لائسنس ٹوکِل (Licence to Kill)۔

542

سید اقبال چشتی
میرے ایک دوست ڈرائیونگ سیکھ رہے تھے انسٹریکٹر نے کہا کہ آپ اپنی گاڑی کے پیچھے L کا نشان لگا لیں تا کہ لو گوں کو پتہ چل سکے کہ آپ ابھی گا ڑی چلا نا سیکھ رہے ہیں ایک دن وہ دوست اپنی گا ڑی میں ہمارے پاس تشریف لاتے ہیں ایک اور دوست گاڑی پر لال رنگ کا L کا نشان دیکھ کر پو چھتے ہیں اس کا مطلب جا نتے ہو کیا ہے گاڑی چلانے والے دوست نے کہا کہ لر ننگ کے ہیں لیکن دوسرے دوست نے ہنستے ہو ئے کہا کہ اس کا مطلب Licence to Kill ہے معلوم نہیںدوست نے یہ کیوں کہا تھا اور اب تک کتنے لر ننگ افراد کو اس جملے کے حوالے سے حا دثے کی صورت میں استثنا ملا ہے کچھ نہیں کہہ سکتے مگر ملک پا کستان میں مختلف ممالک کے سفارتی عملے کو خاص کر امریکا کے سفارتی لاڈلے عملے کو ضرور Licence to Kill کا استثنا حاصل ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطا بق جو لائی 2010 میں 7th ایونیو شاہراہ پر امریکی سفارتی عملے کے فرد نے ایک پا کستانی شہری گاڑی تلے کچل کر ہلاک کردیا تھا اسی طرح نو مبر 2010 میں شاہراہ جمہوریت پر سفارتی استثناء رکھنے والے امریکی نے دو موٹر سائیکل سوار کو ٹکر ماری جس سے ایک زخمی اور دوسرا ہلاک ہو گیا تھا لیکن یہ کیس مشہور اس لیے نہیں ہو ئے تھے کہ میڈیا نے اس پر تو جہ نہیں دی تھی لیکن لاہور میں بد نام زمانہ امریکی جا سوس ریمنڈ ڈیوس نے 2011 میں جب فائرنگ کر کے موٹر سائیل پر سوار دو نو جوا نوں فیضان اور فہیم کو قتل کر دیا تھا اور تیز رفتاری سے گاڑی بھگانے اور مو قع واردات سے بھا گتے ہو ئے تیسرے فرد کو اپنی گاڑی تلے کچل دیا تھا یہ واقعہ اپنی نو عیت کا انوکھا واقعہ تھا کہ ایک امریکا سفارت خانے سے تعلق رکھنے والے فرد نے کسی وجہ کے بغیر دو پا کستا نیوں کو قتل اور تیسرے کو گاڑی تلے روند دیا لیکن عوام کے غم اور غصے کو پس پشت ڈال کر زرداری حکو مت نے ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثناء رکھنے کی وجہ سے با عزت رہا کر کے امریکا روانہ کر دیا اور عوام احتجاج ہی کرتی رہ گئی اُس وقت بھی حکومت کی طرف سے یہی کہا گیا تھا امریکی عدالت میں وہاں کے قانون کے تحت ریمنڈ ڈیوس پر مقدمہ چلایا جائے گا لیکن دنیا نے دیکھا کہ کون سا مقدمہ کون ریمنڈ دیوس لیکن ایک دفعہ اخبار میں خبر پڑھی تھی کہ امریکی عدالت نے ریمنڈ ڈیوس کو امریکی شہری کو مکا مارنے اور اپنے ادارے کا نام اور اس کا غلط استعمال کر نے اور شہری کو ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے دو ہفتوں کے لیے جیل کی سزا سنائی ہے۔
ابھی اس واقعہ کو لوگ بھو لے نہیں تھے کہ فروری 2013 میں مارگلہ ایونیو پر ایک سفارتی استثنا رکھنے والے فرد نے معصوم شہری کو گاڑی تلے کچل دیا جو زخمی ہوا اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہو ئے چل بسا اس لیے یہ کیس زیادہ مشہور نہیں ہوا لیکن ہماری حکومت کی طرف سے سفارتی عملے کو نشے میں دھت ہو کر گاڑی چلانے اور پاکستانیوں کو اپنی گاڑی تلے کچلنے کا لائسنس ملتا رہا جس سے امریکی سفارتی عملے کے حوصلے بلند ہو تے گئے اور نہ وہ سگنل کی پا بندی کرتے اور نہ رفتار اور اخلاق کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کر نل جوزف نشے میں گاڑی چلاتے ہو ئے دو مو ٹر سائیکل سواروں عتیق اور راحیل کو سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہو ئے اپنی گاڑی تلے کچل دیتا ہے اور موقع سے فرار ہو نے کی کو شش کرتا ہے لیکن آگے پکڑا جاتا ہے مگر سفارتی استثناء حاصل ہو نے کی وجہ سے گاڑی سمیت چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
کرنل جوزف کے دو نو جوا نوں کے قتل کے بعد عوام پھر سے صدائے احتجاج بلند کرتی ہے کہ خون کا بدلہ خون ہے لیکن عوام کی کون سنتا ہے اور اس بار بھی حکو مت نے قاتل کر نل جوزف کو یہ کہہ کر امریکا جا نے دیا کہ اس کو سفارتی استثناء حاصل تھا اور امریکی عدالت میں کر نل جوزف کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا کیا اس سے قبل ریمنڈ ڈیوس کے خلاف مقدمہ چلا ؟ نہیں تو کیا اب کر نل جوزف کے خلاف مقدمہ چلے گا یقینا نہیں کیو نکہ غلا موں کو مارنے کا ان افراد کو خصوصی اجازت نا مہ لا ئسنس ٹو کل ملا ہوا ہے اس لیے کو ئی مقدمہ اور کو ئی سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں البتہ اگر کو ئی عورت اور وہ بھی ڈاکٹر عا فیہ کسی امریکی پر صرف اپنے اغوا کے بعد بندوق تان لے جو کہ یہ بھی جھوٹ ہے مگر امریکی عدالت انصاف ڈاکٹر عا فیہ کو6 8سال کی سزا سناتی ہے اگر حکمرانوں میں زرا بھی قومی حمیت اور غیرت ہو تی تو اپنی خود مختاری اور شہریوں کے قتل کے بدلے ڈاکٹر عا فیہ کو وطن لا سکتے تھے لیکن جو حکمران ڈالر کے بھوکے ہوں اور ڈالر لے کر ملک اور قوم کی خود مختاری کا سودا کرتے ہوں اور لا ئسنس ٹو کل جاری کرتے ہوں ان سے بہتری کی اُمید کرنا عبث ہے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی عوام کو مایوس کیا لیکن مسلم لیگ کے قائدین تو ڈاکٹر عافیہ کی والدہ سے مل کر وعدے کرتے تھے کہ ہم حکومت میں آکر عافیہ کو رہائی دلائیں گے لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی وہی کام کیا جو زرداری کی حکومت نے کیا تھا اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ دو نوں ملک اور قوم کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ امریکی مفاد کے لیے کام کرتے ہیںاس کی واضح مثال افغانستان کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو تمام تر سفارتی آداب کو یکسر نظر انداز کر کے امریکا کے حوالے کر دیا گیا تھا ایک طرف افغانستان اپنے ملک کی آزادی اور خود مختاری کے لیے جدو جہد کر رہاہے تو دوسری طرف پا کستان کے حکمرانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم امریکی غلام ہیں اور امریکا جو چاہے اپنی مرضی کے مطابق مطا لبات منوا سکتا ہے جس طرح جنرل مشرف نے ایک فون کال پر اپنی سر زمین امریکیوں کے حوالے کر دی تھی اور اپنے ہی افغان مسلمان بھائیوں پر بمباری اور ڈرون اٹیک کی اجازت دے کر ملک کو بد امنی کی شکار گاہ بنا دیا تھا جس کا نتیجہ آج تک ہم ہو نی والی دہشت گر دی کی وجہ سے بھگت رہے ہیں پاکستانی اپنے ملک پاکستان میں امریکیوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں تو دوسری طرف اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان سے جانے والی سبیکا امریکا میں دہشت گردی کی شکار ہو جاتی ہے امریکا کے تعلیمی اداروں میں ہو نے والی فائرنگ اور دہشت گردی کے واقعات سے اندازہ لگا لیں کہ گزشتہ پانچ ماہ کے اندر یہ بائیسواں واقع ہے اور اس میں کئی لوگ مارے گئے لیکن مارنے والا مسلمان نہیں تھا اس لیے دنیا میں کو ئی شور نہیں اُٹھا بلکہ مارنے والے کو خبط الحواس فرد کہہ کر عدالتی استثناء دے دیا گیا یہ دہرا معیار عالمی طاقتوں کا ہر جگہ ہے اور عالمی طاقتیں خون مسلم کو ارزاں سمجھ کر بہائے جا رہے ہیں اور ان کا سرغنہ امریکا ہر جگہ امن قائم کر نے کے نام پر مسلم ممالک اور مسلمانوں کے خون سے ہو لی کھیل رہا ہے مسلم ممالک اور اقوام متحدہ سمیت کو ئی بھی امریکا کو روکنے والا نہیں ہے شایددنیا کے تمام امن کے ٹھیکداروں نے عالمی طاقتوں کو مسلمانوں کے قتل عام کا لائسنس ٹو کل جاری کیا ہوا ہے اسی لیے شاید ہر جگہ افغانستان سے لے کر شام و فلسطین تک مسلمانوں ہی کوقتل کیا جا رہا ہے اور بد قسمتی سے مسلم دنیا کے حکمران اپنی حکمرانی چلے جانے کے خوف سے اس ظلم کو اندھے ، بہرے اور گو نگے بن کر دیکھ رہے ہیں
دنیا میں دوسری بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے اور 56 اسلامی ممالک ہیں لیکن کفر متحد اور دنیا میں اپنے نظام کے تسلط کے لیے کاروائیاں کر رہا ہے مگر مسلم ممالک نہ صرف انتشار کا شکار ہیں بلکہ سب نے امریکا کو اپنا خدا بنا لیا ہے اسی لیے سید ابو اعلیٰ مودودی نے فرمایا تھا کہ مسلمان کی سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ با طل کو طاقتور دیکھ کر اس کی غلامی پر آمادہ ہو جائے شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے مسلم حکمران باظل کی قوت کے آگے سر جھکائے کھڑے ہیں اور با طل قوتوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اسی لیے ہمارے حکمرانوں نے بھی اللہ کے آگے جھکنے کے بجائے باطل قوتوں کے آگے جھکنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ لی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے حکمران اپنے ملک کی سلامتی و خو د مختاری کے ساتھ اپنے لوگوں کی جان و مال کا تحفظ بھی نہیں کر تے ملکی حدود میں ہو نے والے ڈرون اٹیک اور کرنل جوزف کے ہاتھوں مر نے والے پاکستانیوں کی ہلاکت ان حکمرانوں کی امریکی غلامی کی نشاندہی کرتے ہیں امریکا پوری دنیا میں خاص کر مسلم ممالک میں Licence to Kill کا پروانہ لے کر ایک ایک کر کے مسلم ممالک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہا ہے اور مسلم حکمران ان قاتلوں کو استثناء دے کر اپنے ملک و قوم کی حمیت کا سودا کر رہے ہیں مگر حکمران یہ بات یاد رکھیں کہ ایک دن اللہ کی عدالت انصاف لگے گی جہاں کسی کو استثناء حاصل نہیں ہوگا –

حصہ