ڈبلن ٹیسٹ: آئرلینڈ کے خلاف پاکستان کی جیت

416

راشد عزیز

جیت تو جیت ہوتی ہے چاہے وہ کسی کمزور ہی کے خلاف کیوں نہ ہو، اور چاہے اس جیت کی وجوہات اور اسباب کچھ بھی ہوں۔ سرفراز احمد اور ان کے ساتھی آئرلینڈ کے خلاف اوّلین اور تاریخی ٹیسٹ میں 5 وکٹوں سے کامیابی پر یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ان کی تعریف اور توصیف اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے وہ یہ میچ ہار جاتے تو ان کی مذمت اور ملامت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جاتی، اور خاص طور پر کپتان کے کچھ اہم فیصلے جو جیت کی وجہ سے تنقید سے نظرانداز ہوگئے، عذاب بن گئے ہوتے۔ ساری کہانی میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے جس لڑکے نے ہیرو کا کردار ادا کیا یہ وہی نوجوان تھا جس کی سلیکشن پر سب سے زیادہ لے دے ہوئی تھی۔ اوّلین ٹیسٹ کھیلنے والے اوپنر امام الحق نے دوسری اننگز میں ناقابلِ شکست 74 رنز بناکر نہ صرف اپنی ٹیم کو فتح سے ہم کنار کرایا بلکہ اپنے چچا اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کی لاج بھی رکھ لی۔
ڈبلن ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کی فتح پر خوشی منانے اور کھلاڑیوں کو مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ اس میچ کا ایک تنقیدی جائزہ بھی لینا اس لیے ضروری ہے کہ برطانیہ کا دورہ کرنے والی اس ٹیم کا اصل امتحان انگلینڈ کی ٹیم کے خلاف آئندہ کھیلے جانے والے دو ٹیسٹ میچوں میں ہوگا۔ اصل اہمیت انہی میچوں کی ہے، ڈبلن کا ٹیسٹ تو ایک طرح سے پریکٹس میچ تھا جیسا کہ دیگر کائونٹیز کے خلاف سائیڈ میچ کھیلے جاتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان، کوچ اور دیگر ذمے داروں کو فتح کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے انگلینڈ کے خلاف حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔ سرفراز احمد کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم نے پہلا ٹیسٹ جیتا ہے، لیکن کیا انگلینڈ کے خلاف بھی یہ کھلاڑی اپنے قدموں پر کھڑے رہیں گے؟ یہ اہم سوال ہے۔
آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دورے کے لیے پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کا اعلان ہوا تو ہمیشہ کی طرح سلیکشن پر تنقید ہوئی، زیادہ تنقید فواد عالم کو ڈراپ کرنے اور امام الحق کے انتخاب پر ہوئی۔ فواد کو ٹیم میں شامل نہ کیے جانے پر تنقید اصولی طور پر درست تھی۔ منتخب ٹیم میں اکثریت نوجوان اور ناتجربہ کار کھلاڑیوں کی تھی، اور انہیں پانچ روزہ میچ کھیلنے کا تجربہ نہیں تھا، ایسے میں اگر فواد عالم جیسے تجربہ کار کھلاڑی کو منتخب کرلیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ جہاں تک امام الحق کا تعلق ہے تو اگرچہ اس نے ڈبلن ٹیسٹ میں اپنی بہترین کارکردگی سے ناقدین کے منہ بند کردیے ہیں لیکن اس کی سلیکشن پر ہونے والی تنقید بظاہر درست تھی۔ برطانیہ پہنچنے والی اس ٹیم میں کپتان سرفراز، اسد شفیق، اظہر علی اور محمد عامر کے سوا زیادہ تر لڑکے نئے ہیں اور یہ ٹیم انگلستان کا دورہ کرنے والی سابقہ تمام ٹیموں کے مقابلے میں کم تجربہ رکھنے والے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، لیکن سلیکٹرز کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ دستیاب کھلاڑیوں میں ٹیسٹ کرکٹ کے لیے جن کھلاڑیوں کو موزوں ترین سمجھا گیا وہ یہی کھلاڑی تھے۔
ڈبلن کے گرائونڈ میں پاکستان کے یہ نوجوان اترے تو ان کے لیے وہاں کا موسم، وکٹیں، گرائونڈ سب کچھ بالکل نیا تھا۔ ویسے بھی ایشیائی ممالک کے کرکٹرز کے لیے برطانیہ کی کنڈیشنز ہمیشہ دشوار کن رہی ہیں، اس پر دو روز سے ہونے والی بارش نے حالات مشکل ترین کردیے تھے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی کھلاڑی سخت نفسیاتی دبائو میں گرائونڈ میں اترے، لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ ہوم گرائونڈ ہونے کے باوجود آئرش کھلاڑی زیادہ پریشر میں ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ یہ ان کا پہلا ٹیسٹ تھا، لیکن ان کے عوام ان سے یقینا یہ توقع لگا کر بیٹھے ہوں گے کہ ان کی ٹیم جو ورلڈ کپ کے ایک میچ میں پاکستان کو شکست سے دوچار کرچکی ہے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں فتح سے ہم کنار ہو۔ لیکن کرکٹ تو کھیل ہی ’’بائی چانس‘‘ ہے، اور ایسا ہی ہوا۔ ساری دنیا توقع لگائے بیٹھی تھی کہ بارش زدہ اس وکٹ پر محمد عامر آئرلینڈ کو تباہی سے دوچار کرے گا۔ وہ تو کچھ نہ کرسکا البتہ محمد عباس نے غیر متوقع طور پر صرف 44 رنز دے کر 4 کھلاڑی آئوٹ کردیے اور میزبان کھلاڑی محض 130 رنز کے اسکور پر ڈھیر ہوگئے۔
آئرش کپتان پورٹر فیلڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرانے کا درست فیصلہ کیا تھا، لیکن جب قسمت ہی ساتھ نہ دے رہی ہو تو پھر سب غلط ہوجاتا ہے، اور بارش سے متاثرہ وکٹ پر جب گیند بہت سوئنگ کررہی تھی، آئرش بولرز بری طرح ناکام رہے۔ اگرچہ محض 13 رنز کے اسکور پر پاکستان کے دونوں اوپنرز اظہر علی اور امام الحق آئوٹ ہوگئے تھے، پاکستان نے 9 وکٹوں کے نقصان پر 310 رنز بناکر اننگز ڈیکلیئر کی۔
13 رنز پر اوپنرز کو کھونے کے بعد پاکستانی ٹیم سخت مشکل میں آگئی تھی، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ تجربے کا کوئی بدل نہیں اسد شفیق اس موقع پر کام آیا اور 62 قیمتی رنز بناکر ٹیم کو مشکل سے نکال کر لے گیا۔ بعد میں فہیم اشرف نے 83 اور شاداب خان نے 55 رنز بناکر اپنی ٹیم کی پوزیشن مستحکم کی۔ حریف ٹیم پر 180 رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد سرفراز احمد نے آئرلینڈ کو فالو آن کرانے کا جو فیصلہ کیا اسے جرأت مندانہ بھی کہا جاسکتا ہے اور غیر محتاط بھی۔ چونکہ پاکستانی ٹیم جیت گئی لہٰذا یہ فیصلہ درست ہوگیا، لیکن یہ فیصلہ الٹا بھی پڑ سکتا تھا۔ یوں بھی فی زمانہ فالوآن کرانے کا رواج نہیں رہا ہے۔ اگر قسمت سرفراز کا ساتھ نہ دیتی تو جس طرح میزبان ٹیم نے 339 رنز بنا لیے تھے اگر اس میں کچھ رنز کا اضافہ اور ہوجاتا تو پھر کھیل الٹ بھی سکتا تھا، اور کیا ضروری تھا کہ محمد عباس ایک بار پھر غیر معمولی بولنگ کرکے 5 وکٹیں لیتا، اور جہاں دوسری اننگز میں 160 رنز کے اسکور پر 5 کھلاڑی آئوٹ ہوگئے امام الحق پہلی اننگز کی طرح پھر ناکام ہوجاتا، اور 74 رنز نہ بناتا تو پھرکیا ہوتا! بہرحال پاکستان نے یہ ٹیسٹ جیت لیا۔ انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں جانے سے پہلے ذمے داران کو یہ احساس کرلینا چاہیے کہ پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی قابلِ ستائش نہیں تھی، خاص طور پر بیٹنگ اور فیلڈنگ میں خامیاں محسوس کی گئی ہیں، اور سچی بات یہ ہے کہ اس فتح میں ہماری خوبیوں سے زیادہ حریف ٹیم کی خامیوں کا دخل تھا۔
ڈبلن کے تاریخی ٹیسٹ میں آئرلینڈ کی جانب سے دو منفرد ریکارڈ بھی بنے، بیٹسمین ایڈجوائس نے 39 سال اور 231 دن کی عمر میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ رواں صدی میں ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز کرنے والا معمر ترین کرکٹر ہوگیا۔ اس سے قبل زیادہ سے زیادہ عمر میں ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کرنے والا کرکٹر جنوبی افریقہ کا عمر ہنری تھا جس نے 1992ء میں 40 سال اور 295 دن کی عمر میں ٹیسٹ کرکٹ میں ڈیبیو کیا تھا۔ ایڈ جوائس آئرلینڈ میں کرکٹ پر پابندی کے سبب 2001ء تک انگلستان میں کرکٹ کھیلتا رہا، تاہم وہ 2001ء کے بعد انگلش کرکٹ چھوڑ کر آئرلینڈ آگیا تھا اور اسے بالآخر ٹیسٹ کیپ مل گئی۔ ڈبلن ٹیسٹ میں دوسرا ریکارڈ فاسٹ بولر بوائنڈ رینکن نے قائم کیا۔ وہ 2013-14ء کی ایشز سیریز میں آسٹریلیا کے خلاف انگلینڈ کی جانب سے کھیل چکا ہے۔ اس طرح ٹیسٹ کرکٹ میں دو ممالک کی نمائندگی کرنے والا وہ دوسرا کرکٹر ہوگیا۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ کے کیپلر ویسلز نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی جانب سے کھیل کر یہ منفرد اعزاز حاصل کیا تھا۔
جمعہ 11 مئی کا دن آئرلینڈ کے عوام کے لیے یادگار ترین دن بن گیا جب 250 برس کے طویل ترین انتظار کے بعد آئرلینڈ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والا 11 واں ملک بن گیا۔ اس سے قبل 2000ء میں بنگلہ دیش کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے دسویں ملک کا درجہ ملا تھا، لیکن بنگلہ دیش کو اپنے قیام کے بعد اس اعزاز کے حصول کے لیے صرف 29 برس انتظار کرنا پڑا تھا۔ لہٰذا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آئرلینڈ کے عوام کو ان کے خواب کی تعبیر کتنی نسلوں کے گزرنے کے بعد ملی۔ آئرلینڈ کی ٹیم نے اپنے ہی ہم وطنوں انگریزوں کی ٹیم کے خلاف پہلا میچ 1855ء میں ڈبلن ہی میں کھیلا تھا جہاں اس نے پاکستان کے خلاف پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ پھر 1923ء میں آئرش کرکٹ یونین کا قیام عمل میں آیا، لیکن پھر سیاسی معاملات نے کام خراب کیا اور آئرش ایتھلیٹک ایسوسی ایشن نے کرکٹ سمیت ملک کے تمام کھیلوں پر سختی سے یہ پابندی عائد کردی کہ ملک کے کسی بھی کھیل میں کوئی غیر ملکی کھلاڑی حصہ نہیں لے سکتا، اور اس پابندی کا لامحالہ نتیجہ تھا کہ آئرلینڈ تنہا ہوکر رہ گیا۔ 1971ء میں یہ پابندی ختم ہوئی۔ اس دوران کسی نہ کسی سطح پر مقامی کرکٹ جاری رہی اور بہت سے آئرش کرکٹرز انگلینڈ کی کائونٹی اور لیگ کرکٹ میں حصہ لیتے رہے۔ 1993ء میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے آئرلینڈ کو ایسوسی ایٹ رکن کا درجہ دیا۔ آئندہ برس ہونے والی آئی سی سی ٹرافی میں آئرلینڈ کی ٹیم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 20 ممالک کے اس مقابلے میں ساتویں پوزیشن حاصل کی، اور پھر 1996ء، 1999ء،2003 ء اور 2007ء کے عالمی کپ کے لیے بھی کوالیفائی اور مسلسل بہترین کارکردگی کی بنیاد پر آخرکار 2017ء میں اسے ٹیسٹ ٹیم کا درجہ دے دیا گیا۔

حصہ