چلو چلو سندھ چلو

476

زاہد عباس
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف محترم سید خورشید شاہ صاحب نے فرمایا ’’شرم کرو حیاکرو،کچھ تو کرو، اگر کسی کو ترقی دیکھنی ہے تو چلو میرے ساتھ سندھ، چل کر دیکھو کہ غریبوں کو کیسے تعلیم اور صحت دی جاتی ہے، کیسے لاکھوں کی سرجری مفت ہوتی ہے۔‘‘
ہاہاہاہاہا،
’’بھائی کیا ہوا! یہ کوئی مذاق کی بات تھوڑی ہے۔ شاہ صاحب جب بھی موڈ میں ہوتے ہیں اسی طرح کچھ نہ کچھ کہہ دیتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اُن کا یہ بیان پاکستانیوں کے بجائے غیر ملکیوں کے لیے تھا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ سندھ آنے کی دعوت بنانا اسٹیٹ کو دی جائے! دعویٰ تو وہی ہوتا ہے جسے سچ کرکے دکھایا جائے، اب اگر بنانا اسٹیٹ سے کوئی نہ آئے تو اس میں ہمارا کیا قصور!
ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کے لوگ تو خوامخواہ سیاسی مخالفت میں کہتے پھرتے ہیں کہ کل تک واپڈا میں چھوٹی سی پوسٹ پر کام کرنے والا آج بڑا لیڈر اور اربوں روپے کی جائداد کا مالک ہے، اور سنیما گھروں پر بیٹھنے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ یہ ان کا سیاسی حسد تو ہوسکتا ہے، ورنہ ایسی بات کہاں! شاہ صاحب کی نگاہ سے دیکھیے، شاید وہ اس ترقی کی ہی بات کررہے ہوں، یا پھر اُن لانچوں کی ترقی کا ذکر کررہے ہوں جن میں بیٹھ کر جال پھینکنے سے مچھلیوں کے بجائے کیش کی صورت اربوں روپے ملتے ہیں، کیا خبر شاہ صاحب تھر کے پیاسے عوام کے سروں پر مٹکوں کی جگہ ان کے ہاتھوں میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں دیکھ کر اسے ترقی کہہ رہے ہوں۔ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ حکومتِ سندھ نے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ کرڈالا۔ الزام لگانے والے اتنا بھی نہیں جانتے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت عوامی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے، اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگ ساری زندگی سرکاری بسوں میں ہی سفر کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بڑی گاڑی تو درکنار موٹر سائیکل تک خریدنے کی جستجو نہیں کرتے۔ یہ حکومتِ سندھ کا ہی کمال ہے جس نے سرکاری بسیں بند کرکے عوام کو ذاتی سواری کا مالک بنادیا۔ دیکھتے نہیں کراچی کی سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں دوڑتی موٹر سائیکلیں سندھ حکومت کے اس معاشی ترقی کے پروگرام کا منہ بولتا ثبوت ہیں جس کی جھلک شاہ صاحب کے بیان میں نظر آتی ہے۔
جو بھی ہے، ہمیں یہاں کسی پر تنقید کرنے کی کیا ضرورت! شاہ صاحب کی جانب سے دیے جانے والے بیان کی حقیقت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ عقل استعمال کرکے بلا تبصرہ حکومتِ سندھ کی جانب سے صحت اور تعلیم کے محکموں کو دی جانے والی سہولیات کا اندازہ کرلیتے ہیں۔ آئیے ذرا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر شائع اور نشر ہونے والی سروے رپورٹوں پر نگاہ ڈال لیتے ہیں، شاید رپورٹ پڑھ کر ہی شاہ صاحب کی بات ہماری سمجھ میں آسکے۔
سروے رپورٹ کے مطابق سندھ کے سرکاری ہسپتالوں میں لوگوں کو دی جانے والی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پانچ کروڑ آبادی والے اس صوبے کے ہسپتالوں میں صرف 13 ہزار بستروں کی گنجائش ہے۔ حالت یہ ہے کہ 1300 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر کی خدمات میسر ہیں، جبکہ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق کم از کم دو ڈاکٹر موجود ہونے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سہولتیں 50 فیصد کم حاصل ہیں۔ ڈینٹل سرجنز کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ 16 ہزار مریضوں کے لیے صرف ایک ڈینٹل سرجن کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ پورے صوبے میں ایک ہی برن سینٹر ہے، اور وہاں بھی معیاری سہولتوں کا فقدان ہے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں ہی کی کمی نہیں، بلکہ نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی تعداد بھی ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ طبی سہولتوں کی سب سے زیادہ کمی تھر کے علاقے میں ہے، جہاں ہر سال بڑی تعداد میں بچے سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حکومتِ سندھ خود تو تھر میں طبی سہولتوں کی کمی کا مسئلہ حل نہیں کرپاتی، بلکہ غیر ملکوں اور بعض عالمی رضاکار تنظیموں کی طرف سے جو امدادی سامان (ادویہ اور خوراک) بھیجا جاتا ہے، وہ بھی مریضوں تک برائے نام ہی پہنچتا ہے۔ دوسری طرف سب سے بڑا مسئلہ دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی تعیناتی کا ہے۔ بالفرض اگر دیہی علاقوں میں کسی ڈاکٹر کی تعیناتی ہو بھی جاتی ہے تو وہاں کوئی ڈاکٹر رہائش اور سواری کی سہولت نہ ملنے سے ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتا۔ اسی طرح چھوٹا اسٹاف بھی غائب رہتا ہے۔ عموماً کمپاؤنڈر اور چوکیدار ہی مریضوں کو دستیاب ہوتے ہیں۔ سکھر جیسے شہر میں بھی ہسپتال کی ابتر صورتِ حال پر سندھ کی ترقی پر بیان دینے والے سید خورشید شاہ صاحب کی جانب سے دو مرتبہ برہمی کا اظہار کرنے کے باوجود ہسپتالوں میں سہولتیں بہتر نہ ہوئیں، حتیٰ کہ انہوں نے صفائی کے لیے خود جھاڑو پکڑلی تھی۔
آئیے اب ذرا تعلیمی میدان میں ہونے والی ترقی کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ شرح خواندگی تقریباً 60 فیصد… پرائمری، مڈل، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کی کُل تعداد 46039 ہے جن میں گرلز اسکولوں کی تعداد صرف7058 ہے، طلبہ و طالبات کی کُل تعداد 4044476 جبکہ پڑھانے کے لیے اساتذہ کی تعداد 144170 ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ حکومتِ سندھ اپنے بجٹ کا
25 فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے لیکن اس کے برعکس زمینی حقائق خاصی تشویش ناک صورتِ حال ظاہر کرتے ہیں۔ اگر بنیادی سہولیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کُل 46039 اسکولوں میں سے28760 اسکول بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ 21102 میں بیت الخلا نہیں ہے۔ 23315 اسکولوں میں پینے کا صاف پانی تو درکنار سرے سے پانی ہی میسر نہیں۔ 18907 اسکولوں کی چار دیواری نہیں۔ اسی طرح اگر لیبارٹری، لائبریری اور کھیلوں کے میدانوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ 45725 اسکول لیبارٹری اور 45264 اسکول لائبریری جیسی سہولت سے محروم ہیں، جبکہ 38392 اسکولوں میں کھیل کے میدان نام کی کوئی شے نہیں۔ صوبہ سندھ میں گھوسٹ ملازمین کے علاوہ گھوسٹ اسکولوں کی تعداد دیگر تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔ انتہائی دکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہاں تعلیم جیسے شعبے میں رشوت لے کر ایسے افراد بھی بھرتی کیے گئے جنہیں انگریزی میں اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا، اور پھر پانچ سال سے تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاج کرنے والے اساتذہ کے بارے میں دیے گئے وزیر تعلیم سندھ جام مہتاب ڈہر کے اس جرأت مندانہ بیان کو کون بھلا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھاکہ محکمہ تعلیم سندھ میں ایسے جعلی ملازمین موجود ہیں جو لاکھوں روپے رشوت دے کر بھرتی ہوئے۔ وزیر تعلیم نے اپنے بیان میں اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ 2012ء میں پی پی حکومت میں اسامیاں نہ ہونے کے باوجود 23 ہزار اساتذہ بھرتی کیے گئے۔
ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے مطابق سب سے بری صورتِ حال اندرونِ سندھ کے اسکولوں کی ہے جہاں وڈیروں نے اسکولوں پر قبضہ کرکے انہیں مویشیوں کے باڑے میں تبدیل کردیا ہے اور اسکول اسٹاف بشمول اساتذہ کو اپنا ذاتی ملازم بنا رکھا ہے، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ زبردست بدعنوانی کا شکار ہے، کتابوں کی چھپائی سے لے کر سپلائی تک تمام مراحل کرپشن کا شکار ہیں۔ شہروں میں پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے کی جانے والی من مانیوں اور فیسوں میں ناجائز اضافے کے باعث غریب اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتا۔ آخر میں سندھ میں محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کی ابتر صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومتِ سندھ اور خاص طور پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو ان کے فرائض یاد دلاتے ہوئے بس اتنا ہی کہنے کی جسارت کروں گا کہ صرف بیانات ہی نہیں بلکہ غریب عوام کو سستی اور معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت وصفائی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی برسراقتدار جماعت کی ہی ذمے داری ہوا کرتی ہے۔

حصہ