شریکِ مطالعہ

935

نعیم الرحمٰن
منیر احمد منیر ایک منفرد انٹرویو نگار ہیں جنہوں نے انٹرویوز کو تخلیق کے مقام پر پہنچا دیا۔ منیر احمد منیر نے بے شمار مصاحبے کیے۔ وہ اپنے منفرد انداز میں جو جس طرح جو بات کرتا ہے، اسے ِمن وعنَ شائع کردیتے ہیں۔ اس لیے ان کے انٹرویوز سادگی اور پُرکاری سے عبارت ہوتے ہیں اور ان میں کہی بات قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں منیر احمد منیر ’’آتش فشاں‘‘ کے نام سے پندرہ روزہ رسالہ شائع کرتے تھے جس میں علم، ادب، سیاست، فلم، سیاحت، مذہب، کلچر اور پاکستانیت ہر موضوع پر انٹرویوز شائع کیے گئے، جو بعد میں کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوکر مقبول ہوئے۔ منفرد پرچہ ’’آتش فشاں‘‘ تو بند ہوچکا ہے لیکن تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کے لیے آتش فشاں پبلشرز اب بھی اشاعت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہا ہے۔ اس ادارے کی کتب سے پاکستان کی تاریخ کے اہم موڑ بہ خوبی جانے جا سکتے ہیں۔
چند سال قبل معروف مصنف یونس ادیب کی اندرون لاہور کی ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں کتاب ’’میرا شہر لاہور‘‘ نے قارئین کی داد حاصل کی تھی۔ لیکن پھر ترقی کے نام پر لاہور کی دگرگوں صورتِ حال کے بارے میں معروف فوٹو گرافر اور صحافی ایف ای چودھری کے طویل انٹرویو پر مشتمل کتاب ’’اب وہ لاہور کہاں‘‘ آئی جو ایف ای چودھری کی سوویں سالگرہ کے موقع پرشائع کی گئی، جس میں سو سال قبل لاہور کیسا تھا؟ اس دورکی دل چسپ معلومات، باتیں اور یادیں منیر احمد منیر کے یادگار انٹرویو میں بیان کی گئی ہیں۔
منیر احمد منیر کی تازہ تصنیف ’’مٹتا ہوا لاہور‘‘ اسی موضوع کو آگے بڑھاتی ہے، جو دراصل زندہ دلانِ لاہور کی مخصوص تہذیب، رہن سہن، ثقافت اور میل جول کا نوحہ ہے۔ کتاب میں لاہور کے تین بزرگ شہریوں کرنل (ر) سلیم ملک، حافظ معراج دین اور مستری محمد شریف کے انٹرویوزکے ذریعے لاہور کی یادوں کو تازہ کیا گیا ہے اور تعمیر و ترقی کے نام پر شہر کا جو حال ہوگیا ہے اُس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ ماضی کے لاہور کی بازیافت کے لیے یہ دونوں کتابیں ’’اب یہ لاہورکہاں‘‘ اور ’’مٹتا ہوا لاہور‘‘ ہمیشہ بنیادی ماخذ کی حیثیت سے یاد رکھی جائیں گی، اور یہ منیر احمد منیر کی اس شہرکی بہت بڑی خدمت ہے۔
کتاب کے آغاز میں منیر احمد منیر نے سو صفحات سے زائد کا بھرپور ’’پیش لفظ‘‘ لکھا ہے جس میں شہرکی تاریخ، لوگ اور بہت کچھ بیان ہوگیا ہے۔ تینوں بزرگوں کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مٹتا ہوا لاہور میں ان تین لاہوری بزرگوں کے انٹرویو شامل ہیں۔ اولاً کرنل سلیم ملک، ثانیاً حافظ معراج دین، ثالثاً مستری محمد شریف۔ اوّل الذکر کا جدی تعلق ساندہ سے، ثانی الذکر اندرون موچی دروازہ کے قدیمی باسی، اور آخرالذکر کا پشتینی ٹھکانا اندرون شیرانوالا دروازہ، بعد ازاں شمالی لاہور۔ تینوں بزرگ لاہور کی روایات، رسوم، رواجوں اور ثقافت میں رچے بسے رہنے کے سبب ہمیں اس روایتی لاہور میں لیے پھرتے ہیں جو قریباً ختم ہوچکا ہے، رہا سہا ٹمٹماتا ہوا دیا۔
ملک صاحب اور حافظ صاحب سیاست کی گھنیری چھاؤں تلے بھی سفری رہے۔ کون سی سیاست؟ قائداعظم محمد علی جناح کی سیاست، حصولِ پاکستان کی سرمدی اور کھری سیاست۔ مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور تیسری دنیا کو ہندو راج سے محفوظ رکھنے کی سیاست۔ ان کے برعکس مستری محمد شریف مجموعی طور پر لاہور کی ثقافتی، تہذیبی، تمدنی اور رواجی بے کرانی کے شناور رہے۔ پاک وہندکی فلمی دنیا کا تو یہ شخص رواں انسائیکلوپیڈیا تھا۔ ذریعۂ معاش گھڑی سازی، لیکن مزاج دانش ورانہ، سوچ قلندرانہ، طبع رندانہ، لاہور کی ثقافتی زندگی پر چھائی ساڑھ ستی پر دل برداشتہ۔ من میں فلم اور فلمی ادب کا اس قدر رچاؤ کہ فلمی رسائل، بک لٹس، ہینڈ بلز، تصویروں اور فلم سے متعلق ہمہ قسم لٹریچر اور معلوماتی ذرائع کا بے دھڑک ذخیرہ اندوز۔‘‘
غرض ان تین بزرگوں کے انٹرویوز میں قدیم لاہور کے افراد، روایات، پیڑوں، عمارات، میلوں ٹھیلوں، تہذیب وتمدن کا ایک جیتا جاگتا گلدستہ ہے، جس میں شہر کا ہر رنگ اور ہر روپ چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ مصرعے میں تحریف کے ساتھ کہیں ’’ذکر ان بزرگوں کا اور پھر بیاں منیر کا‘‘ پھر سینکڑوں تصاویر اور نقشے قاری کو اُسی دور میں لے جاتے ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس پر منیرکے تبصرے۔ کہتے ہیں:
’’انارکلی کمرشل بازار نہیں ایک سیرگاہ بھی تھی۔ انگریزوں نے تو مال روڈ بھی ایک خوب صورت تفریح گاہ بنائی تھی، ہم نے کمرشل کرکے اس کا بیڑہ غرق کردیا۔ حُسنِ لاہور جگہ جگہ بدنما ہوا۔ اس پر ہمیں کوئی دکھ اورکوئی پچھتاوا نہیں۔‘‘
’’ہمارے بچپن میں اسی لاہور میں جو تانگا بغیر ہارن کے ہو اور جو کوچوان رات کو مٹی کے تیل سے چلنے والی دونوں لائٹیں نہ جلاتا اس کا چالان ہوجاتا۔ پھر آزادی کی نعمت سے جوں جوں ہم فیض یاب ہوتے چلے گئے، تانگا بان بھی پیچھے نہ رہا۔ لائٹ تو پھر بھی دیکھنے میں آجاتی، ہارن اس شخصی آزادی کی نذر ہوگیا۔‘‘
’’برکت علی محمڈن ہال لاہور میں ایک مرکزِ علم و دانش اور مسلمانوں کے لیے ایک فکری اور سیاسی تربیتی ٹھکانا تھا۔ لاہور میں بجلی 1914ء میں آئی۔ محدود ہونے کے باوجود اسی سال برکت علی محمڈن ہال کو اس نے جگمگ جگمگ کردیا اور اس کے ریڈنگ روم کی رونق دوچند ہوگئی۔ آج اس ہال کے طفیل وہ سارا علاقہ بجلی کے قمقموں سے رات بھر روشن رہتا ہے، لیکن خود برکت علی محمڈن ہال اندھیروں میں ڈوب چکا ہے۔ برکت علی محمڈن ہال کسمپرسی میں اور ڈپٹی برکت علی کوٹھی صفحہ ہستی سے نابود۔ یہ سلوک کیا ہم نے پنجاب کے سرسید کے ساتھ کیا… نہیں یہ بدسلوکی ہم اپنے آپ سے کررہے ہیں۔ جب ضمیر لمبی تان لیتا ہو تو آنے والوں کے لیے ایسی بے رونق اور چٹیل یادیں ہی چھوڑی جاتی ہیں۔‘‘
ایسی اور بہت سی دردناک یادیں دل کو خون کے آنسو رلاتی ہیں اور قاری کتاب میں گم ہوجاتا ہے۔
’’شیر شاہ سوری نے جو سڑکیں بنادیں، صدیاں بیت گئیں ان کی اہمیت کم نہ ہوئی اور نہ ان میں ردوبدل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جب کہ ہماری میٹروز اور اورنج لائن ٹرین ہمارے تاریخی اثاثوں کی قاتل اور منصوبہ بندوں کی جمالیاتی حس پر ماتم کناں ہیں۔ کیا ایسا بھدا منصوبہ لاہور کو سالہا سال قبول ہوگا؟ میرا ذہن تو یہی کہتا ہے کہ آخرکار اصل لاہور بحال ہوکر رہے گا۔ اونچائی پر بننے والے ان پراجیکٹس کی ناکامی کے بعد ایک دن انہیں انڈرگراؤنڈ جانا پڑے گا۔‘‘
منیر احمد منیر لکھتے ہیں: ’’یہ لاہور ہمارے پاس قائداعظم کی امانت ہے، اس کے ثقافتی حسن وجمال کا چہرہ بگاڑنا خیانتِ مجرمانہ ہوگا۔ اگر ہمارے حکمران اور قبضہ مافیا اس میں چھوٹ گئے تو داتا کی نگری اور قائداعظم کا لاہور قصے کہانیوں میں رہ جائے گا۔ اور یہ زبان زدِعام حقیقت نئی ریساں شہر لاہور دیاں دم توڑجائے گی۔‘‘
اس نکتہ نظر سے اتفاق ہو یا اختلاف… ’’مٹتا ہوا لاہور‘‘ کی دل چسپی سے انکار نہیں۔ یہ اس قدیم ترین شہر کی گلیوں، چوباروں، باغوں، بہاروں، کھانے پینے، میلوں ٹھیلوں، تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کی زندگی اور جیتی جاگتی تفسیر ہے، جسے شروع کرکے مکمل کیے بغیر چھوڑنا قاری کے لیے انتہائی مشکل ہوگا۔ منیر احمد منیر سے ایسی اورکتابوں کی بھی امید ہے۔
…٭…
سہ ماہی ’نقاط‘ کا پندرہواں شمارہ خاص نمبر ہے۔ 512 صفحات کے ضخیم شمارے کی قیمت چھ سوروپے بہت مناسب ہے۔ ’’آغاز‘‘ کے عنوان سے اداریے میں ایڈیٹر قاسم یعقوب نے ادبی رسائل کی ذمے داریوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ادبی صحافت محض تخلیقی، تنقیدی یا تحقیقی ادب کی جمع آوری کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی ادبی پیش کش میں مجموعی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی نمائندگی اور احیا بھی موجود ہوتا ہے جو دیگر ادبی سرگرمیوں میں ممکن نہیں۔ انہوں نے ادبی رسائل کی مشکلات اور مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لیے ایک لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے۔ اس خاص شمارے میں غزلوں اور مضامین کے انتخاب پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ آصف فرخی، ناصرعباس نیر، سرور الہدیٰ، تحسین گیلانی، ارسلان راٹھور اور حنا جمشیدکے تنقیدی مضامین لائق توجہ اور مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ آصف فرخی کا مضمون ’’سارا شگفتہ اور رنگ چور‘‘ اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا ’’مجھے نظم لکھتی ہے‘‘ بہت عمدہ ہے۔ کینیڈا سے محترمہ نسیم سید کا ایک کتاب پر تبصرہ اور مضمون بھی شامل ہے۔ بھارت سے دو مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ خالد جاوید نے شمس الرحمن فاروقی کے ناول’’قبضِ زماں‘‘ کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ دوسرا مضمون شاہین پروین کا ’’ادبی سماجیات کا مطالعہ‘‘ بہت اہم موضوع پر ہے۔ اجمل کمال کے توسط سے موصولہ سید محمد اشرف کا ’’نیر مسعود کی کہانیاں‘‘ بھی بے حد اہم مضمون ہے۔ سید محمد اشرف خود اہم ناول نگار ہیں، ان کی تحریر تنقیدی گرہیں کھولتی ہے۔
منیر فیاض نے نقاط کی فرمائش پرگزشتہ شمارے کی طرح کچھ اور چینی کہانیوں کے تراجم کیے ہیں جو فکشن کے پرستاروں کے لیے تحفۂ خاص ہیں۔ معروف بھارتی دانشور اور ناول نگار ارون دھتی رائے پرگوشہ اس شمارے کا اہم ترین حصہ ہے جس میں اردو دنیا سے مصنفہ کا بھرپور تعارف کرایا گیا ہے۔ گوشے میں ارون دھتی رائے کے تازہ ناول ’’بے پناہ خوشی کی وزارت‘‘ پر عمر جاوید کا تبصرہ، ارون دھتی کے دو عمدہ انٹرویوز اور ناول کے دو باب شامل کیے گئے ہیں۔ عرفان جاوید نے پاک و ہند اور عالمی شعری روایات پرقلم اٹھایا ہے۔ سلمیٰ اعوان کا مضمون بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پروفیسر شہباز علی اور اقدس علی قریشی نے موسیقی پر مضامین لکھے ہیں۔ نظموں اورغزلوں کو ایک سو اسّی سے زائد صفحات دیے گئے ہیں جس میں سعید احمد کی طویل نظم ’’لا وقت کے سمندر میں‘‘ کا دوسرا حصہ قابل ِ توجہ ہے۔ افسانوں کی تعداد قدرے کم ہے جس کا جواز ایڈیٹر نے یہ دیا ہے کہ انہیں پوری توجہ حاصل ہوسکے۔ رسالے کے آخرمیں سماجیات اور عورت کے موضوع پر دوگوشے بنائے گئے ہیں۔ غرض مجموعی اعتبار سے نقاط کا یہ شمارہ بھی اول تا آخر، بے مثال تخلیقات سے سجا ہے۔ نقاط کے ’’کتاب نمبر‘‘ کا بے چینی سے انتظار ہے۔ شاندار ’’نظم نمبر‘‘ کے بعد اس نمبر سے قارئین کی بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔

دُعا

عزیزالحسن
دعا کے بیج بو کر آسماں کی وسعتوں میں
الٰہی! میں کسی شیریں ثمر کا منتظر ہوں
جو میرا کام تھا رَبِّ جہاں میں کر چکا ہوں
بس اب اپنی دعائوں کے اثر کا منتظر ہوں
محبت کے در و دیوار ہوں جس کے الٰہی!
میں اِس دنیا میں اِک ایسے ہی گھر کا منتظر ہوں
شبوں کے ساتھ میری زندگی گزری ہے اب تک
مرے مالک! میں اب اُجلی سَحَر کا منتظر ہوں
جنھیں اپنائیت سے دیکھ کر اپنا کہوں میں!
بڑی مدت سے ایسے بام و در کا منتظر ہوں
اَبَد تک ہر زمانے کے حقائق جس سے دیکھوں
الہٰ العالمیں! میں اُس نظر کا منتظر ہوں
جڑیں جس کی ہوں الفت کی زمیں میں خوب گہری
مرے اللہ! میں ایسے شجر کا منتظر ہوں
مجھے اَوہام کے اِس زہر کا تریاق دے دے !
اِلٰہی میں یقینِ معتبر کا منتظر ہوں
مری دنیا اذِیَّت ناک ہوتی جا رہی ہے
اندھیری رات ہے اور میں قمر کا منتظر ہوں
عزیزؔاحسن دعاؤں سے کھلے گا بابِ رحمت
دعا کے بعد میں، اب کشفِ در کا منتظر ہوں

رحمتوں کا مہینہ ہے رمضان ہے

علاء الدین ہمدم خانزادہ
کیا بتائوں مرے رب کی کیا شان ہے
اُس کی وحدانیت پر ہی ایمان ہے
اُس کے احکام ہیں یہ جو قرآن ہے
سوچ تُو کس طرح کا مسلمان ہے
مغفرت مانگ لے اتنا آسان ہے
بخش دے گا یہ مالک کا اعلان ہے
رحم کرتا ہے سب پر وہ رحمان ہے
اے گنہگار تو کیوں پریشان ہے
رحمتوں کا مہینہ ہے رمضان ہے
٭

حصہ