یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا کا مشاعرہ

541

ڈاکٹر نثار احمد نثار
یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) ایک ادبی ادارہ ہے جس کی ڈائریکٹر سلمیٰ خانم ہیں جنہوں نے ’’نئی نسل شعرا کے نام ایک شام‘‘ کا پروگرام ترتیب دیا جس کی صدارت ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کی۔ ڈاکٹر عالیہ امام اور انور شعور مہمانان خصوصی جب کہ رونق حیات مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اور نیل احمد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں سبیلہ انعام‘ محمد سالار‘ آفتاب نواب‘ سعید خان‘ محمد حمزہ‘ عابد قریشی‘ یاسر احمد شنواری‘ دل نواز دل‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ شیخ ہمایوں‘ محمد حسین آزاد‘ فرح حجاز‘ نیل احمد‘ مونا نجمی‘ مرزا منیب بیگ‘ ماہ رخ علی‘ مبارک علی‘ عطا الرحمن‘ نجیع الدین جاثم‘ شبیر احرام‘ شاہینہ اقبال‘ عارف اشتیاق‘ عبدالرحمن مومن‘ اسامہ امیر‘ نعیم سمیر‘ عارف نظیر‘ ارسلان سعود‘ شہر یار خان‘ شاہ زیب اور دیگر نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم(کینیڈا) کراچی چیپٹر کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر سلمیٰ خانم نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ہماری ادبی تنظیم اپنے ایگزیکٹوڈائریکٹر تسلیم الٰہی زلفی کی زیر نگرانی شہر قائد میں علم و ادب کی ترقی و ترویج میں مصرو ف ہے‘ آج کے مشاعرے کا مقصد نئی نسل شعرا کی شاعری سننا اور انہیں قابل قدر شعرا کی رہنمائی فراہم کرنا ہے جو قومیں اپنے مستقبل کے معماروں کی تربیت نہیں کرتیں ان کا مقدر تباہی و بربادی ہوتا ہے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے اربابِ سخن ایک اہم ادارہ ہے ہمارے نزدیک یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ آج ہمارے درمیان نئی نسل کے بہت سے شاعر موجود ہیں تاہم اگلے مشاعرے میں کچھ نئے شعرا کو شرکت کی دعوت دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادب کے فروغ سے معاشرے میں رواداری‘ محبت و اخوت کی فضا پروان چڑھتی ہے ہم اس مقصد کے لیے اپنے ادارے کے تحت کے ایم سی آفیسرز کلب میں باقاعدگی سے ادبی تقریبات منعقد کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا آپ لوگوں کا فرض ہے کہ ہمارے پروگراموں میں تشریف لائیں۔ صاحب صدر نے کہا کہ ادب کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ انسان اور انسانیت کی فضیلت بیان کرے ہم سب کے بارے میں جانتے ہیں لیکن اپنے بارے میں نہیں جانتے۔ اچھا شاعر بننے کے لیے آپ کو پہلے اپنے آپ کو دریافت کرنا ہوگا‘ ہمیں اپنی توانائی تلاش کرنی ہے‘ اپنی ذات پر اعتماد پیدا کرنا ہے۔ اساتذہ کرام کے کلام کا مطالعہ کرنے سے آپ کے ذہن میں نئی نئی راہیں پیدا ہوتی ہیں اس عمل سے شاعری میں ندرت اور خوب صورتی آتی ہے اس طرح آپ بھی عظیم شعرا کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ شعر کہنے کے بعد ضروری ہے کہ آپ خود ہی اس پر نظر ثانی کریں انہوں نے یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) کی اس منفرد کوشش کو خراج تحسین پیش کیا کہ جس میں اس عہد کے کچھ نوجوان شعرا کا کلام سننے کو ملا۔ انہوں نے نیل احمد اور ڈاکٹر نزہت عباسی کی نظامت کی تعریف کی ان دونوں نے مشاعرے کو عمدگی سے چلایا اور کہیں بھی مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے ادبی و ثقافتی تسلسل کی توسیع کر رہے ہیں۔ انہوں نے نوجوان شعرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بزرگ‘ سینئر شاعر آپ کے کلام میں کچھ نشان دہی کرتے ہیں تو آپ اس پر غور کریں ممکن ہے اس طرح آپ کا کلام بہتر ہو جائے۔ تقریب کی مہمان خصوصی ڈاکٹر عالیہ امام نے کہا کہ نئی نسل شعرا کا کلام جو ہم نے آج سنا ہے وہ بہت امید افزا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان صحیح سمت کا تعین کریں‘ ادبی محفلوں کا انعقاد بہت اچھی روایت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اردو زبان کو وہ مقام بھی دلوانا ہوگا جس کی وہ مستحق ہے۔ اردو کو سرکاری سطح پر رائج کیا جائے۔ انہوں نے معاشرے کے ذی شعور اور روشن خیال شخصیات کو دعوت دی کہ وہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھرپور حصہ لیں۔ مشاعرے کے دوسرے مہمان خصوصی انور شعور نے کہا کہ شاعری ایک فن ہے اس کو قابل قدر اساتذہ سے نہ سیکھا جائے تو ذہانت کے ضائع ہونے کا احتمال ہوتا ہے ادب کے منظر نامے میں کم شعریت والا شعر تو محفوظ ہو جاتا ہے لیکن بے وزن اشعار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم شاعری کے تمام امور پر دسترس حاصل کریں۔ انہوںنے مشاعرے میں موجود نوجوان نسل کو مشورہ دیا کہ اپنے کلام کو معیاری بنانے کی جدوجہد میں لگے رہیں کیونکہ شاعری ایک فل ٹائم جاب ہے ذرا سی تساہل سے کام بگڑ جاتا ہے۔ مشاعرے کے واحد مبصر رونق حیات نے کہا کہ وہ علم و ادب کی ترویج و اشاعت میں کراچی یونیورسٹی گریجویٹس فورم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ نئی نسل کے شعرا اپنی تربیت میں دلچسپی رکھتے ہیں ورنہ تو دنیائے ادب میں ہر شاعر و شاعرہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتا ہے جب سے استادی اور شاگردی کا ادارہ ختم ہوا ہے تب سے اردو ادب میں بہت سی خرابیاں در آئی ہیں اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ نوجوان شعرا فنِ شاعری (علم العروض) سے دور ہو گئے ہیں نوجوان شعرا کو مطالعے اور مشاہدے کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ صحتِ لفظی کا خیال رکھنا ضروری ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج کی نشست کو تربیتی نشست قرار نہیں دیا جاسکتا البتہ یہ ایک اچھا مشاعرہ ہے جس میں کچھ نوجوان شعرا شامل ہیں اس طرح کی محفلوں سے نوجوان شعرا کی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ اس موقع پر یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چپیٹر) کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر سلمیٰ خانم نے مہمانوں کو پھولوں کے تحائف پیش کیے۔ مشاعرے کے اختتام پر شاندار عشائیہ پیش کیا گیا۔

شاہ فیصل کالونی میں مشاعرہ

۔12 مئی 2018ء کو شعیب ناصر‘ شرف الزماں اور اقبال خاور نے ترقی پسند شاعر خالد حمیدی اور مزدور رہنما اظہر عباس کی یاد میں وہائٹ روز سیکنڈری اسکول شاہ فیصل کالونی میں مشاعرے کا اہتمام کیا دعوت نامے پر مشاعرے کا وقت 8 بجے شب تھا لیکن آج کل ٹریفک کے مسائل کے سبب بروقت پہنچنا بہت مشکل ہوگیا ہے لہٰذا ساڑھے دس بجے عشائیہ اور 11 بجے مشاعرہ ہوا۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت عبداللہ شاد نے حاصل کی اور شعیب ناصر نے نظامتی فریضہ انجام دیا۔ اس موقع پر جبران عباس نے کہا کہ وہ مشاعرہ انتظامیہ کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے ان کے والد اظہر عباس کی یاد میں یہ پروگرام ترتیب دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے والد نے مزدوروں کے لیے آواز بلند کی جس کی پاداش میں ان کا جینا حرام کر دیا گیا لیکن انہوں نے حق و صداقت کا علم بلند کیے رکھا وہ نہ تو کسی کے سامنے جھکے اور نہ بکے۔ انہوں نے محنت کشوں کو متحد کیا تاکہ ان کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوسکے اب وہ اس دنیا میں نہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے شعیب ناصر نے کہا کہ خالد حمیدی ترقی پسند شاعر تھے‘ وہ زمینی حقائق تسلیم کرتے تھے وہ چاہتے تھے کہ ہم اپنے روّیوں میں تبدیلی لائیں۔ وڈیرہ شاہی سے نجات حاصل کریں پاکستان کو جدید خطوط پر چلائیں‘ ظلم و تشدد کی سیاست سے خود کو بچائیں۔ انہوں نے معاشرتی کرب اور معاشرتی ناہمواریوں کو شاعری کا حصہ بنایا وہ مستقبل پر گہری نظر رکھتے تھے‘ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم نے جدید علوم حاصل نہیں کیے تو ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ خالد حیدی اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں وہ اپنی شاعری کے سبب ادبی حلقوں میں یاد کیے جاتے ہیں۔ اقبال خاور نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ شعر و ادب سے معاشرتی بگاڑ میں کمی آتی ہے اربابِ سخن اپنے معاشرے کے سفیر ہوتے ہیں‘ وہ عوام الناس کو بتاتے ہیں کہ کیا غلط ہے‘ کیا صحیح ہے۔ شاعری روح کی غذا ہے۔ ہر زمانے اور ہر معاشرے میں شعرائے کرام موجود ہوتے ہیں جو معاشرہ شعر و ادب سے دور ہو جاتا ہے وہاں تہذیبی قدریں مٹ جاتی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہر سال شاہ فیصل کالونی میں سالانہ مشاعرہ منعقد کرتے ہیں جس میں اس شہر کی اہم شخصیات شرکت کرتی ہیں آج بھی ہمارے درمیان زندگی کے مختلف شعبوں کے اہم لوگ تشریف فرما ہیں ہمیں امید ہے کہ ہم آپ کے تعاون سے شعر و سخن کی محفلیں سجاتے رہیں گے۔ شرف الزماں نے کلمات تشکر ادا کیے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے میں ادبی تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں مشاعرہ ان کی ہم نصابی سرگرمیوں میں شامل ہے وہ اردو کی ترقی کے لیے ہر وقت ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے کہا کہ مشاعرہ ہماری روایات کا حصہ ہے یہ ادارہ تہذیب و تمدن کو فروغ دینے میں اہم کردار کا حامل ہے آج کی محفل میں بہت اچھا کلام پیش کیا گیا اور یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ یہاں سامعین کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ابھی علم دوست شخصیات زندہ ہیں۔ صدر مشاعرہ پروفیسر منظر ایوبی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز شاہ فیصل کالونی سے کیا تھا‘ وہ اس کالونی کے بنیادی آباد کاروں میں شامل ہیں اس علاقے میںشعر و ادب کی کئی قدر آور شخصیات رہائش پزیر تھیں یہاں روزانہ مشاعرے ہوتے تھے‘ تنقیدی نشستیں ہوتی تھیں یہاں کے باشندوں میں شعری شعور موجود ہے جس کی وجہ سے آج بھی ادبی محفلیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس علاقے کے مزدور رہنمائوں میں اظہر عباس ایک اہم لیڈر تھے جنہوں نے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کام کیا اس موقع پر صاحب صدر نے خالد حیدی اور اظہر عباس کو منظوم خراج تحسین پیش کیا اور اس کے بعد اپنی غزلیں سنا کر خوب داد وصول کی۔ اس مشاعرے میں ڈاکٹر اکرام شوق‘ اقبال خاور‘ محمد ناصر نذیر طاہر‘ سلیم فوز‘ ڈاکٹر نثار‘ سحر تاب رومانی‘ رمژی عاصم خان شاہ نواز‘ اسد قریشی‘ شعیب ناصر‘ مدثر احمد اور کامران طالش نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس مشاعرے کے تمام انتظامات قابل تعریف تھے۔

ادکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ و مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کی زیر اہتمام پشتو زبان کے عظیم شاعر اجمل خٹک کی یاد میں مذاکرہ و محفل مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت مسلم شمیم نے کی‘ مہمان خصوصی حمید خٹک‘ کینیڈاسے آئی شاعرہ پروین سلطان صبا‘ سرور شمال‘ شگفتہ شفیق‘ سعودی عرب سے آئے ہوئے باقر عباس فائز تھے۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اجمل خٹک ان اکابرین ادب سے ہیں جو دلوں میں یاد بن کر رہتے ہیں‘ دماغوں میں خیال بن کر رہتے ہیں‘ کتابوں میں زندہ رہتے ہیں۔ پشتو زبان میں غزل کی مقبولیت کا راز اس کی ایمائیت اور اشاریت ہے یعنی شاعر مضمون کی چند کڑیاں حذف کر دیتا ہے اور جب پڑھنے والا یہ کڑیاں جوڑ کر مطلب فہمی کے عمل سے گزرتا ہے تو اسے ایک نفسیاتی سکون اور فاتحانہ مسرت ہوتی ہے۔ آپ کی شاعر میں جہاں بزم کا فائو نوش ہے وہاں رزم کی ہنگامہ آرائی بھی ہے‘ معاشرت کی عکاسی بھی ہے اور چشم دید منظر کشی بھی ہے۔ یہی رنگا رنگی ہے اور یہی تنوع ہے جس نے اجمل خٹک کو غزل کا بابائے پوئٹری بنا دیا ہے۔ پشتو زبان کے معروف دانشور حمید اللہ خٹک نے کہ اکہ بابائے پشتو پوئٹری اجمل خٹک کی زندگی کے کئی پہلو ہیں وہ پشتون زبان کے ایک نامور انقلابی شاعر اور ادیب تھے انہوں نے 13 کتابیں لکھی ہیں جن میں اردو کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’دی غیرت چغہ‘‘ (غیرت کی چیخ) کتاب کی شکل میں 1958ء میں شائع ہوئی بعد میں اس کتاب پر پاکستان اور افغانستان میں پابندی بھی لگائی گئی تھی۔ اجمل خٹک نے صحافت کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا وہ پشتو اور اردو زبانوں کے کئی اخبارات اور رسائل کے مدیر رہے جن میں انجام‘ شہباز‘ عادل‘ رہبر اور بگرام قابل ذکر ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ اجمل ختک پشتو ادب شاعری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز بھی ہے۔ پشتو غزل نے صدیوں پہلے اپنے سفر کے اوّلین موڑ پر یہ روایت توڑ ڈالی تھی آج سے تقریباً چار سو سال قبل کے شاعر شمشیر زن خوش حال خان خٹک کے قلم نے غزل کے میدان میں تلوار زنی کے جوہر دکھائے تھے۔ اجمل خٹک بیسیوں صدی کی پشتو غزل کے سرخیل ہیں آپ کا شعر قدیم و جدید رنگ اور طرز کا ایک حسین امتزاج بھی ہے۔ اجمل خٹک کے یہاں جدت اور روایت ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں‘ غزل کے قدیم روایتی موضوعات پر اپنی تمام تر شعری رعایتوں اور تلازمات کے حسن اور معنویت کے ساتھ ایک نیا رنگ اور آہنگ لیے اجمل کی غزل میں بالکل ایک نئی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ دنیا میں ایسا کوئی ترازو نہیں بنا تا جو اس باضمیر شاعر کو تول سکتا وہ ان خاص میں لوگوں میں تھے جو اس جمہوری اقدار کے لیے جیتے مرتے تھے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ کو کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جس میں بڑا ایوارڈ ادکامی ادبیات پاکستان کی جانب سے کمال فن ایوارڈ ہے۔ مذاکرے کے بعد ہونے والے مشاعرے میں مسلم شمیم‘ محب محبوب سرور شمال‘ حمید خٹک ایڈووکیٹ‘ شگفتہ شفیق‘ گلشن سندھو‘ نصیر سومرو‘ اظہر‘ سجاد میرانی‘ عبدالمجید محور‘ عرفان عالی عابدی‘ رسول بخش چنا‘ الطاف احمد‘ نشاط غوری و دیگر شعرا نے نے اپنا کلام سنا کر اجمل خٹک کو خراج تحسین پیش کیا۔

حصہ