عوام کی قسمت کب بدلے گی….؟۔

626

سید اقبال چشتی
پاکستان کسی سانحہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر بنا ہے مگرجب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اُس وقت سے ہر حکومت چاہے وہ شیروانی والوں کی ہو یا وردی والوں کی‘ یہی کہتی آئی ہے کہ ہم عوام کی قسمت بدل دیں گے اور اس ملک کوخوش حالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گے۔ مگر حکمرانوں کے دعوے صرف دعوے ہی رہے نہ ملک کی قسمت جاگی اور نہ ہی عوام کی قسمت میں خوش حالی آئی۔ مگر عوام نے جن حکمرانوں کو منتخب کیا اُن کی قسمت ضرور تبدیل ہو گئی۔ جس طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد زرداری صاحب کی قسمت بدل گئی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہو اور میں وزیر اعظم بن جائوں گا مگر کچھ سانحات ایسے ہو تے ہیں جو قسمت کو بدل دیتے ہیں نواز شریف صاحب کا نااہل ہونا شاہد خاقان عباسی کے وزیراعظم بننے کا سبب بنا اس لیے خاتون اوّل ڈاکٹر ثمینہ شاہد عباسی نے کہا ہے کہ سانحہ اُجڑی کیمپ نے ہماری زندگی بدل دی۔ یہ سانحہ ہمارے لیے بہت برا تھا لیکن اس سانحہ نے ہماری قسمت بدل دی۔
سانحہ اُجڑی کیمپ میں شاہد خاقان عباسی کے والد اور ایک بھائی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ اس سانحہ نے ملکی سیاست کا رخ ہی بدل دیا تھا۔ 17 اگست 1988 کو پاکستان کے آرمی چیف اور صدر جنرل ضیا الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوتا ہے اور ملک میں غیر جماعتی انتخابات کے بجائے‘ سیا سی بنیادوں پر‘ جماعتی انتخابات ہو تے ہیں اور آمریت کے بعد ملک جمہوری تسلسل کے ساتھ چلنے لگتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی بھی 1988 کے انتخابات میں روالپنڈی سے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے حصہ لیتے ہیں اور راجا ظفر الحق کو شکست دے کر کامیابی حاصل کرتے ہیں اور یہ کامیابی کا سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے۔ ایک سانحہ نے کسی کو کتنی بلندی تک پہنچا دیا تو کسی کی کتنے ہی سانحات کے بعد بھی قسمت نہیں بدلی۔ قسمت نہ بدلنے والوں میں سرفہرست اس ملک کے عوام ہیں۔ ملک اور قوم کی ترقی کے لیے حکومتوں نے جہاں سے بھی ممکن ہوا قرض لیا۔ قرضہ واپس تو نہیں ہوا مگر حکومتوں کی پالیسی کی وجہ سے ملک ان قرضوں کے بو جھ تلے دب گیا۔ یہ قرضے یقینا ’’ملکی ترقی‘‘ اور ’’خوش حالی‘‘ کے لیے ہی لیے گئے تھے لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوںجوں دوا کی‘‘ کے مصداق ملکی قرضہ بڑھتا گیا اور چند لوگوں کی‘ بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ چند اشرافیہ کی قسمت بدل گئی اور عوام آج بھی پاکستان کو لندن اور پیرس بننے کے سہانے سپنے دیکھ رہے ہیں۔ یہی وہ اشرافیہ ہے جو عوام کو بے و قوف بھی بناتی ہے اور ملکی نظام پر قابض بھی ہے ان میں سر مایہ دار ، سیاست دان ، چوہدری، خان، وڈیرے اور سردار سب ہی شامل ہیں۔ یہی وہ ٹولہ ہے جو ہر حکومت میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے اور انتخابات سے قبل اِدھر اُدھر ہوکر چالیں چلتا ہے۔ یہ ٹولہ چاہے حکومت میں ہو یا حکومت سے باہر‘ فوائد حاصل کرتا رہتا ہے بالکل اسی طرح کے فائدے کے ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے۔‘‘
ایک اندازے کے مطابق 54ارب روپے پا کستانی بینکوں سے قرض لینے والوں کے قرضے سیاسی بنیادوں پر معاف کر دیے گئے۔ ان قرض معاف کرانے والوں کی فہرست میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور بیشتر مل مالکان کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی اور سیاست دان کے علاوہ دیگر بڑے لوگ شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ لوگ جنھوں نے قرض معاف کرائے ہیں‘ غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ جن کو اپنی زندگی ا ور قسمت بدلنے کے لیے پہلے قرض دیے گئے اور بعد میں ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں ان غریبوں کے قرض معاف کردیے گئے یقینا یہ تمام لوگ غریب نہیں ہیں بلکہ اربوں روپے کے مالک ہیں لیکن ’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ سمجھ کر ملک کی دولت کو یہ افراد دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ یہاں غریب کے لیے الگ اور امیروں کے لیے الگ قانون ہے۔ اس کی مثال بینکوں سے اور ہائوس بلڈنگ فنانس سے اگر کوئی اپنے بچوں کو چھت فراہم کرنے یا اپنے مکان کی تعمیر کے لئے معمولی قرضہ لے تو سود سمیت واپس کرنا پڑتا ہے اگر کو ئی کسی وجہ سے قرضہ واپس نہ کر سکے یا کسی حادثے کی وجہ سے دیر ہو جائے تو حکومت گھر نیلام کر دیتی ہے لیکن مہلت نہیں دی جاتی بلکہ قرض دار کو گر فتار کر لیا جاتا ہے۔
ایک چیف جسٹس ہیں‘ جو ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنا چا ہتے ہیں‘ اسی لیے انہوں نے قرض معافی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’قرض معاف کرانے والوں سے رقم وصول کریں گے یا پھر ان کے اثاثے فروخت کرکے قوم کا پیسہ وصول کریں گے۔‘‘ یہ تو وہ دولت ہے جو ملک کے بینکوںسے سیاسی بنیادوں پر حاصل کی گئی اور ڈکار لیے بغیر ہضم کر لی گئی لیکن یہ دولت تو کچھ بھی نہیں ہے جو دولت اور اثاثہ جات بیرون ملک ہے‘ اُس کا کو ئی شمار نہیں۔ اسی کیس میں جسٹس عمر بندیال کے ریمارکس ہیں کہ ’’بے ایمان لوگوں کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔‘‘ غیر قانونی طریقے اور چینل سے لوگ پیسہ باہرمنتقل کرکے ’’قانونی طریقے‘‘ سے واپس لے آتے ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 12 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ 7 ارب ڈالر فارن اکائونٹس میں رکھنے والے ’’غریب لوگ‘‘ ٹیکس بھی چوری کرتے ہیں اور کیوں نہ چوری کریں جبFBR کے سابق چیئرمین عبداللہ یوسف‘ جن کی گرین ڈیل مینجمنٹ اور گرین وڈ انوسمنٹ کمپنی بھی آف شور کمپنیوں میں شامل ہیں‘ تو دوسروں کو اس سے شہ تو ملے گی۔ آف شور کمپنی کیس کی زد میں آکر نواز شریف نا اہل ہو چکے ہیں مگر اب تک 435 پاکستانی آف شور کمپنیوں کے مالکان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی نظر نہیں آرہی۔
پاناما لیکس میں سلیم سیف اللہ خان اور ان کے خاندان کی 35 آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہو چکا ہے مگر سلیم سیف اللہ پی ٹی آئی میں شامل ہو کر ’’اللہ والے‘‘ ہو گئے ہیں اور شاید آئندہ ان کی قسمت کا ستارہ مزید چمکے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان کی آف شور کمپنی HEXAM بھی جو 2004 میں بنائی گئی تھی‘ پاناما کیس میں شامل ہے یہی نہیں پاکستان نے جن لوگوں کی قسمت بدل دی ان میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز صاحبان‘ بڑے بڑے وکیلوں اور سیاست دانوں، فوجی افسران اور اعلیٰ حکومتی افسران کے ساتھ صنعت کاروں کی آف شور کمپنیاں ظاہر ہو چکی ہیں جن کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ دیکھیں ان افراد کے خلاف کیا فیصلہ آتا ہے۔ عدلیہ اور نیب مل کر کتنا پیسہ پاکستان لے کر آنے میں کامیاب ہو تے ہیں کیونکہ جن پیسوں سے ملک کے مسائل حل ہو نے تھے اور عوام کی قسمت بدلنی تھی‘ وہ لوٹ مار اور کرپشن کی نذر ہو گئے۔
پاکستانی عوام ایک طرف غربت، بجلی کے بحران، بیروزگاری‘ بنیادی بلدیاتی سہولیات کی عدم فراہمی اور امن وامان کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ایک اور کرپٹ اور اشرافیہ کے کیس کا انکشاف ہوتا ہے کہ دبئی میں 7 ہزار پاکستانیوں کی 11 سو ارب روپے کی جائدادیں اور اثاثے ہیں جو سب لوٹ مار اور کرپشن کے پیسے سے بنائی گئی ہیں یعنی پاکستان میں مال بنانا اور پھر ملک سے بھاگ جانا اور جب عوام بھول جائے یا پھر کرپشن کے کیس پر ’’مٹی پائو‘‘ والا فارمولا لگ جائے تو یہی لوگ ’’ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں‘‘ پا کستان واپس آجاتے ہیں اور تازہ دَم ہو کر پھر سے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور عوام کرپشن کے پیسے کا جا دو دیکھنے کے بعد اپنی قسمت کے سوداگروں کو پھر سے اپنے سروں پر بٹھانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جس طرح ایم کیوایم 30 سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود کراچی کے عوام کی قسمت نہیں بدل سکی مگر ہر بار عوام نے جیت کا سہرا ایم کیو ایم ہی کے سر باندھا اور آج اس کا نتیجہ بھی دیکھ رہے ہیں۔ عوام کی قسمت تو نہیں بدلی مگر کئی رہنمائوں کی قسمت بدل گئی۔ بابر غوری‘ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہوٹل میں ویٹر تھے‘ مگر ان کی قسمت کا ستارہ خوب چمکا اور آج اربوں روپے کے مالک ہیں اور امریکا میں مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح جنرل مشرف اور سابق وزرا عوام کی قسمت بدلنے کے لیے ایک بار پھر حکمرانی کے منصب پر آنے کے لیے بے چین ہیں مگر عوام اپنی قسمت کو بدلنے کے لیے بار بار آزمائے ہوئے کرپٹ لوگوں سے اظہار نفرت کر رہے ہیں‘ اب عوام کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے اور اس رمضان میں چلنے والی الیکشن مہم میں عوام عہد کر یں گے کہ اس دفعہ بدعنوان اور دھوکا دینے والے سیاست دانوں کو ووٹ نہیں دیںگے جو صرف اپنی ذات تک فائدے کے لیے سوچتے ہیں اور ملک وقوم کی قسمت بدلنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتے۔ اس لیے اس بار عوام ووٹ اپنی قسمت بد لنے کے لیے پاکستان کو کرپشن سے پاک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے استعمال کریں گے کیو نکہ اسلامی پاکستان ہی اس ملک اور قوم کی قسمت بدل سکتا ہے ۔

حصہ