے کراچی اور پنڈی پر ہوائی حملے کیے، جو کسی بھی اہم تنصیباور ٹھکانے کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ 7 ستمبر کو ہندوستانی فضائیہ نے ہمارے مشرقی بازو ’’مشرقی پاکستان‘‘ میں داخل ہوکر چاٹگام، جیسور اور کرمی ٹولہ ڈھاکا پر راکٹ برسائے اور بم گرائے۔ مگر ان حملوں میں پاکستان کا قابلِ ذکر نقصان نہیں ہوا۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ مشرقی پاکستان میں ہماری فضائیہ کی کُل طاقت صرف ایک اسکواڈرن پر مشتمل تھی۔ جیسے ہی ہندوستانی طیارے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کے بعد واپس اپنے ایئربیس پر پہنچے، ہمارے پاکستانی جانبازوں نے ’’کلائی کنڈہ‘‘ کے رن وے پر ہلہ بول دیا۔ یہ سب اتنا اچانک اور برجستہ تھا کہ دشمن ہاتھ مَلتا رہ گیا۔ ’’کلائی کنڈہ‘‘ ائیربیس پر دشمن کی کلائی اس قدر زور سے مروڑی گئی کہ یہ ایک ضرب المثل کا روپ دھار گئی (پاکستان کے نمبر 14 اسکواڈرن کو دنیا ایک عجیب سے نام سے جانتی ہے۔ اس اسکواڈرن کو’’دم کترنے والے‘‘ کہا جاتا ہے یعنی Tail Choppers)۔ کلائی کنڈہ پر ہندوستانی طیارے حملے کے بعد جیسے ہی اترے، اُن کو ائیر ٹریفک نے ایک قطار میں کھڑا کروایا، مگر پاکستانی جانبازوں کے اچانک حملے نے دشمن کے تمام طیاروں کو پلک جھپکتے میں تباہ کردیا۔
اس معرکے میں ہمارے ایک فلائنگ آفیسر افضال نے شہادت کا رتبہ پایا، جبکہ دشمن کو اپنے 14 کینبرا، اور 2 ہنٹر طیاروںکا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اور اس طرح دشمن کو مشرقی پاکستان پر حملے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
6 اور 7ستمبر1965ء کو پاک و ہند بارڈر پر مختصر سی لڑائی کے بعد ہندوستان کے بکتربند ڈویژن نے بھرپور کوشش کی کہ آگے بڑھ کر پاکستانی فوج کو شکست دے اور اپنا ہدف حاصل کرے۔ 24 انفنٹری بریگیڈ کو حکم ملا کہ دشمن کی پیش قدمی کو روکے۔ کمانڈنگ آفیسر کرنل نثار ہماری فوج کی ایک مایہ ناز رجمنٹ 25کیولری کی کمانڈ کررہے تھے۔ اس دستے نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور بے پناہ دلیری کے ساتھ دشمن کو روکتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا۔ اس دوران محاذِ جنگ گرم رہا۔ پاکستان کی افواج ہندوستان کی حدود میں داخل ہوچکی تھیں۔
پاکستان کی افواج نے دفاعی اعتبار سے اہم ترین علاقے چونڈہ (Chawinda)کا انتخاب کیا۔ 24انفنٹری بریگیڈ نے دفاعی حکمت عملی اپناتے ہوئے6 بکتر بند ڈویژن کو چونڈہ کے اطراف میں ٹینکوں کو پھیلانے کا حکم دیا۔
دشمن سے سب سے خطرناک اور بڑی مڈبھیڑ بھی سیالکوٹ کے محاذ پر ہوئی۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور اور گوجرانوالہ شاہراہ کو کاٹ کر ہماری رسد روک دے گا۔ اس کارروائی میں دشمن چار ڈویژن یعنی ایک لاکھ فوج کے ساتھ میدان میں کودا۔ سب سے آگے ان کا مشہور آرمڈ بکتربند ڈویژن تھا، اس میں تین سو سے زائد جدید ٹینک تھے۔
ہندوستان نے 12 ستمبر سے 18 ستمبر 1965ء تک چونڈہ کے اطراف متواتر حملے کیے۔ اُس کا خیال تھا کہ اس طرح چونڈہ نہ سہی، قرب و جوار کا علاقہ ہی ہمارے ہاتھ لگ جائے اور چونڈہ کو بعد میں حاصل کرلیں گے۔ لیکن پاکستان کے 6 آرمڈ ڈویژن نے نفری اور ٹینکوں کی کمی کے باوجود بھرپور مقابلہ کیا اور ہندوستانی فرسٹ آرمڈ ڈویژن کو چونڈہ سے آگے پیش قدمی سے روکے رکھا۔ یہ جنگ دنیا میں ٹینکوں کی مشہور اور منفرد جنگوں میں شمار ہوتی ہے۔
ہندوستان کے آرمڈ ڈویژن کا اتنا نقصان ہوا کہ ہندوستانی کور کمانڈر نے مجبوراً فیصلہ کیا کہ ٹینکوں کے بجائے اب انفنٹری کو آگے لایا جائے اور چونڈہ پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کیا جائے، کیونکہ چونڈہ نہ تو ٹینکوں سے مسمار کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی اس کو چھوڑ کر آگے بڑھا جا سکتا تھا۔ پس ہندوستانی 6 پہاڑی ڈویژن کو ہدف ملا کہ وہ چونڈہ پر حملہ کرکے قبضہ کرے تاکہ آگے کی طرف پیش قدمی ممکن ہوسکے۔ ہندوستانی 6 پہاڑی ڈویژن امریکن سازوسامان سے لیس تھا۔ ان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے اپنا حملہ یوں ترتیب دیا:
58 بریگیڈ کا ٹاسک تھا کہ وہ اپنی بریگیڈ کی دو پلٹن 4 جموں وکشمیر اور 14 راجپوت کو لے کر چونڈہ، الٹر ریلوے لائن کے شمال کی جانب سے حملہ کرکے چونڈہ کے شمالی حصے پر پوزیشن مضبوط کرے، اور جیسے ہی قبضہ مکمل ہو، 35 بریگیڈ اپنی ایک پلٹن 20 راجپوت کے ساتھ جسوراں گائوں پر حملہ کرے اور وہاں قبضہ کرنے کے بعد اس کی دوسری پلٹن 5 جموں وکشمیر بٹالین جسوراں چونڈہ سڑک کے مغربی جانب سے حملہ شروع کردے اور چونڈہ ریلوے کراسنگ پر قبضہ کرلے۔ اس بریگیڈ کی تیسری پلٹن 6 مرہٹہ جسوراں گائوں سے پیش قدمی کرکے چونڈہ ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کرلے اور 40 بریگیڈ علی الصبح بکتربند یونٹ کی مدد سے چونڈہ شہر پر قبضہ مکمل کرے گا۔ اس آپریشن کی کامیابی کی صورت میں ہندوستانی فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کو حکم تھا کہ وہ گوجرانوالہ کی طرف سے پیش قدمی کرسکتے ہیں، جس کے لیے وہ تیار بیٹھے تھے۔
پاکستانی 24بریگیڈ جو چونڈہ کا دفاع کررہا تھا، 4 پلٹنوں 25 کیولری، 2 پنجاب رجمنٹ، 14بلوچ رجمنٹ اور 3 ایف ایف رجمنٹ پر مشتمل تھا۔ اس بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر عبدالعلی ملک تھے۔ اب وقت آگیا تھا کہ بریگیڈ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے اور اپنے سے تین گنا دشمن کا سامنا کرے۔
18ستمبر کو ہندوستانی حملہ رات 8 بجے شروع ہوگیا۔ ہماری غیبی مدد یہ ہوئی کہ دشمن کا 58 بریگیڈ پوری رات بھٹکتا رہا اور اپنے ہدف تک پہنچ ہی نہ سکا۔ ہندوستانی مبصروں کے مطابق وہ بھولے بھٹکے غلطی سے اپنی ہی ایک پلٹن (5جاٹ) کے ساتھ لڑ پڑے اور اپنے ساتھیوں کا جانی نقصان اٹھایا۔ اس نقصان کی وجہ سے وہ صبح تک سنبھل نہ سکے اور آپریشن سے باہر رہے۔ ہندوستان کے 6 پہاڑی بریگیڈ کے دوسرے بریگیڈ کی پہلی حملہ آور پلٹن (20راجپوت) نے حملے سے پہلے اکٹھے ہونے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو 3ایف ایف رجمنٹ کی دو کمپنیوں کے درمیان واقع تھی۔ ان کا قصور بھی نہ تھا کیونکہ دن بھر یہ جگہ خالی تھی، صرف شام کو یہ دو کمپنیاں آگے بھیج دی گئی تھیں۔ 20 راجپوت رجمنٹ نے جسوراں پر حملے کا آغاز کیا، پاکستان کی جانب سے جسوراں گائوں میں متعین کمانڈر کیپٹن رحیم شاہ تھے، اور دوسری طرف سے گائوں میں جانے والی ڈی کمپنی کے کمانڈر کیپٹن وحید کاکڑ تھے۔ ہماری سپاہ نے بھرپور فائر کھول دیا اور آسمان سے 3FF کی مارٹر پلاٹون نے ان پر آگ برسانا شروع کردی۔ میدانِ جنگ میں لاشیں، ہتھیار اور زخمی بکھرے ہوئے تھے۔ 20 راجپوت کا حملہ سخت ناکامی کا شکار ہوگیا اور وہ راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔
58 بریگیڈ نے دوسرا حملہ اپنی جموں وکشمیر پلٹن کی مدد سے کیا۔ پاکستان کی ایک کمپنی پوری رات دشمن کے انتظار میں گاؤں کی کچی سڑک پر موجود تھی، جیسے ہی ہمارے سپاہیوں نے دشمن کو دیکھا، فوراً فائر کی زبان میں باتیں شروع ہوئیں۔ ہتھیاروں کے فائر کھلتے ہی دشمن بھاگ نکلا۔ اس بریگیڈ کا تیسرا حملہ 6 مرہٹہ پلٹن کا شروع میں کامیاب رہا اور وہ چونڈہ ریلوے اسٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب رہے، لیکن وہاں پاکستان کے 3 ایف ایف رجمنٹ کے بٹالین ہیڈ کوارٹرز کے جوانوں نے دشمن کی پیش قدمی روک دی۔ چند گھنٹوں تک وہاں دو بدو لڑائی ہوتی رہی جس میں بٹالین کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل محمد اکبر صدیق، لیفٹیننٹ محمد طارق، لیفٹیننٹ محمد قیس، صوبیدار میجر نذیرالرحمن، حوالدار منور خان اور دیگر جیالوں نے جرأت کی مثالیں قائم کیں۔ پاکستانی کمانڈنگ آفیسر نے مرہٹوں پر فائر کھول دینے کا حکم دیا۔ یہ فائر 6 مرہٹہ پلاٹون کے لیے آخری تنکا ثابت ہوا۔ وہ حوصلہ ہار گئے اور 19 ستمبر 1965ء کی پو پھوٹتے ہی پسپائی اختیار کرنے لگے۔ علی الصبح 6 پہاڑی ڈویژن اپنے بھرپور حملے سے دست بردار ہوکر مکمل طور پر پسپا ہوگیا۔
حوالہ : مضمون نگار: میجر جنرل (ر) شفیق احمد اعوان۔ ’’معرکہ چونڈہ 1965ء‘‘۔ نوائے وقت۔ 6 ستمبر 2015ء
(جاری ہے)

حصہ