اللہ سے جنگ

581

سیدہ عنبرین عالم
اظہر اور آمنہ کا بڑا بیٹا معین کچھ دنوں سے بہت نقاہت محسوس کررہا تھا۔ الٹیاں لگی رہتیں، کچھ کھایا پیا نہ جاتا، چہرے اور پائوں پر بے پناہ سوجن۔ محلے کے چھوٹے موٹے ڈاکٹر وٹامن اور طاقت کی دوائیں دیتے رہے مگر طبیعت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ آخرکار بڑے سرکاری اسپتال جاکر ٹیسٹ کرائے تو معلوم ہوا کہ گردوں کا سائز اتنا بڑھ گیا ہے کہ گردے جسم سے علیحدہ کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ جیسے تیسے دل کو سنبھالا، تو سب کہنے لگے: سرکاری اسپتال میں آپریشن نہ کرانا۔ کرانا چاہتے بھی تو کیسے کراتے؟ اسپتالوں کے ڈاکٹر تو مسلسل ہڑتال پر تھے۔
محمد اظہر ایک پرائیویٹ ادارے میں معمولی ملازم تھے، اتنی آمدنی تھی کہ پانچ بچوں کے ساتھ سفید پوشی کی زندگی گزر رہی تھی۔ نہ کبھی سیروتفریح کا سوچا، نہ حج عمرے، نذر ونیاز کا۔ بس جو کماتے، مہینے بھر میں خرچ ہو جاتا۔ وہ تو ابا گھر وراثت میں دے گئے تھے، بہنوں نے بھی حصہ نہ مانگا، بس خوش تھیں کہ میکہ آباد رہے، سو کرائے کے جھنجھٹ سے بچ گئے تھے۔ اب جوان جہان 17 سالہ بیٹا بستر سے لگ گیا تو کچھ جمع پونجی نہ نکلی۔ عزیزوں، دوستوں سے مانگ تانگ کر دوا دارو کرتے رہے، مگر کب تک! سب کو پتا تھا کہ واپسی کی امید نہیں۔ جس بڑے بیٹے سے امیدیں وابستہ تھیں، وہی موت و زندگی کی کشمکش میں ہے۔ سب نے آہستہ آہستہ ہاتھ کھینچ لیا۔ اب موقع تھا آپریشن کا۔ دونوں گردے علیحدہ کرکے معین کو تمام عمر کے لیے ڈائیلاسز پر منتقل کرنا تھا، کم از کم 4 لاکھ درکار تھے۔ محمد اظہر مارے مارے کئی رفاہی اداروں کے چکر لگاتے رہے، جو پیسے دینے کو تیار تھے مگر ساتھ ہی کوئی گھٹیا سا اسپتال تجویز کردیتے جہاں کے علاج سے محمد اظہر مطمئن نہ ہوتے۔ آخر کسی نے تجویز کیا کہ بینک سے قرضہ لو۔ معین کے تمام علاج معالجے کے کاغذات لے کر بینک پہنچے، مدعا بیان کیا کہ بیٹے کا علاج کرانا ہے۔
بینک منیجر: جی کیا بالکل ہی عقل سے چلے گئے ہیں! جناب، بینک قرضہ اُن منصوبوں کے لیے دیتا ہے جن سے ریکوری کی امید ہو، پیسے دگنے چوگنے ہوکر واپس آئیں۔
محمد اظہر: ہاں تو میرا بچہ ٹھیک ہوکر کمائے گا اور آپ کے پیسے واپس کردے گا۔
بینک منیجر: کیا بات کرتے ہیں، آپ کے بچے کا آپریشن ہو بھی گیا تو وہ نارمل تو نہیں ہوگا، تمام عمر ڈائیلاسز پر رہے گا اور 17 سال کا بچہ کب اپنی تعلیم مکمل کرے گا؟ کب کمانے کے لائق ہوگا؟ اور اتنا کما لے گا کہ قرض اور اُس وقت تک جمع ہوا لاکھوں کا سود بھی ادا کرے؟
محمد اظہر: سر میں ایک اور نوکری کرلوں گا، پر آپ کا پیسہ واپس کروں گا۔
بینک منیجر: آپ تو اپنی ایک نوکری پر بھی نہیں جاتے ہوں گے آج کل، بیٹے کو اسپتال، اسپتال لے کر پھر رہے ہوں گے، جھوٹے وعدے کیوں کرتے ہیں جناب!
محمد اظہر: تو بیماری کے لیے قرضے کون فراہم کرتا ہے؟
بینک منیجر: کوئی نہیں، کیونکہ بیماری منافع بخش نہیں ہوتی، پیسہ ڈوب جاتا ہے۔
محمد اظہر: یہ کیسی منطق ہے! سب سے زیادہ تو پیسوں کی ضرورت دکھ، بیماری میں ہی ہوتی ہے۔ ہٹا کٹا آدمی کیوں قرض لے گا؟ وہ تو محنت مزدوری کرکے ، روکھی سوکھی کھا ہی لے گا۔
بینک منیجر: میرا وقت خراب مت کیجیے، مجھے اور بھی ضروری کام ہیں۔
بینک سے مایوس ہوکر ایک پٹھان ساہوکار کے پاس پہنچے، وہ ایک نمازی پرہیزگار انسان تھا مگر سود پورا نہ دینے پر بندے کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ اس نے چار لاکھ اس شرط پر دیے کہ بیٹا مرے یا جیے، پیسے اور سود پورا دینا ہوگا، ایک مہینے کے بعد ادائیگی شروع ہوجائے گی، ہر ماہ بیس ہزار سود دینا ہوگا، اصل رقم اس کے علاوہ۔ جس نے سنا حیران ہوگیا کہ اتنے بھاری سود پر قرضہ کیوں اٹھایا! مگر محمد اظہر کے پاس سوال جواب کا وقت نہیں تھا، ان کو بیٹے کی زندگی عزیز تھی، اس لیے ہر شرط قبول کرلی۔
معین کا آپریشن ہوا اور ویلفیئر کی مہربانی سے تین لاکھ میں ہی ہوگیا، باقی پیسے دوا اور اسپتال کے بل میں لگ گئے۔ اس قدر مہنگی دوائیں کہ محمد اظہر کی ساری تنخواہ دوا میں لگ جاتی۔ دونوں میاں بیوی نے گھر کے باہر کے کمرے میں چھوٹا سا ہوٹل کھول لیا۔ بیوی سارا دن ہوٹل پر چکن تکے اور کباب لگاتی، محمد اظہر واپسی پر بریانی بھی لگا لیتے۔ معین کے ساتھ ڈائیلاسز پر اس کی چھوٹی بہن جاتی، جس نے پڑھائی چھوڑ دی تھی اور گھر سنبھالنے میں لگی ہوئی تھی۔ ماں تو کاروبار میں مصروف تھی۔ یعنی ایک افتاد نے پورے خاندان کی کایا پلٹ دی تھی۔ کوئی خیریت پوچھنے آتا تو الٹا تکے کباب کھاکر ہی جاتا، کسی کو توفیق نہیں تھی کہ اتنی بڑی بیماری گھر میں ہے تو پانچ سو، یا ہزار ہی بچے کے ہاتھ پر رکھ دے۔ یہی لوگ جب شادیوں، دعوتوں میں جاتے ہیں تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر دے کر آتے ہیں، حالانکہ پیسوں کی ضرورت مصیبت والے گھر میں زیادہ ہوتی ہے۔
ایک روز اچانک بیٹھے بیٹھے معین کی سانس رکنے لگی۔ اظہر تو گھر پر تھے نہیں، آمنہ ہی اپنی بیٹی کے ساتھ معین کو اسپتال لے کر بھاگی۔ پتا چلا کہ پانی پینا منع تھا، مگر معین نے زیادہ پانی پی لیا جو اس کے پھیپھڑوں اور دل میں بھر گیا۔ فوراً اپنا زیور بیچ کر اسپتال کی فیس جمع کرائی تاکہ معین کو وینٹی لیٹر میں منتقل کیا جاسکے۔ چار دن معین وینٹی لیٹر پر سسکتا رہا، مگر جانبر نہ ہوسکا۔ ساری محنت اکارت ہوگئی، سردیوں کی ایک اداس شام اظہر نے معین کو دفنا دیا اور خالی ہاتھ گھر واپس آگیا۔
معین کے سوئم کے دن دروازے پر کھٹکا ہوا، پٹھان اپنا سود مانگنے کھڑا ہوا تھا۔ ’’لالہ میرا بیٹا مرگیا‘‘۔ محمد اظہر نے اطلاع دی۔
’’اوہو یہ تو بڑا ظلم ہوگیا، ہم تیرے بیٹے کے لیے سپارہ ضرور پڑھے گا، ہمارا اپنا بیٹا کی طرح ہے تمہارا بیٹا، تم آرام کرو، پریشان مت ہو‘‘۔ پٹھان نے کہا اور سپارہ پڑھ کر چپ چاپ چلا گیا۔
اگلا پورا مہینہ قرضے اتارنے میں چلا گیا۔ معین کی قبر ہی 40 ہزار کی آئی تھی جو اظہر کے پورے مہینے کی تنخواہ تھی۔ پھر اسپتال کا لاکھوں کا بل، وینٹی لیٹر پر مریض کو رکھنا بہت مہنگا شوق ہے۔ پھر سوئم اور چالیسواں بھی بہت خرچا کرا گیا۔ اظہر کی کمر ٹوٹ گئی تھی مگر خرچے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اب ایک پولیس والے نے ہوٹل کا رستہ دیکھ لیا تھا اور ہر مہینے بھاری رقم بھتے کے طور پر وصول کررہا تھا۔ پھر کے ایم سی والے ڈرانے دھمکانے آجاتے۔ اس دوران اظہر کو پٹھان کا خیال ہی نہیں آیا، خیال تو اُس وقت آیا جب وہ دو مہینے بعد آیا اور ایک ساتھ تین مہینے کے ساٹھ ہزار طلب کرنے لگا۔ ’’اظہر بھائی! آپ کا ہم نے بہت خیال آیا، تین مہینے تم کو اپنا شکل نہیں دکھایا، اب تھوڑا تم بھی خیال کرو‘‘۔ پٹھان بولا۔
’’لالہ ایک دم 60 ہزار کہاں سے دوں؟ پھر اصل رقم تو باقی کی باقی رہے گی‘‘۔ اظہر بولا۔
’’اوئے یہ پیسہ لینے سے پہلے سوچنا تھا، تم اپنے رشتے داروں کو تو قرض واپس کررہا ہے، میرا قرضہ کیوں واپس نہیں کرتا؟ اب تو کاروبار بھی کررہا ہے تم‘‘۔ لالہ اپنی بات پر قائم تھا۔
’’لالہ کھانے پینے کی اتنی دکانیں ہیں آس پاس، کاروبار خاص نہیں چل رہا۔ بہرحال جو بھی کمائوں گا آپ کو ہی دوںگا، ابھی کے لیے 25 ہزار رکھ لیجیے، اگلے ماہ اور رقم دوںگا‘‘۔ محمد اظہر نے کہا۔
لالہ پچیس ہزار لے کر چلا تو گیا مگر ابھی بھی اصل رقم اور بہت سے سود کی ادائیگی باقی تھی۔ کاروباری چالاکیاں محمد اظہر کو آتی نہیں تھیں کہ مری ہوئی مرغیاں خرید لاتا یا جانوروں کی چربی کا بنا ہوا سستا تیل لے آتا۔ ہر چیز معیاری تھی، مگر قیمت دوسروںکے برابر رکھنی تھی۔ بڑا بیٹا جو 12 سال کا تھا، اس نے بھی چائے کا اسٹال لگا لیا، دس سال کی بیٹی چپاتیاں بنانے لگی، اور چھوٹا بیٹا بھاگ بھاگ کر گاہکوں تک آرڈر فراہم کرتا۔ بڑی بیٹی کو دکان پر نہیں لائے تھے۔ تمام تگ و دو کے باوجود اس ہوٹل سے 25 ہزار بھی ماہانہ آمدنی نہیں ہورہی تھی۔ سود ہی ادا ہو پاتا جبکہ اصل رقم جوں کی توں موجود تھی۔ لالہ کا تقاضا بڑھتا جارہا تھا، یہاں تک کہ ایک روز لالہ کے آدمیوں نے محمد اظہر کی زبردست پٹائی کردی۔ دو ہڈیاں چٹخ گئیں، اوپر سے دھمکی کہ گروی رکھا ہوا مکان فروخت کرکے پیسے کھرے کرلیں گے۔ اظہر چلاّتا رہا ’’بھائی چار لاکھ کے لیے میرا 80 لاکھ کا مکان کیسے چھین سکتے ہو تم لوگ؟‘‘ پتا نہیں سنا کہ نہیں سنا، مار پیٹ کر چلتے بنے، جاتے جاتے پچیس ہزار روپے لے کر گئے، مگر یہ صرف سود تھا اصل قرضہ باقی تھا۔
پلاسٹر میں بندھا ہوا محمد اظہر مسجد پہنچا، امام صاحب کے لیے ایک ڈبا بریانی کا بھی لے گیا۔ جب امام صاحب کھا پی چکے تو کہنے لگا ’’امام صاحب! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر کسی کو غیر کاروباری قرض درکار ہوتا تو کیا طریقہ کار تھا؟‘‘
امام صاحب نے غور سے سوال سنا اور بولے ’’بیٹا، مسجد نبویؐ کو مرکز بنادیا گیا تھا، وہاں لوگ آکر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زکوٰۃ صدقات وغیرہ جمع کرا جاتے، یہ رقم آپؐ کی تحویل میں رہتی تھی، اور جو ضرورت مند آتے، آپؐ ضرورت کے حساب سے کچھ نہ کچھ مدد فرماتے رہتے۔ نہ کسی کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت تھی، نہ کسی کی سفید پوشی کا بھرم کھلتا۔ امام کے اوپر علاقے میں پھیلی تمام برائیوں اور مسائل کی ذمے داری ہے، اسی لیے اسلام میں امام کا پاکیزہ اور نیک فطرت ہونا بہت ضروری ہے۔ محلے کے تمام مسئلے مسجد سے امام کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔ ایک محلے کی ایک مسجد ہوگی تو محلے کے 50 گھروں کے لوگوں کو امام اچھی طرح جانتا ہوگا، سب کے مسائل سے واقف ہوگا، وہ خود سب کے مسئلے حل کرے گا یا مسجد میں آنے والے نمازیوں سے کہہ سن کر حل کروا لے گا‘‘۔ انہوں نے تفصیل سے بتایا۔
’’مگر امام صاحب اب تو امام کی کوئی اہمیت ہی نہیں، گائوں سے آنے والے لڑکے یا یتیم خانوں سے پڑھے ہوئے لڑکوں کو امام بنادیا جاتا ہے، عید کے عید جیسے 500 یا ہزار ہم اپنی ماسیوں وغیرہ کو دیتے ہیں ویسے ہی امام صاجب کو دے دیتے ہیں۔ وہ علم، وہ پاکیزگی، وہ اختیار جو امام کے ایک علاقے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے تھے، وہ ذمے داری اب کہاں امام کو دی جاتی ہے! وہ تو افطار کا بھی انتظار کرتا رہتا ہے کہ کوئی افطار بھیجے گا تو میں افطار کروں گا، حالانکہ امام کے پاس اتنے پیسے ہونے چاہئیں کہ محلے میں موجود ناداروں کو وہ افطار بھیجے اور محلے میں کوئی بھوکا نہ رہے‘‘۔ اظہر نے اپنا مؤقف بیان کیا۔
’’ہاں بیٹا! نصیحت بے کار کام ہے، آپ کتنا بھی لوگوں کو نصیحت کریں کہ قرضِ حسنہ لوگوں کو فراہم کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں، مگر ہر شخص قرض دینے سے پہلے یہی سوچے گا کہ مجھ کو ضرورت پڑی تو پھر کیا کروں گا! اس کے برعکس اگر ایک نظام قائم ہوجائے تو ہر شخص کو پتا ہوگا کہ آج میں امام صاحب کو کچھ رقم اعانت میں دے دوں، کل مجھے ضرورت پڑی تو امام صاحب ہی میری مدد کریں گے‘‘۔ امام صاحب بولے۔
’’یعنی ایک کمیونٹی کا نظام قائم ہوجائے گا جہاں سب کی ضرورتیں پوری ہوں گی‘‘۔ اظہر بولا۔
’’بالکل بیٹا! میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا وقت نہیں ملا کہ وہ تمام نظام قائم کرکے دکھاتے، لیکن بہرحال مسجد نبویؐ کی فعالیت سے ہمیں اندازہ لگانا چاہیے کہ محلے کی ایک مسجد کی کیا اہمیت ہے۔ مسجد اسکول سے لے کر حکومت چلانے کے مرکز تک سب کچھ ہے۔ مسجد بے آسروں کا آسرا ہے تو ہدایت کا منبع بھی ہے۔ یہ ہر محلے کا ہیڈ کوارٹر ہے جہاں سے محلے کے ہر گھر کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں اور لوگ پانچ بار جمع ہوکر ایک دوسرے کے مسائل سنتے، سمجھتے، بلکہ حل بھی کرتے ہیں۔ 10 مسجدوں پر گیارہویں مسجد کو جامع مسجد قرار دے دیا جائے اور حکومت جامع مسجد سے رابطہ رکھے تاکہ گیارہ مسجدوں پر مشتمل علاقے کی ضروریات کا حکومت کو بھی ادراک ہو اور وہ بھی ضرورت کے مطابق فنڈز فراہم کرے۔ یہ ناظم اور میئر وغیرہ اسلامی طرزِ حکومت میں نہیں ہے بلکہ مسجد کے ذریعے بنیادی حکومتوں کے دائرے کو پھیلایا جاتا ہے‘‘۔ امام صاحب نے سمجھایا۔
’’بہت سے لوگ قرض لے کر واپس بھی تو نہیں کرتے، قرض لینے والا عیاشی کررہا ہوتا ہے اور دینے والا پائی پائی کو ترس رہا ہوتا ہے، اس لیے بھی لوگ قرضِ حسنہ نہیں دیتے‘‘۔ اظہر نے کہا۔
’’اگر نظام قائم ہوجائے تو حکومت بھی دائرۂ کار میں داخل ہوگی اور جو لوگ قرضہ ہڑپ کرکے عیاشی کررہے ہیں اُن کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے اور ان کی تنخواہ میں سے بھی تھوڑی تھوڑی رقم کاٹ کر قرض پورا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب نظام نہیں ہے تو ہر ایک حرام کھائے گا، جس کا جو دل چاہے گا کرتا پھرے گا‘‘۔ امام صاحب نے بتایا۔
’لوگ ذاتی طور پر کارِ خیر کررہے ہیں لیکن جو باقاعدہ ایک اسلامی نظام کی برکات ہیں وہ حاصل نہیں ہو پا رہیں۔ اگر امام کو اختیار دیا جائے تو وہ اپنے علاقے کی بیماریوں کے حساب سے اسپتال بھی کھول سکتا ہے، اسکول بھی کھول سکتا ہے اور بڑا اسپتال ہر جامع مسجد کے ساتھ کھولا جائے۔ امام چونکہ نماز پڑھتا ہوگا تو انتہائی پاکباز ہوگا اور کرپشن کا خطرہ بھی نہیں رہے گا، اور اس کا محاسبہ بھی آسان ہوگا، کیونکہ اس کے پیچھے پوری سیاسی پارٹی اپنے ساتھی کے گناہ چھپانے کے لیے شور نہیں ڈالے گی‘‘۔ محمد اظہر نے رائے کا اظہار کیا۔
’’کاش ہمارے ملک میں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سکھایا ہوا نظام نافذ ہوجائے‘‘، امام صاحب نے دعا کی۔

حصہ