رمضان اور ہم

693

افروز عنایت
خدیجہ: عاصم، زکوٰۃ کی رقم تو میں مساکین میں تقسیم کرچکی ہوں، باقی جن لوگوں کو راشن خرید کر دینا ہے اس کی رقم بچی ہے، آج رمضان کی سات تاریخ ہوگئی ہے، آپ یوں کریں کہ راشن کے ڈبے بنوا لیں، تاکہ 10 رمضان شریف تک یہ کام بھی ہوجائے۔
دونوں میاں بیوی نے لسٹ بنائی کہ راشن میں کیا کیا اشیاء شامل کی جائیں۔ یہ اس گھرانے کا معمول تھا، اور یہ کوشش ہوتی کہ راشن میں صاف ستھری اور اچھی کوالٹی کی اشیاء شامل کی جائیں۔ اگلے دو دن میں ایک بڑی راشن کی دکان کے مالک سے بات کی، جہاں سے عاصم گھر کے لیے اشیائے خورونوش خریدا کرتے تھے۔ دکان دار نے مختلف قیمتوں کے دو تین راشن کے ڈبے دکھائے کہ ان ڈبوں میں آپ کی لسٹ کے مطابق اشیاء ہیں، آپ کھول کر دیکھ لیں۔ عاصم چونکہ انہی سے راشن لیتے تھے اس لیے ایک ڈبہ کھول کر سرسری نظر ڈالی اور تمام مطلوبہ ڈبے گاڑی میں رکھوا کر گھر لے آئے، اور اگلے دن ضرورت مندوں کو خاموشی سے تقسیم کردیے۔ دونوں میاں بیوی مطمئن تھے کہ زکوٰۃ، خیرات و صدقات کی تمام رقوم مستحقین کے حوالے کردی گئی ہیں۔
دو دن بعد کام والی ماسی اپنا راشن کا ڈبہ لے آئی کہ یہ تمام اشیاء ناقص ہیں۔ عاصم نے معائنہ کیا تو اس کی بات درست ثابت ہوئی۔ دونوں میاں بیوی کو بڑا رنج ہوا کہ اللہ کے نام پر دیا جانے والا رزق اور اوپر سے رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ، اور ایک جانا پہچانا شخص جس نے اس طرح ڈنڈی ماری! لہٰذا اس ماسی کے ساتھ عاصم دکان دار کے پاس پہنچے، لیکن وہ اپنی غلطی اور گناہ کو ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔ بڑی بحث کے بعد اس نے وہ راشن کا سامان بدل کر دیا۔ عاصم کی بیوی خدیجہ سوچنے لگی کہ باقی لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہوگا لیکن بیچارے مروت میں پلٹ کر نہیں آئے۔ کیا اس طرح ہمیں اجر حاصل ہوگا؟
یہ صرف اُس دکان دار کا معاملہ نہیں، بلکہ رمضان المبارک میں بھی اکثر و بیشتر ہمارے سامنے اس قسم کے واقعات آتے ہیں۔ اس ماہِ مقدسہ کی برکتوں اور سعادتوں سے ہر مسلمان واقف ہے، اس میں کی جانے والی کوئی نیکی ضائع نہیں جاتی، ہر نیکی کا اجر ستّر گنا بڑھ جاتا ہے۔ نفلی عبادتوں کا درجہ بھی فرض کے برابر پہنچ جاتا ہے۔ بندۂ مومن کی اس ماہ میں نیکیوں کو سمیٹنے کی طمع اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ کوئی لمحہ ضائع نہیں جانے دیتا۔ مسلم ممالک میں رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش پر خصوصی رعایت دی جاتی ہے نہ صرف حکومت کی طرف سے، بلکہ عام تاجر بھی اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں اگر ڈسکائونٹ دیا بھی جاتا ہے تو اشیاء نہ صرف ناقص ہوتی ہیں بلکہ ان کی مدتِ استعمال ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ یعنی اس ماہِ مقدس میں بھی بے ایمانی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ کیا ایسی کمائی تاجر کے لیے حلال ہوئی؟
ماہِ رمضان نزولِ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کے نزول کی وجہ سے ہی مقدس اور اہم نہیں، بلکہ یہ ماہِ مبارک روزے رکھنے کی وجہ سے بھی بابرکت ہے۔ روزہ عبادت کا وہ ذریعہ ہے جو نہ صرف نفس کو تقویٰ کی طرف لے جاتا ہے بلکہ تمام سال کے لیے ایک مشق ہے جسم و روح کی تربیت اور انہیں منظم رکھنے، اور نفس کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ اس کی اہمیت و فضیلت احادیثِ نبویؐ سے واضح و روشن ہے۔
جیسا کہ اس حدیثِ مبارکہ میں ہے، حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخر تاریخ کو ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ ’’تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے، جس میں ایک رات (شبِ قدر) ہے جو ہزاروں مہینوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض ادا کیا، اور جو شخص اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسا غیر رمضان میں ستّر فرض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے، صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروائے اُس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہوگا، مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے، تو آپؐ نے فرمایا ’’(پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ جل شانہٗ ایک کھجور سے کوئی افطار کرا دے، یا ایک گھونٹ پانی پلادے یا ایک گھونٹ لسی پلادے اس پر بھی مرحمت فرما دیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت، اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں ہلکا کردے اپنے غلام و خادم کے بوجھ کو، حق تعالیٰ اُس کی مغفرت اور اسے آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔ چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں دو چیزیں اللہ تعالیٰ کی جن سے تم اپنے رب کو راضی کردو، کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے۔ اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی‘‘ (سبحان اللہ)۔
اس پیاری حدیث پر عمل کرکے بندہ اپنے رب کی رضا حاصل کرکے جنت کا حقدار بن جاتا ہے۔ میں اس حدیث کو پڑھ رہی تھی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس حدیث میں امت کو رمضان صحیح طریقے سے احکاماتِ الٰہی کے مطابق گزارنے کا لائحہ عمل بتایا ہے، اسی لیے اس ماہِ مبارک کو مسلمان کی تربیت کا مہینہ کہا گیا ہے۔ نفس کے مجاہدہ کا ذریعہ ہے یہ روزہ، لیکن آج اپنے نفس کا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس ماہِ مبارک کے تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل ہیں؟ معذرت کے ساتھ، ہم میں سے اکثریت اپنے نفس کی غلام ہوکر بے لگام گھوڑوں کی طرح سرپٹ دوڑ رہی ہے۔ ماہِ مقدس کی حرمت و تقدس کی پروا کیے بغیر وہی پرانی روشن، یعنی اردگرد وہی بے راہ روی کا سمندر رواں ہے۔ روزہ صرف خود کو بھوکا پیاسا رکھنے کا نام نہیں۔ جب ایک ایک چھوٹے عمل پر بے پناہ انعامات کی بارش ہے رب کریم کی طرف سے، تو گناہ پر بھی پکڑ لازمی ہوگی۔ بے شک مساجد نمازیوں سے پُر ہیں، اللہ اکبر کی گونج سے فضائیں معطر ہیں، لیکن ہمارے نفس پرانی روش پر قائم ودائم ہیں۔ دو تین دن پہلے چیف جسٹس صاحب سے عوام کی طرف سے گزارش کی گئی تھی کہ رمضان المبارک میں ٹی وی پر بے ہودہ نشریات کی روک تھام کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف ان نشریات پر قابو پانے کی صورت میں لاکھوں لوگ اس لہو ولعب اور گندگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں گے۔
جیسا کہ حدیث شریف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ کھانے پینے سے رکنے اور بچنے کا نام نہیں۔ روزہ تو حقیقت میں صرف بے ہودہ اور بے حیائی کی باتوں سے رکنے اور بچنے کا نام ہے، پس اگر تمہیں کوئی گالی بھی دے یا تمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو تم کہہ دو ’’میرا روزہ ہے‘‘۔
حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کس حد تک اس ماہِ مبارکہ میں بے حیائی سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ کو اپنے اردگرد اکثریت ایسے لوگوں کی نظر آئے گی جو روزے کا وقت گزارنے کے لیے ٹی وی کی نذر کردیتے ہیں۔ کسی کو میں نے یہ کہتے سنا کہ ’’میں ٹی وی دیکھ کر دوسروں کو تو تکلیف پہنچا نہیں رہا، اس طرح میرا وقت بآسانی گزر جاتا ہے‘‘۔ آپ بتائیں کہ کیا یہ روش درست ہے؟ مشائخ نے روزے کے آداب میں 6 امور تحریر کیے ہیں جن کا روزے دار کو خاص خیال رکھنا چاہیے:
(1) اپنے آپ کو لہو و لعب کی جگہ پر پڑے رہنے سے بچانا
(2) زبان کی حفاظت کرنا یعنی جھوٹ، چغل خوری، گالی گلوچ، غیبت، بدگوئی، بدکلامی، لڑائی جھگڑے سے باز رہنا۔
(3) کان کی حفاظت کرنا۔ ہر برائی جس کو بولنے سے منع کیا گیا ہے اسے سننے سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔ یعنی غیبت کرنے والا تو گناہ گار ہے ہی، سننے والا بھی گناہ گار ہے۔ فحش، بری باتوں، غیبت، چغلی جیسی خرافات سننے سے اپنے آپ کو بچانا لازمی ہے۔
(4) برائی کی طرف قدم بڑھانا اور برائی کو ہاتھ سے چھونا ناجائز ہے۔ افطار میں یا کھانے میں حرام چیز کھانے سے بچنا بھی اس میں شامل ہے، یعنی پاک صاف رزقِ حلال کا استعمال کرنا۔
(5) افطار اور سحری میں اعتدال سے پیٹ بھرنا۔ حد سے زیادہ پیٹ میں کھانا ٹھونسنے سے ہاتھ کو روکنا۔
(6) چھٹی اور آخری بات یہ کہ روزے کی حالت میں اس بات سے ڈرتے بھی رہنا کہ کیا معلوم میرا روزہ قابلِ قبول ہے یا نہیں، یعنی مجھ سے روزے کی حالت میں کوئی کوتاہی تو سرزد نہیں ہوئی؟ اور دیکھا جائے تو یہی چھٹی بات اہم ہے جس کی بدولت شروع کی پانچ باتوں کا روزہ دار اہتمام کرسکے گا۔ انہی چھ باتوں کا اہتمام کرنا بندے میں تقویٰ پیدا کرنے کا موجب ہے۔ تربیتِ نفس کی مشق انہی امور پر عمل پیرا ہونے سے مکمل ہوتی ہے۔ ان امور کو ذہن میں رکھ کر بندہ اپنا محاسبہ کرے کہ آیا میں احکاماتِ الٰہی اور سنتِ نبویؐ کے مطابق روزہ دار ہوں یا نہیں۔ روزے کو ڈھال بناکر اپنے نفس کو شیطان کی چالوں سے بچا کر بندہ رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے۔ اپنی روزمرہ زندگی کی اصلاح، اپنی زندگی کو منظم و چاق و چوبند اور صحت مند رکھنے کے لیے روزے سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ یعنی صرف آخرت کے فائدے ہی نہیں بلکہ دنیا کو سنوارنے میں بھی روزے کی افادیت سے انکار نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نہ صرف ماہ رمضان میں عبادات میں اپنے شب و روز گزارتے بلکہ اللہ کے بندوں کے سُکھ و آرام اور نفع کا خیال بھی رکھتے۔ حضرت ابن عباسؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رمضان المبارک کے معمولات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ماہِ مبارک میں آپؐ کی خیرات، بخشش اور مخلوقِ خدا کو نفع پہنچانے کی عادت مزید بڑھ جاتی۔
یہی عمل ہمیں صحابہ کرامؓ اور تابعین و تبع تابعین کی زندگیوں میں نظر آتا ہے۔ یہ اللہ کے معزز بندے دن و رات رب کے آگے سربسجود و تلاوتِ قرآن پاک، درود و تسبیحات کے ورد میں گزارنے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے نظر آتے۔ عام دنوں میں ہی کسی کو تکلیف دینے سے اجتناب برتتے تو اس ماہِ مبارکہ میں کیا کہنا۔ صرف اس ماہِ مبارک کے شب و روز ہم ان برگزیدہ بندوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گزاریں تو اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں، اسی میں ہماری فلاح ہے۔

حصہ