برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

821

( قسط نمبر :138)
سولہواں حصہ
میجر راجا عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ نے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے دشمن کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا۔ حملہ آور تعداد میں ہم سے بہت زیادہ تھے، یوں سمجھ لیں کہ ایک کے مقابلے میں تین سپاہیوں کا تناسب تھا۔ دشمن چار سو توپوں کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا، جبکہ ہمارے پاس درمیانے درجے کی چھوٹی بڑی ملا کر ایک سو توپیں موجود تھیں۔ ہماری آرٹلری کمک ابھی راستے میں ہی تھی کہ دشمن کا بھرپور حملہ شروع ہوگیا ۔
6 اور 7ستمبر کے دن تک ہم نے دشمن کا خوب جم کر مقابلہ کیا اور دشمن کو اپنی جان کے لالے پڑگئے تھے۔ اس حالت میں جنگ کے تیسرے دن یعنی 8 ستمبر کو دشمن کے قدم اکھڑنے شروع ہوگئے۔ اپنی یقینی پسپائی کو دیکھتے ہوئے جنرل چودھری نے اپنا ’’پیرا ٹروپر‘‘ بریگیڈ نمبر 50 بھی محاذِ جنگ میں اتارنے کا فیصلہ کیا اور بڑی تعداد میں پیراشوٹ کی مدد سے اپنے کمانڈوز کو میدانِ جنگ میں اتار لیا گیا۔ یہ اضافی نفری آجانے سے دشمن کی نفری 35 ہزار ہوچکی تھی جس پر پاک فوج کے 5 ہزار جوان تھے ۔
ہمارا آپریشنل موٹو تھا ’’پاکستانی فوج کا جوان آخری سپاہی، آخری گولی تک لڑے۔ سنگینوں سے لڑے، خالی ہاتھوں سے لڑے، ناخنوں سے لڑے، دشمن کو نیست و نابود کردے، اپنی زمین کا ایک انچ بھی دشمن کے ناپاک قدموں تلے نہ رہے۔‘‘ اس حکم سے افسروں اور جوانوں میں نیا عزم اور ولولہ پیدا ہوگیا۔ ہندوستانی لشکر کا ابتدائی مقابلہ بارڈر پر موجود رینجرز نے صرف رائفلز کے ساتھ کیا۔ یہ رینجرز اُس وقت تک فائر کرتے رہے جب تک ان کے پاس گولیاں ختم نہیں ہوگئیں۔ اس کے بعد سنگینوں کے ساتھ دوبدو فائٹ ہوئی اور اُس وقت تک ہوتی رہی جب تک ایک ایک رینجر نے جامِ شہادت نوش نہیں کرلیا۔ دفاعی حکمت علمی کے تحت پاکستان نے اپنے کچھ فوجی دستے نہر کے دوسری جانب بھیج دئیے تھے۔ آرڈر ملنے پر وہ بھسین کے علاقے میں ایک بڑے دائرے میں بکھر گئے اور دشمن کو تین جانب سے اپنے نرغے میں لینے میں کامیاب رہے۔ دشمن پوری طرح ہمارے جال میں پھنس چکا تھا۔ ایسے میں اچانک پاکستانی توپ خانہ دشمن پر گولوں کی صورت میں آگ برسانے لگا۔ سحر کی سپیدی پھوٹتے ہی ہماری پاک فضائیہ نے بھی آسمان سے دشمن پر آگ کے گولے برسانے شروع کردئیے۔ ہماری فضائیہ نے اسکواڈرن لیڈر ’’بچہ‘‘ کی قیادت میں زمین سے محض سو ڈیڑھ سو فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے دشمن کی صفوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اس فضائی یلغار نے دشمن پر ایسی دہشت ڈالی کہ اس کے حوصلے پست ہوگئے اور آدھی سے زیادہ فوج انسانی لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔
پاک و ہند کا بارڈر جو ’اٹاری‘ سے لے کر ’ڈوگرائی‘ تک چلا جاتا ہے، دوسری طرف’راوی سائفین‘ سے’ہڈیارہ‘ تک تمام علاقہ ہندوستانی فوج کا شمشان گھاٹ بن چکا تھا۔
میجر شفقت بلوچ نے باٹا پور کے پل کو پار کرنا دشمن کے لیے ناممکن بنادیا تھا۔ چند گھنٹوں میں لاہور جیم خانے میں شراب پینے کا عزم لے کر چلنے والے ہندوستانی سورما اپنی جیپیں اور دیگر سامان چھوڑ کر اِدھر اُدھر جان بچانے کے لیے بھاگتے پھر رہے تھے۔ ایسے میں 7 ستمبر کی صبح جنرل سرفراز نے بریگیڈیئر قیوم شیر کی کمان میں اسٹرائیک فورس (ریزرو فوج)کے جوانوں کو دشمن پر بھرپور جوابی حملے کا حکم دے دیا۔
یہ بڑا دلیرانہ فیصلہ تھا۔ ہماری محفوظ فوج کی تعداد انتہائی خطرناک حد تک کم تھی۔ حکم ملتے ہی 8 ستمبر کی صبح بریگیڈیئر قیوم شیر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ نہر پار کرکے دوسری جانب اتر گئے۔ جوانوں نے ہنگامی پل بناکر کچھ ٹینک نہر کے پار پہنچا دیئے تھے۔ بریگیڈیئر قیوم شیر نے بھسین کی طرف سے’واہگہ‘ اور بریگیڈیئر آفتاب نے شمال کی جانب سے ’طوطی‘، ’رانی‘ اور ’شمشیر‘ پر بھرپور حملہ کیا۔ یہ اتنا تیز اور زوردار حملہ تھا کہ جنرل نرنجن پرشاد اپنے ہیڈ کوارٹر کی چار جیپیں جن میں اس کی ذاتی جیپ بھی شامل تھی، مع جنگی دستاویزات بھیسن کے قریب چھوڑ کر بھاگ گیا اور ہماری محفوظ فوج نے بی آر بی کے پار مورچے قائم کرلیے۔
ڈوگرائی پر ہمارا قبضہ ہوچکا تھا، ہماری فوج نے ڈیڑھ میل آگے پہنچ کر اپنا مورچہ بنا لیا۔ فائربندی کا حکم آنے تک دشمن نے اس مورچے کو چھڑوانے کے لیے چھبیس حملے کیے اور اپنی کئی پلٹنیں اور ٹینک اس مورچے کو حاصل کرنے میں تباہ کروا لیے، لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اپنی ناکامی اور پسپائی کا بدلہ ہندوستانی فوج نے ڈوگرائی ہڈیارہ کے علاقے میں دیہاتیوں کا قتلِ عام کرکے لیا۔ بھاگتے بھاگتے انھوں نے پانی کے کنوؤں میں زہر ڈال دیا تھا۔ بریگیڈیئر اصغر نے دو بٹالین فوج کے ساتھ دشمن کے پورے ڈویژن کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔ میجر شفقت بلوچ نے ہڈیارہ نالے پر دشمن کو روکے رکھا اور کرنل نواز کا توپ خانہ دشمن پر آگ برسانے لگا۔ ہمارے او۔ پی نے دشمن کے عین درمیان داخل ہوکر اسلحہ سے بھرے ٹرکوں کو نشانہ بنایا۔ یہ اسلحہ سے لدے ٹرک ہڈیارہ نالے کے پل پر سے گزر رہے تھے کہ ہمارے سپاہیوں نے ان کو نشانہ پر لے لیا۔ دشمن پر قیامت ٹوٹ پڑی، جس سے پل بند ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی بچ جانے والے پلوں کی حفاظت کے لیے فرنٹیئر فورس کی آر آر جیپیں اور مشین گنیں پوزیشن میں چلی گئیں اور میجر شفقت بلوچ کو نہر پار کرکے آنے کا حکم مل گیا۔ دشمن کے سامنے ہڈیارہ سے برکی تک کا سارا علاقہ تھا۔ لیکن جہاں کہیں بھی دشمن نے سر اٹھانے کی کوشش کی، اُس کا سر کچل دیا گیا۔
10 ستمبر کو برکی سیکٹر پر دشمن کا حملہ اب تک کے حملوں میں سب سے بڑا تھا۔ دشمن کے ٹینک اور انفنٹری برکی کے اندر گھس آئی تھی۔ توپ خانے کے صوبیدار شیر دل اور میجر عزیز بھٹی نے ایک مقام پر دفاعی اور آبزرویشن چوکی قائم کرکے مؤثر گولہ باری جاری رکھی، جس سے دشمن کی ٹینک رجمنٹ کا کمانڈنگ افسر بھی مارا گیا اور برکی سیکٹر کی گلیاں اور راستے دشمن کی لاشوں سے اٹ گئے۔ بے شمار جلتے ہوئے ٹینکوں اور ٹرکوں نے بچے کھچے زخمیوں کو بھی بھسم کرڈالا۔ اسی محاذ پر میجر راجا عزیز بھٹی دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کرنے میں کامیاب رہے، اور پھر اُس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔ انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاعی پوزیشن کے لیے منظم کیا۔ یہاں تک کہ 12 ستمبر کا دن شروع ہوگیا، دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں، ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا کر اس نہر کو پار کرنا چاہتا تھا، مگر راجا عزیز بھٹی دشمن کے راستے میں آہنی دیوار بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے نہ صرف دشمن کے شدید دبائو کا سامنا کیا بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان کے بدن پر لگا اور شہادت ان کا مقدر ٹھیری۔
ہندوستانی سورما اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ 72 گھنٹے کے اندر پاکستانی دفاع کو مکمل طور پر مفلوج کرکے رکھ دیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ سیالکوٹ محاذ اڑتالیس گھنٹے بعد کھولا گیا۔ دشمن کا منصوبہ تھا کہ سیالکوٹ کا دفاع کچل کر گوجرانوالہ اور وزیر آباد کے درمیان جی ٹی روڈ کو کاٹ دیا جائے اور چناب تک کے علاقے پر قابض ہوا جائے۔
جنرل چودھری کی خام خیالی تھی کہ دو دن میں لاہور فرنٹ پر وہ پاکستانی فوج کی مدافعت مکمل ختم کردے گا، اور کسی وجہ سے ایسا نہ بھی ہوا تو سیالکوٹ کا محاذ کھول کر ایک اور حملہ کیا جائے اور لاہور کے عقب سے حملہ کرکے لاہور کو قبضے میں لے لیا جائے۔
ہمارے دفاعی مبصروں کے خیال میں جنرل چودھری نے سیالکوٹ پر تاخیر سے حملہ اس لیے کیا تھا کہ اپنی دانست میں وہ اس دوران پاکستانی ٹینک اسکواڈرنوں کو لاہور، بیدیاں اور قصور کے دفاع پر بکھیر چکا ہوگا اور اس کے ’’آہنی ہاتھیوں‘‘ کے مقابلے میں پاکستان کی ایک آدھ ٹینک رجمنٹ کیا کرسکے گی؟ اس نے دوسری چال یہ چلی کہ جنگ کے میدان کو پھیلاتا چلا گیا اور سیالکوٹ کے شمال سے’جسٹر‘ تک لڑائی کو پھیلا دیا۔ یہ سارا میدانی علاقہ یوں بھی ٹینکوں کی جنگ کے لیے بڑا موزوں تھا۔ (جاری ہے)

حصہ