قیامِ لیل کے آداب

1392

ڈاکٹر محی الدین غازی
کیا آپ جانتے ہیں؟ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو تہجد پڑھتے تھے ، حالاں کہ وہ اللہ کے محبوب، معصوم اور جنّتی تھے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم، بیماری میں بھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑتے تھے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم، سفر کی حالت میں بھی تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم، میدان جنگ میں بھی قیامِ لیل نہیں چھوڑ تے تھے۔
قیامِ لیل کی فضلیت
دن کا مجاہد رات کا عابد سچے مومن کی پہچان ہے۔ جس کی رات گھاٹے کی نذر ہوئی، اس کا دن بھی نفع بخش نہیں ہوسکتا۔ دن کی محنت تو رات کی عبادت ہی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
سور ۃ سجدہ میں رات کے عبادت گزاروں کی تصویر اس دلآویز انداز سے پیش کی گئی ہے:
’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور طلب کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپاکر رکھی گئی ہے ان کے کاموں کے بدلے میں۔‘‘ (السجدہ 32: 16-17)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامِ لیل کی چار نمایاں خصوصیات اس طرح بیان فرمائیں:
’’ قیامِ لیل کے پابند ہوجائو کیوں کہ :
٭یہ تم سے پہلے کے صالحین کا شیوہ رہا ہے،
٭ یہ رب سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے،
٭یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے.
٭ اور یہ گناہوں سے باز رہنے کی تدبیر ہے‘‘۔
امام حسن بصریؒ نے بتایا: ’’رات کی نماز سے زیادہ سخت عبادت میں نے نہیں دیکھی‘‘۔
ان سے جب پوچھا گیا: تہجد گزاروں کے چہرے اتنے اچھے کیوں ہوتے ہیں؟
فرمایا: ’’تنہائی میں رحمان سے مناجات کیں تو رحمن نے اپنے نور کی خلعت سے نوازا‘‘۔
عام راتوں کی عبادت کی فضیلت میں یوں توبہت ساری آیتیں، حدیثیں اور اقوال ملتے ہیں، لیکن رمضان کی راتوں کی فضیلت جداگانہ ہے۔ ارشاد نبویؐ کے مطابق: ’’جس نے رمضان کی راتوں کو ایمان واخلاص کے ساتھ عبادت میں گزارا، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘۔
پھر بالخصوص رمضان کے آخری دس روز کے سلسلے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی اہتمام منقول ہے کہ جب آخری عشر ے کا آغاز ہوتا تھا تو کمر کس لیتے تھے، اہل خانہ کو جگاتے تھے اور رات کو زندہ کر دیتے تھے۔ یہ بیان حضرت عائشہؓ کا ہے اور رات کو زندہ کر دینے کا مفہوم وہی سمجھ سکتا ہے جو شب بیداری اور دعاے نیم شبی کے تجربات سے گزر چکا ہو۔
ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے حوالے سے کہا: ’’عبداللہ بہت اچھا آدمی ہے اگر وہ رات میں عبادت بھی کرنے لگے‘‘۔ سالم کا بیان ہے کہ پھر عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی نیند بہت گھٹا دی اور تاحیات قیامِ لیل کے معمول پر قائم رہے۔
دراصل رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عبداللہ بن عمرؓ کے سلسلے میں شہادت اور پھر یہ لطیف اشارہ ایک بہت بڑا محرک تھا۔ جس کی تحریک نے انھیں تا حیات شب بیداری پر قائم رکھا۔ ہمارے لیے بھی سارے محرکات اور معاون ذرائع موجود ہیں جن کا اہتمام کیا جائے تو اس عظیم عبادت کا پابند ہونا مشکل نہیں ہے۔ علمائے کرام نے اس سلسلے میں بہت کچھ ذکر کیا ہے:
٭جہنم کا خوف اور جنت کی طلب: ایک بزرگ کا کہنا تھا: ’جہنم کے تصور نے عبادت گزاروں کی نیند اڑا دی‘۔ دوسرے بزرگ کے بقول: ’جب میں جہنم کو یاد کرتا ہوں تومیں بے حد خوف زدہ ہو جاتا ہوں اور جنت کو یاد کرتا ہوں تو اس کی طلب بے پناہ ہو جاتی ہے۔ دراصل یہی خوف اور یہی طلب قیامِ لیل کا محرک بنتی ہے۔
٭گناہ اور نا فرمانی سے اجتناب: فضیل بن عیاض کہا کرتے تھے ’’جب تم یہ دیکھو کہ رات کو اٹھ نہیں پاتے ہو اور دن میں روزہ نہیں رکھ پاتے ہو، تو سمجھ لو کہ تم بدنصیب ہو اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہو۔ یہ بیڑیاں تمھارے گناہ ہیں جنھوں نے تمھیں جکڑ رکھا ہے۔‘‘
حسن بصریؒ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ ’’میں اچھا خاصا سوتا ہوں، رات میں اٹھنا بھی چاہتا ہوں، وضو کا پانی بھی رکھ دیتا ہوں، پھر آخر کیوں نہیں اٹھ پاتا ہوں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’تمھارے گناہوں نے تمھیں باندھ رکھا ہے۔‘‘
امام ثوریؒ کہتے ہیں ’’محض ایک گناہ کی وجہ سے میں پانچ مہینے تک قیامِ لیل سے محروم رہا۔‘‘
٭مناجاتِ رب کی لذت: ابوسلیمان کہتے ہیں: ’’رات کو اٹھنے والوں کو عبادت کرنے میں اتنا مزا آتا ہے جتنا عیاشی کرنے والوں کو آہی نہیں سکتا، اور اگر رات نہ ہوتی تو میں دنیا میں رہنا ہی پسند نہ کرتا۔‘‘
ایک بزرگ نے اپنے مریدوں کو خطاب کرکے کہا: ’’زیادہ مت کھائو، ورنہ زیادہ پانی بھی پیو گے، زیادہ سونا بھی پڑے گا اور انجامِ کار زیادہ گھاٹے میں رہوگے۔‘‘
٭عیش کوشی سے اجتناب: حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ’’اے بیٹے جب معدہ زیادہ بھر جاتا ہے تو سوچنے کی طاقت سو جاتی ہے، حکمت ودانائی گونگی ہوجاتی ہے اور جسم کے اعضا عبادت سے جی چرانے لگتے ہیں۔‘‘ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ وہ چھت پر یا صحن خانہ میں سویا کرتے تھے اور نرم بستر سے پرہیز کرتے تھے تاکہ گہری نیند نہ آجائے۔
٭ قیامِ لیل کی نیت کرتے ہوئے جلد سونے کی عادت: بزرگوں کا تجربہ ہے کہ آدمی سچے دل سے جس وقت اٹھنے کی نیت کرتا ہے اس کی آنکھ اس وقت کھل جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر جو بھی تدبیریں ہوسکتی ہوں بیدار ہونے کی خاطر انھیں آزمانا چاہیے، خواہ وہ الارم گھڑی ہو یا ٹیلی فون الارم۔ بعض لوگ تہجد گروپ تشکیل دیتے ہیں اور ان میں سے جس کی آنکھ پہلے کھل جاتی ہے وہ تمام لوگوں کو فون کی گھنٹی سے ہوشیار کردیتا ہے۔
٭دن کی مختصر نیند: جسے عربی میں ’’قیلولہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سحری کھا کر دن کا روزہ رکھنے کی قوت پائو اور قیلولہ سے قیامِ لیل میں مدد حاصل کرو۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس قدر تاکید کی کہ ’’قیلولہ کیا کرو کیوںکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے شیطان کو تہجد تو پڑھنا نہیں ہوتی ہے پھر وہ قیلولہ کس لیے کرے گا۔
٭ اعا نت اور توفیق کی دعا: سو جانے کے بعد دوبارہ آدمی صرف اللہ کے حکم اور فیصلے سے بیدار ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ سے اعانت اور توفیق کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
٭ اسلاف کی زندگی کا مطالعہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شب بیداری کے احوال، صحابہ کرامؓ، تابعین اور دیگر بزرگانِ دین کی راتوں کی عبادتوں کے احوال و واقعات پڑھ کر بھی حوصلہ ملتا ہے، تحریک پیدا ہوتی ہے۔
٭عادت: عادت بذات خود ایک محرک ہے۔ اللہ پاک نے جس کام کا بھی حکم دیا ہے وہ بالیقین آسان (یسر ) ہوتا ہے۔ نفس کا عادی نہ ہونا اسے مشکل بنا تا ہے۔ اگر آدمی خود کو اس کا عادی بنالے تو پھر اسے اس کام میں اتنا مزا آئے گا کہ وہ پھر اس کے بغیر زندگی بے کیف ہی محسوس کرے گا۔
چند مزید راہ نما باتیں:
٭رات کی عبادت قدرے کم روشنی میں ہونی چاہیے، روشنی اور بالخصوص تیز روشنی خشوع کی راہ میں حجاب بن جاتی ہے۔ برقی قمقموں کا روحانی تجلیات کے ساتھ اجتماع بہت مشکل ہوتا ہے۔
٭نماز انفرادی ہو، تنہائی میں ہو اور آواز ہلکی بلند ہو۔ نہ بالکل ایسی کہ خود کو سنائی نہ دے، نہ بالکل بلند، ہلکی گنگنا ہٹ سی ہو۔ رات کی نماز کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ کو ہدایت دی کہ آواز کچھ بلند رکھیں اور حضرت عمرؓ کو ہدایت دی کہ آواز کچھ دھیمی رکھیں۔
٭ قیام ، رکوع اور سجدے خوب لمبے ہوں۔ حالت قیام میں لمبی سورتوں کی تلاوت کرے، نہیں یاد ہوں تو ایک ہی رکعت میں متعدد چھوٹی سورتوں کی تلاوت کرے، اور وہ بھی یاد نہ ہوں تو ایک دو سورتوں کو ہی بار بار پڑھے۔
٭ رکوع اور سجدے کی حالت میں تسبیح بار بار پڑھنی چاہیے، تین یا سات کی قید ضروری نہیں ہے۔ سجدے کی حالت میں تسبیح کے علاوہ دعائیں بھی مانگی جائیں۔ ایک ایک دعا کو بار بار دہرا یا جائے۔ کبھی کبھی عام افراد کو الجھن سی ہوتی ہے کہ لمبی نمازیں کس طرح پڑھیں۔ مذکورہ مشورے اس بارے میں مفید ہوں گے۔
٭ قیامِ لیل کے اعمال میں نماز، تلاوت کلام پاک، ذکر ودعا اور غور وتدبرسب شامل ہیں۔ تاہم نماز افضل ترین اور جامع ترین عمل ہے۔ اس کے بغیر قیامِ لیل کا تصور ہی نہیں ہے۔
٭ رات کی نماز اور بالخصوص رمضان کی راتوں کی خاص دعا ہے: اَللّھْم ّاِنّکَ عَفْوّ تْحِبّْ ال عَفوَ فَاعفْ عنِّی (اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے۔ معاف کرنا تجھے پسند ہے۔ مجھے معاف کر دے۔) یہ چھوٹی سی دعا ہمارے قیامِ لیل کو بہت بابرکت اور نفع بخش بنا سکتی ہے۔

حصہ