واہ رے آلو

688

مریم شہزاد
’’ہائے پیٹ میں درد، ہائے کیا کروں، اُف میرا پیٹ ‘‘ فہد درد سے بے حال ہو رہا تھا۔
’’آلو میاں، اور کھاؤ آلو‘‘شزا نے چڑایا۔
’’ہائے، شزا کی بچی، ٹھیک ہونے دو، پھر بتاتا ہوں، ہائے امی‘‘ ۔
کیا کروں امی، وہ بے چینی سے بولا۔
’’ہاں تو ہم غلط کہہ رہے ہیں، مسٹر آلو‘‘ شزا بولی۔
’’امی دیکھیں اس شزا کی بچی کو‘‘ وہ چلایا۔
’’چلو ڈاکٹر کے پاس چلو‘‘ امی تیار ہو کر باہر آئیں ۔
’’ڈاکٹر، ! نہیں نہیں وہ کڑوی دواء دیں گے ‘‘ فہد نے برا سا منہ بنایا۔
’’ٹھیک ہے پھر برداشت کرو ‘‘ امی غصے سے بولیں۔
اچھا، نہیں ،اچھا چلتے ہیں۔
ڈاکٹر نے فہد کا پیٹ دبایا اور پوچھا کیا کھایا تھا؟ کوئی بازار کی چیز تو نہیں کھائی۔
’’ امی کھانے ہی کہاں دیتی ہے بازار کا، آلو کھائے تھے تلے ہوئے ‘‘۔
اور کل؟ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا ۔
’’آلو کے کباب‘‘، فہد نے کہا ۔
ٹھیک، وہ بولے اور دواء لکھنے لگے کہ امی بولیں۔
ڈاکٹر صاحب! ’’پرسوں اور اس سے پہلے کا بھی پوچھیں ‘‘،
ڈاکٹر نے امی کی بات سمجھتے ہوئے فہد کی طرف دیکھا۔
’’ہاں جی، پرسوں کیا کھایا تھا‘‘؟
آلو سالن، اسنے بتایا۔
اور اس سے پہلے؟
یا د نہیں امی ہائے، آپ بتادیں نا، وہ کراہا۔
’’جی جی، میں بتاتی ہوں ۔ اس سے پہلے آلو کا بھرتہ، اس سے پہلے آلو کی بھاجی، اس سے پہلے بلکہ آلو کے چپس تو روزانہ ہی ‘‘ امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہائیں ،! کیا آپ کے ہاں آلو کے سوا کچھ نہیں پکتا‘‘؟ ڈاکٹر حیران ہوئے۔
’’جی نہیں ،ہماری امی تو کبھی شلجم پکاتی ہیں اور کبھی گاجر، کبھی لوکی تو کبھی پالک ،کبھی گوشت کبھی دال‘‘ فہد نے منہ بنایا۔
’’اور آپ صرف آلو کھاتے ہیں ‘‘ ڈاکٹر مسکرائے۔
’’تو پیٹ میں درد تو ہوگا نا ، اور سب کچھ کیوں نہیں کھاتے ‘‘؟
’’ تو آلو بھی تو سبزی ہے‘‘، اس نے احتجاج کیا۔
’’ کوئی بھی چیز کتنی بھی فائدہ مند ہو، اگر روز کھائیں گے تو نقصان دے گی، اب آپ دوائی لیں، اور جب ٹھیک ہو جاؤ تو آلو کے ساتھ اور چیزیں بھی کھانا‘‘ ابھی صرف کھچڑی اور دہی کھانی ہے ’’ ڈاکٹر نے سمجھایا ‘‘ کھچڑی اور دہی، ’’ اس نے منہ بنایا‘‘اور ٹھیک کب ہونگا ۔
دو دن تو لگیں گے ،انہوں نے نسخہ بڑھاتے ہوئے کہا ۔
’’ اچھا، ڈاکٹر صاحب، میں فرنچ فرائز تو روز کھا سکتا ہوں نا‘‘ فہد نے معصومیت سے پوچھا تو ڈاکٹر اور امی گھور کے رہ گئے ۔

ماں

رضوانہ عمران

وہ سینے کی ٹھنڈک وہ آغوش اکثر
بہت یاد آتی ہے
مجھے میری ماں بہت یاد آتی ہے
بچپن میں وہ میرا انکو ستانا
اِدھر سے اْدھر اپنے پیچھے بھگانا
مجھے وہ شرارت بہت یاد آتی ہے
ہاں اب بھی وہ یاد بہت یاد آتی ہے
وہ فرمائشوں کے پلندے وہ ضد کا پکڑنا
ہر ایک رات کو ایک کہانی کا سننا
وہ ستاروں بھری رات یاد آتی ہے
وہ کہانی مجھے آج بھی یاد آتی ہے
وہ تہواروں پر پیارے کپڑے بنانا
اپنے ہاتھوں سے سی کے پہنا کر سجانا
پھر بالوں کی کس کے پونی بنانا
اور پیار سے کچھ میٹھا کھلانا
اْن ہاتھوں کی خوشبو بہت یاد آتی ہے
وہ عید وہ خوشی بہت یاد آتی ہے
مجھے میری ماں بہت یاد آتی ہے

مسکرائیے

٭ ایک افیمی (دوسرے سے) یار آج میری سالگرہ ہے اس لیے نہانا چاہتا ہوں۔
دوسرا کیا تم ہر سالگرہ پر نہاتے ہو؟ ابھی پچھلے سال تو نہائے تھے۔
پہلا ’’بھائی کیا کروں صاف ستھرا رہنے کی عادت جو پڑ گئی ہے۔
٭٭٭
٭ ماں بچے سے تم کتے کی دم کیوں کھینچ رہے ہو۔
بچہ امی جان میں نے صرف دم پکڑ رکھی ہے کھینچ تو وہ خود رہا ہے۔
٭٭٭
٭ ایک عامل کا بڑا چرچہ تھا کہ وہ روحوں سے بات کرا دیتے بھی ایک بچہ جو بہت ذہین تھا عامل بابا کے پاس پہنچا ان کو نذرانہ پیش کرنے کے بعد کہا میں اپنے دادا کی روح سے بات کرنا چاہتا ہوں اسے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں اندھیرا تھا اگر بتیاں جل رہی تھیں۔ اچانک ایک بھاری سے آواز آئی کیا بات ہے۔ یہ خوردار، بابا کے شاگرد نے کہا پوچھو کیا پوچھنا ہے تمہارے دادا کی روح ہے۔
دادا جان مجھے آپ سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ آپ کی روح یہاں کیا کر رہی ہے جبکہ آپ زندہ ہیں۔
٭٭٭
٭ ایک دوست دوسرے دوست سے ایک روز شیر میرے سامنے آگیا۔
دوسرا دوست: اس شیر نے تم پر حملہ نہیں کیا۔
پہلا دوست: حملہ کیسے کرتا وہ ایک آہنی پنجرے میں جو تھا۔
٭٭٭
٭ ایک جنرل سپاہیوں سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک تمہاری بندوق میں ایک بھی گولی ہو جب وہ بھی ختم ہو جائے تو پھر بھاگ جانا میری ٹانگ میں تکلیف ہے اس لیے میں پہلے ہی بھاگ رہا ہوں۔
nn

حصہ