ندامت

952

حذیفہ عبداللہ
شہر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک تاجر رہتا تھا شہر کا فاصلہ تو زیادہ نہیں تھا لیکن درمیان میں ایک دریا بھی تھا جس پر کوئی پل نہیں تھا اس کو عبور کرنا اور پھر کچھ دشوار گزار راستوں سے گزر کر وہ تاجر شہر جاتا اور اپنا مال فروخت کرتا تاجر کے پاس ایک گدھا تھا جو جسے وہ بار برداری کے لیے استعمال کرنا تھا تاجر اپنے گدھے کا بہت خیال رکھتا اس کی خوراک اور آرام پر توجہ دیتا کیوں نہ دیتا یہ واحد شے تھی جو اس کی سواری بھی تھی اور روز گار کا ایک ذریعہ۔ گدھا صحت مند تو تھا لیکن کاہلی اور آرام طلبی اس کی عادت تھی اس گائوں میں ایک لومڑی بھی رہتی تھی لومڑی کی چلاکی اور ہوشیاری تو مشہور ہے اس کی دوستی گدھے سے ہو گئی گدھے میں ایک خاص عادت تھی وہ انتہائی درجے کا نا شکرا تھا اور اس کا اظہار اکثر اپنی دوست لومڑی سے کیا کرتا تھا تاجر مختلف اشیا فروخت کے لیے لے کر جاتا تھا وہ اپنے گدھے پر اتنا بوجھ نہیں لادتا تھا کہ جو اس کی برداشت سے باہر نہ ہو ایک روز جب گدھے نے لومڑی سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو لومڑی نے کہا کہ آج کل تمہارا مالک کون سا سامان لے جا رہا ہے گدھے نے کہا کہ آج کل شہرمیں زیادہ مانگ ہے اور میں روز نمک کا بوجھ اٹھا کر دریا پار کرتا ہوں اور شہر جاتا ہوں لومڑی نے گدھے کو مشورہ دیا کہ کل جب تاجر نمک لے کر شہر جائے تو تم دریا میں گرنے کے انداز میں بیٹھ جانا پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ اگلے روز یہی ہوا تاجر نے گدھے پر نمک کی بوریاں لاد دیں اور روانہ ہو گیا گدھا تیزی سے دریا میں داخل ہوا اور بیٹھ گیا تاجر نے بہت کوشش کی کہ وہ اٹھ جائے مگر وہ اٹھا پھر تھوڑی دیر بعد اٹھا تو اس کا بوجھ ختم ہو چکا تھا سارا نمک دریا کے پانی میں مل گیا تھا تاجر حیران تھا کہ یہ کیا ہوا وہ اسے اتفاق سمجھا اور واپس گائوں آ گیا گدھے نے شام کو لومڑی کو بتایا کہ ایسا ہوا تو اس نے کہا کہ دیکھا میری دوستی سے تم کو فائدہ ہی پہنچا ہے اب کل بھی تم ایسا ہی کرنا تمہارا بوجھ ختم ہو جائے گا اور کل بھی تم کو دن بھر آرام ملے گا دوسرے دن بھی جب ایسا ہوا تو تاجر سمجھ گیا اور اس کے اگلے روز اس نے نمک کے بجائے کپاس بوریوں میں رکھ کر روانہ ہوا جب گدھا دریا میں پہنچ کر بیٹھ گیا اور اٹھنے کی کوشش کی تو اس سے اٹھا ہی نہ گیا کیونکہ کپاس نے دریا کے پانی کو جذب کر لیا اور وزن میں کمی کے بجائے اضافہ ہو گیا۔
تاجر گدھے کو اس ہی حالات میں بازار لے کر گیا اور وہاں کپاس فروخت کرنا چاہی لیکن گیلی ہونے کے باعث فروخت نہ ہو سکی اور تاجر گدھے کو لے کر گائوں آگیا واپسی میں گدھا دریا میں نہیں بیٹھا بلکہ ایسا ہی سہما سہما سنبھل کر چل رہا تھا تاجر بطور سزا گدھے کو شہر لے گیا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ گیلی کپاس تو فروخت نہیں ہو گی اور گدھے کو بھی احساس ہو گیا کہ تاجر اسے سزا دے رہا ہے اور یہ سب غلط دوستی کا نتیجہ ہے عیار اور مکار لومڑی کے مشورے نے اس کو عذاب میں مبتلا کیا ہے اس نے شرمندگی کے احساس کے ساتھ کے سامنے سر جھکا اس کا اعتراف کیا اور اپنے دل میں یہ طے کیا کہ آئندہ وہ مالک (تاجر)کا وفا دار رہوں گا اور غیروں کی باتوں میں نہیں آئوں تھا۔

حصہ