نِکّی ایسی ہے تو وَڈّی کیسی ہوگی؟۔

588

نِّکی ایسی ہے تو وَڈّی کیسی ہوگی؟
پانچ دن قبل ہیوسٹن یونیورسٹی ،امریکہ کے ایک سیمینار ہال میں ’قیادت اور گلوبل چیلنجز ‘کے موضوع پر تقریر کا سیشن تھا۔اقوام متحدہ میں امریکہ کی ایمبیسیڈر نکی ہیلی کو اس موضوع پر کلیدی خطاب کی دعوت دی گئی ۔
بڑے چاؤ اور تیاری کے ساتھ وہ امریکی نوجوانوں میں امریکی پالیسیوں کے حق میں رائے عامہ بنانے کے عزم کے ساتھ آئیں ۔خطاب کے آغاز میںشاید دوسرے منٹ میں ہی موصوفہ نے امریکی فارن پالیسی کی تعریف شروع کی تو یکدم ہال میں ایک طالب علم نے باقاعدہ نعرہ لگا کر اُنہیں مخاطب کیا اورکہا کہ ’’ہے نکی ۔ تمہارے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔‘‘پھر اگلا نعرہ یہ لگایا کہ
“You continue to sign off on the genocide of a native people and and you are an accomplice to terrorists and colonisers.
اُس کے اس نعرہ مستانہ کو سن کر موصوفہ کا تو یکدم رنگ اڑ گیا اور مسکرانا شروع ہو گئیںمگر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔اُس کے بعد اُس طالب علم کے ساتھ کئی اور طلبہ وطالبات ہم آواز ہو گئے اور پورا ہال نعروں اور پھر تالیوں سے گونج اُٹھاجیسا کہ سب ان طلبہ کے نعروں کی حمایت کر رہے ہیں ۔طلبہ و طالبات شاید پلان کرکے بیٹھے تھے اس لیے بہت جامع نعرے لگائے اور پکار پکار کر کہاکہ
Nikki Nikki can’t you see
you are on a killing spree?
Nikki Haley you can’t hide,
you signed off on genocide!
ویسے نکی صاحبہ کی تربیت اتنی بھرپور تھی کہ ماننا پڑے گا ، ویسے وہ چند لمحے تو ہکا بکا رہیں اور یقیناً سوچتی رہیں کہ اب اِس ’عزت افزائی‘ کے بعد کہاں سے بات شروع کروں ؟پہلے تو مسکرا مسکرا کر نعرے سنتی رہیں پھر جب تالیں بجیں تو اُنہوں نے گفتگو کاآغاز کیا جس کے بعدپھر دوبارہ ایک طالبہ کے نعروں کی گونج سنائی دی ۔پھر تالیاں بجیں اور خاتون نے اپنے خطاب کوتیسرے توقف کے بعد شروع کیا۔ بہر حال خاتون نے اپنے خطاب کا آغاز کیا ، جس میں انہوں نے صاف کہاکہ ’’ہم ایران اور ناتھ کوریا کے ساتھ نئے تعلقات بنانے جا رہے ہیں ،فلسطین اور اسرائیل کے تنازعہ میں ہم اپنی اقدارکی بقاء اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ، آزادی ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے ۔‘‘ بس اِس سے زیادہ بتانے کی ہمت نہیں کیونکہ جو کچھ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا وہ جھوٹ اور امریکی چوہدراہٹ پر مبنی ایسا خطاب ہے کہ اس پر الگ مضمون لکھا جا سکتا ہے ۔ویسے کوئی ویڈیو ایسی نہیں ملی جس میں کیمرا طلبہ و طالبات کی جانب ہو جس سے یہ پتہ چلایا جا سکے کہ اُن طلبہ و طالبات کے ساتھ کیا ہوا کہ پھر ہال میں اتنی خاموشی چھا گئی ۔البتہ یہ ضرور پتہ چلا کہ ان طلبہ و طالبات کو یونیورسٹی سیکیورٹی عملہ نے ’آزادی اظہار رائے ‘ کے جرم میں ہال سے باہر نکال دیا، باہر آکر اُنہوں نے فلسطینی پرچم اٹھا کرفلسطینی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعہ سامنے آگئیں۔اس سب کا نتیجہ یہ نکلاکہ ’کلمہ حق ‘کہنے والے ان بچوں کو اور ساتھ ہی نکی ہیلی کے اس خطاب کو کسی بڑے میڈیا گروپ نے خبرکا حصہ نہیں بنایا ۔ جو محنت کی اِن طلبہ نے کی وہ بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو استعمال کیا اور مذکورہ ویڈیو خواب وائرل ہوئی ۔ٹوئٹر پر عبدالحمید فارقی طلبہ کو سلام پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ مسلم نسل کشی کی ایڈووکیٹ اور ٹرمپ کے بھونپو کا ہیوسٹن یونیورسٹی میں ایسا ہی استقبال ہونا تھا۔‘اسی طرح ایک اور صارف نے ہال ہی میں بنائی گئی ایک موبائل ویڈیو جس میں سیکورٹی اہلکار طلبہ کو باہر نکال رہے ہیں شیئر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ سچ کبھی بھی جھوٹ اور پروپیگنڈہ سے نہیں دبایا جا سکتا ، فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ایک کڑوی حقیقت ہے ، عالمی میڈیا جتنا چاہے اس سے صرف نظر کرے مگران طلبہ نے کمر باندھ لی ہے ۔‘‘اچھا ساتھ ہی یہ بھی جان لیں کہ یہ وہی خاتون ہیں جو چند روز قبل ہی اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں پہلے تو اسرائیلی اقدامات کا بھرپور دفاع کرتی رہیں اور عین اُس وقت اٹھ کر چلی گئیں جب فلسطینی وفد نے اپنی بات کا آغاز کیا ۔اس پر بھی خوب لعن طعن سماجی میڈیا کی زینت بنی ۔سجاد منصوری لکھتے ہیں کہ’’ شکر کرو یہ نِّکی ہے ، وڈی ہوتی تو جانے اور کیا کیا کرتی۔‘‘لوگوں نے کوئی 50سالہ اس خاتون کے بھارتی پس منظر کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا ۔بہر حال امریکی پالیسیوں کی ترجمان کے اس خطاب کے دوران فلسطین سے محبت کرنے والے اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے اہل ایمان طلبہ و طالبات نے جس سیاسی شعور و بلوغت کا بلا جھجھک اور بے دھڑک مظاہرہ کیا وہ سب اُس وائرل ہونے والی ویڈیو میں یقیناہم سب نے دیکھا اور خوب سراہا۔
حیرت اس بات پر کہ امریکہ میں دہشت گردی کی تازہ لہر اور پہلی مرتبہ اس میں ایک پاکستانی طالبہ سبیکاشیخ کی شہادت پر سوائے دکھ کے رد عمل کے کچھ زیادہ نہیں مل سکا۔امریکہ میں یہ گذشتہ پندرہ ماہ میں 26 ویں خونی واردات تھی جس میں کسی تعلیمی ادار ے کے اندر اساتذہ ، طلبہ و طالبات کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ٹیکساس کے ایک ہائی اسکول سانتا فے میں یہ واقع رونما ہوا جس میں دو اساتذہ اور ۸ طلبہ و طالبات جاں بحق ہوئے ، دس اس کے علاوہ زخمی ہوئے ۔ فائرنگ کرنے والا سترہ سالہ جوان گرفتار موقع پر گرفتار ہوا۔قاتل کے فیس بک پیج سے بھی ایسی چیزیں سامنے آئیں جس سے اُس کے مقاصد کا واضح اندازہ نہیں ہو سکا، البتہ تمام چیزوں سے اُس کے مشتبہ ہونے اور قتل کرنے میں دلچسپی کے عوامل ظاہر ہوئے ہیں۔( نیو یارک ٹائمز)سترہ سال کی عمر کی وجہ سے اُسے امریکی قوانین کے مطابق نہ ہی عمر قید نہ ہی سزائے موت دی جا سکتی ہے ۔سوشل میڈیا پر لوگوں نے ملالہ کے ساتھ سبیکا کا موازنہ کیا ، جس میں ایک زخمی ہونے والی کے لیے تو دنیا میں شور مچ گیا مگر ایک قتل ہو جانے والی کے لیے ایک موم بتی بھی نہیں ۔
امریکہ میں تو اس واقعہ پر ایک بار پھر خوب شور اٹھا مگر اسلحہ کے سوداگروں کو عادت ہو چکی ہے اس شورکی اس لیے عملاً کچھ نہیں ہوا ۔ پاکستان میں جو شور مچنا چاہیے تھا ویسا ہوا نہیں ، ٹوئٹر پر ٹرینڈ بھی غم، دکھ اور افسوس کے جذبات پر ہی محیط تھا ، کسی کویہ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ امریکہ عملاً پاکستان سے زیادہ غیر محفوظ ہو چکا ہے ۔ہمارے ملک میں تو ایک اے پی ایس ہوا وہاں تو ڈیڑھ سال میں بیسیوں اے پی ایس ہو گئے ہیں ۔بہر حال وزیر اعظم سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کی تعزیت و افسوس ہی سبیکا کی قسمت میں رہی ۔
اسی طرح تحریک انصاف کے ایک رہنما اسد عمر کی جانب سے جوش خطابت میں پیش کردہ اعداد و شمار کا جو اعلان کیا وہ سوشل میڈیا پر اُن کے لیے سخت عتاب کاشکار بن گیا۔
اپنے اعلان کے مطابق اُنہوں نے ’پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا‘جس پر عوام نے تحریک انصاف کے پچھلے پانچ سال کا بھی پوسٹ مارٹم کیا اور اگلے پانچ سالوں میں اس اعلان کے عملی ڈھانچہ کا ایسا ایکس رے کیا کہ جن لوگوں کو اس اعلان کا نہیں پتہ تھا وہ بھی پتہ چل گیا۔ساتھ ہی ماضی کھنگالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے صارفین یا سیاسی مخالفین نے اسد عمر کا ایک معروف ٹی وی شو کا کلپ بھی شیئر کیا جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی سے کسی قسم کے اتحاد پر خاصی سخت بات کہی اور کلپ کے ساتھ حالیہ سینیٹر کے انتخاب کا حوالہ دیا گیا۔ایک دوست لکھتے ہیںکہ ’ایک کروڑ نوکریاں دینے والوں نے نوکریاں دی ہوتی تو خیبر پختونخوا کے جوان سمندر پار مزدوری نہ کرتے۔‘ویسے اس اعلان پر تبصروں کا جواب دیتے ہوئے یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’ کس نے کہا کہ یہ تمام نوکریاں سرکاری ہونگی، بلکہ پرائیوٹ سیکٹر
میں نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے ۔‘‘ایک ناقد نے اس عمر کی پینڈ پمپ افتتاح کی تصویر ڈالتے ہوئے لکھاکہ ’’”شیخ چلّی،بطور ایم این اے پانچ سال میں ایک واٹر پمپ کا افتتاح کرنے والا کہہ رہا ہے
پچاس لاکھ گھراور ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرے گا۔‘‘ قدسیہ ممتاز اس حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’’ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنا ترقی پزیر ممالک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بڑی صنعتوں سے لے کر اسمال انڈسٹریز میں ہی کم سے کم پچاس لاکھ نوکریاں نکالی جاسکتی ہیں۔ سیلز اس کے علاوہ ہے۔ تعلیم صحت اور زراعت میں وسیع گیپ موجود ہے۔ڈاکٹر محبوب الحق کا ماڈل جو جنوبی کوریا نے ایڈاپٹ کیا اور ترقی کی پاکستان میںایک بار پھر امپلمینٹ کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان لوٹ مار کے ایکسپرٹ حکمرانوں نے یہ باور کرادیا ہے کہ قرضہ لیے بغیر گزارا نہیں اور امکانات صرف ان کی کرپشن میں موجود ہیں ملک کا بس اللہ ہی حافظ ہے اور اس پہ کھوتا خور ایمان بھی لے آئے ہیں انہیں عمران خان کے وژن کی سمجھ ہی نہیں آرہی۔‘‘ویسے تحریک انصاف کی جانب سے اتنی اعلانات بھری الیکشن مہم پھر اس کے بعد ٹی وی پروگرام میں دانیال عزیز پر تھپڑ مارنے کا جارحانہ عمل دیکھ کر لوگوں نے یہی تبصرہ کیا کہ ’’لگتا ہے ، اوپر سے کلیئرنس مل گئی ہے ۔‘‘اس دوران پارٹی اجلاس میں نا اہل ترین اور مخدوم قریشی کے درمیان سخت کلامی بھی اسی تناظر میں سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہی ۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ پی ٹی آئی کا اس ہفتہ جلسہ نہیں تھا تو اُس نے ٹرینڈ میں شامل رہنے کے لیے یہ حرکتیں انجام دیں۔
پاکستان بھارت تعلقات میں جتنی دوستی کی ہوا بھری جائے اُس کا کوئی فائدہ نہیں ۔میاں نواز شریف کے حالیہ انٹرویو میں ممبئی حملے کے بیان کے نتیجے میں اٹھنے والا طوفان ابھی ختم نہیں ہوا ۔
اسکے بعد رواں ہفتہ سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی ٹکڑوں میں ہی سہی ایک پوری کتاب کے اہم حصہ سب کو با آسانی پڑھنا ، جاننا اور سمجھنا نصیب ہو گیا،کیونکہ قاری کی آسانی کے لیے اسکرین شاٹ بھی ہمراہ شیر کیے گئے تھے۔ ویسے ایک مشہور قول ہے کہ کسی بیوروکریٹ یا فوجی کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُس کی کوئی پریس کانفرنس ہو ، انٹرویو ہو یا کتاب خوب دھما چوکڑی مچاتی ہے ۔یہی حال ہوا Spy Chroniclesنامی کتاب کی لانچ پر۔ ویسے تو یہ بھارت میں لانچ ہوئی اور پاکستان میں پابندی لگا دی گئی ،مگر یہ پابندی سوشل میڈیا کے دور میں ؟ کتاب کا پی ڈی ایف فارمیٹ واٹس ایپ پر اگلے دن ہی پہنچ گیا ۔ کئی چینلز نے بھی پوسٹ مارٹم کیا ۔یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ان معنوں میں بھی ہے کہ اسے دو ایسے ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان چیف نے لکھا ہے کہ جو آپس میں سخت ترین مخالف ہیں۔اپنی اپنی نوکری کے دوران حاصل ہونے والی معلومات اور تجربات کی بنیاد پر دونوں نے جو کچھ کیا ہے ،اُس پریقین نہیں آرہا۔پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے چیف اسد درانی اوربھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے مشترکہ طور پر تحریر کیا ہے ۔ایک دوست ’’حلال ملاقاتیں حلال کاروبار ‘‘ کے عنوان سے جامع تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ ’’سابقہ آئی ایس آئی چیف اسد درانی اور انڈین را چیف اے ایس دلت دونوں نے مشترکہ کتاب لکھی ہے۔ جس میں اسد درانی نے بطور آئی ایس آئی چیف پاکستان کے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا۔ جس میں ایک اس بات کا اعتراف ہے کہ کشمیر میں حریت کانفرنس اور مجاہدین کو آئی ایس آئی نے ہر طرح کی مدد فراہم کی۔اس کتاب کو لکھنے کے لئے دونوں میں دبئی ، بنکاک ، سنگاپور میں کئی خفیہ ملاقاتیں کیں۔اس مشترکہ کتاب سے دونوں سابقہ جرنیلوں کو بڑی آمدن متوقع ہے۔جنرل اسد درانی نے جو انکشافات کیے ہیں اسکے بعد اسٹبلشمنٹ کو چاہیے کہ غداری کا سرٹیفیکیٹوں سے بھرا ٹرالر اسکے گھر بجھوا دے۔‘‘اسی طرح سانحہ ایبٹ آباد کے حوالے سے اُن کا بیان بھی خاصا وائرل رہا جس میں انہوں نے واضح طور پر بیان کیا کہ ’’اسامہ کی حوالگی کے لیے پاکستان اور امریکہ میں خفیہ ڈیل ہوئی جنرل اشفاق پرویز کیانی کسی بحری بیڑے پر اس معاملے میں امریکن سے مل چکے تھے سابقہ ISIکے افسر نے اسامہ کی معلومات امریکہ کو دی۔‘‘ایک دوست لکھتے ہیں کہ ’’سارا ٹویٹر کھنگال لیا، ساری فیس بک چھان ماری ، کہیں بھی اسد درانی کیخلاف غداری کا فتویٰ نظر نہیں آیا۔کوئی پریس ریلیز نہیں ۔کوئی بیان نہیں ۔کوئی مظاہرہ نہیں ؟ویسے آپ اسد درانی والے غدار ہیں یا نواز شریف والے غدار؟‘‘چونکہ پہلے سارا نزلہ نواز شریف پر گرایا جا رہا تھا اسلیے میاں صاحب کے چاہنے والوں نے اس موقع کو جانے نہیں دیا ،’’دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کا دعوی ہے کہ کلبھوشن رہا ہو کر انڈیا چلا جائے گا۔کوئی ٹویٹ ریجیکٹڈ۔کوئی قومی سلامتی کونسل کا اجلاس۔کوئی غدار کے خلاف مہم‘‘۔بہر حال حساس موضوع ہے اور ابھی آہستہ آہستہ جگہ بنا رہا ہے اگلے ہفتے مزید دیکھتے ہیں کس رُخ پر جائے گا۔ ویسے پاکستان انگلینڈ کی ٹیسٹ سیریز ، کراچی میں پانی و بجلی کے بحران ،فاٹا کے انضمام ، رمضان ٹرانسمشن فیصلے پر عمل درآمد کے تناظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دوبارہ سرزنش بھی موضوع رہی ۔

حصہ