کراچی: رمضان المبارک میں پانی، بجلی ندارد، کرپشن کا سلسلہ جاری

483

محمد انور
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ کراچی کے شہری گذشتہ کئی سالوں کی طرح اس بار بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔ مگر اب بھی ان معصوم شہریوں نے ان ہی حکمرانوں اور سیاستدانوں سے اچھائی کی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں جو جمہوریت کے نام پر گزشتہ دس سال سے مسلسل اقتدار کے مزے لے رہیں ہیں۔ جن لوگوں نے پورے نظام کو اپنی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کی وجہ سے آلودہ کر رکھا ہے۔ ان سیاستدانوں نے ملک کے سب سے بڑے شہر کے ہر شعبے میں لوٹ مار جاری رکھی ہوئی ہے۔ سندھ حکومت کا شائد ہی کوئی ایک محکمہ ایسا ہو جہاں کرپشن نہیں ہورہی ہے۔ وفاقی حکومت بھی کراچی کے منصوبوں میں بڑا ہاتھ مارنے کی کوشش میں لگی ہوتی ہے۔ یہ وفاق کی مسلم لیگ کی حکومت ہی تھی جس نے کراچی کی آمدنی کے سب سے بڑے زرائع آکٹرائے پر شب خوں مارا تھا اور اسے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پانچ ارب روپے سے زائد کی براہ راست آمدنی سے کراچی محروم ہونے لگا۔
آج وفاقی حکومت اپنے دائرے میں رہ کر کراچی کو نقصان پہنچارہی ہے تو سندھ حکومت تعصب کے نتیجے میں کراچی سے اس کا حق چھیننے میں مصروف ہے۔ سندھ حکومت نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو اپنی گرفت میں کیا پھر کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کو اپ گریڈ کرنے کے نام پر سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کردیا۔ یہی نہیں بلکہ کے ایم سی اور ڈی ایم سیز سے اس کے بنیادی امور صفائی ستھرائی اور کچرا اٹھانے کی زمے داریاں چھین کر سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل دے دیا۔ اس ادارے کی کوئی ضرورت نہیں تھی یہ ادارہ صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ حکومت براہ راست یہ امور خود انجام دے سکے اس مقصد کے لیے سندھ کے لوگوں کو ملازمت فراہم کرکے زیادہ ووٹ لینے کے حقدار بن سکے۔لیکن حکومت اپنے وعدے کے مطابق لوگوں کو ملازمتیں بھی فراہم نہیں کرسکی۔ اس حوالے سے سندھ اسمبلی کی رکن نصرت سحر عباسی کا کہنا ہے کہ وزیر اعلٰی نے 50 ہزار مازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا مگر صرف 15 ہزار افراد کو روگار فراہم کیا گیا۔اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نصرت سحر نے الزام لگایا کہ صوبائی حکومت نے گرلز ایجوکیشن کے منصوبوں کے نام پر 34 ارب روپے کی بے چوری اور خوردبرد کی۔تحریک انصاف کی رکن اسمبلی ڈاکٹر سیما ضیاء￿ نے اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں صوبائی حکومت کے مختلف محکموں میں جاری کرپشن کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی پراسائش سہولتوں سے آراستہ ہے مگر سندھ کے لوگ ہر سہولت سے محروم ہیں۔ یہاں ملین روپے کی کرپشن ہورہی ہے محکمہ پولیس کرپٹ ترین ادارہ بن چکا ہے 1200 سو پولیس اہکار کرپشن کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ ڈاکٹر سیما کا کہنا تھا کہ حکومت ایک سنگل پائی بھی ماس ٹرانزٹ پروگرام پر خرچ نہیں کی۔ جبکہ سندھ میں 6 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
سندھ کے منتخب نمائندوں کی اسمبلی کی طرف دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے یہاں صرف اپوزیشن میں موجود خواتین ارکان کو عام لوگوں کی فکر مرد اور سرکاری نشستوں پر براجمان اراکین کو کسی بات کی فکر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے ادارے کرپشن کی لپیٹ میں ہیں۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں بے قاعدگیاں اور کرپشن
اس ادارے کو کرپٹ مافیا نے اپنے پنچوں میں دبایا ہوا ہے۔ پانی کا بحران ہو یا پانی کی فلٹریشن کا معاملہ یا پھر سیوریج کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی پروجیکٹ بغیر کمیشن کے کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ مختلف کاموں کے لیے مجموعی طور پر 64 فیصد کمیشن ٹھیکیداروں سے کے لیا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ ادارے کے موجودہ ایم ڈی نے تھیکیداروں کو چیئرمین سمیت کسی کو بھی کمیشن ادا کرنے سے روک دیا ہے۔ وہ خود بھی کمیشن لینا پسند نہیں کرتے۔مگر انہوں نے واٹر بورڈ کے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا شروع کردیے ہیں۔ ایم ڈی شہریوں کو پانی لائنوں کے ذریعے ان کے گھروں تک پہنچانے کے لیے بھی سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ اسی لیے وہ حب ڈیم کے نچلے حصے کا پانی حاصل کرنے کے واسطے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے حکم جاری کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ 5 ارب روپے کی لاگت کے اس منصوبے کو ڈیم کے قرب و جوار میں بارشیں ہونے کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ مگر اب ڈیم میں پانی کم ہونے کی وجہ سے منصوبے پر دوبارہ عمل کیا جارہا ہے۔ حالانکہ واٹر بورڈ کے لیبارٹری انچارج ڈاکٹر ڈیم کے نچلے حصے میں موجود پانی کو انسانی صحت کے لیے مضر قرار دے چکے ہیں جبکہ واٹر بورڈ کے سینئر انجینئرز نے اس منصوبے کو ناقص قرار دیکر اس کی مخالفت کردی ہے۔
واٹر بورڈ بھی براہ راست صوبائی حکومت کی نگرانی میں کام کرتا ہے اس لیے یہاں بے قاعدگیاں اور بدعنوانیاں عروج پر ہیں۔
سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے )
یہ وہ ادارہ جس کی وجہ سے کراچی کا نقشہ ہی بدل گیا جب تک یہ ادارہ کے ایم سی اور کے ڈی اے کا حصہ بنا رہا کراچی اپنے نقشے کے مطابق یعنی ماسٹر پلان کے مطابق رہا۔ مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے گرفت میں کرکے پورے ادارے کا نقشہ ہی بدل دیا جس کے بعد کراچی بھی کراچی نہیں رہا۔
سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کیوں بنایا گیا؟۔
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اسے قائم کرنے کے مثبت مقاصد ہوتے تو آج کراچی صاف ستھرا ہوجاتا۔ 2015 میں قائم کیا جانے والا یہ ادارہ 3 سال بعد بھی مکمل فعال نہ ہوسکا۔ آج تک سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے اسپتالوں سے نکلنے والا فضلہ کا اندازہ تک نہیں لگا سکا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس ادارے کی کارکردگی پر تحفظات ظاہر کرچکی ہے۔

حصہ