دورہ قرآن اور میری زندگی

4821
(مرتبہ۔نورین صدیقی، عائشہ برجیس، شعبہ تشہیر و ترویج ،جامعات المحصنات پاکستان)
قرآن کریم وہ نسخہئِ کیمیا جو چودہ سو سال سے انسانوں کی زندگی میں اجالے بکھیر رہا ہے۔مس خام کو کندن بنا کر افراد کی سیرت و کردار کو اوج کمال تک پہنچانا اور اخلاقی رذائل پر فخر کرنے ولوں کو اخلاقی فضائل کا حامل بنا دینابس اس کتاب کا ہی معجزہ ہے۔ جس نے اس کتاب کا دامن تھام لیا اور اسے اپنے دل میں اتار لیا اس کی زندگی سعادت بن جاتی ہے۔رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔اس مہینہ میں نبی کریم ﷺ دورہ قرآن کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔الحمدللہ جماعت اسلامی کو یہ اعزا زحاصل ہے ہے کہ اس کے تحت وطن عزیز میں سینکڑوں مقامات پر دورہ قرآن کا اہتمام کرکے پیارے نبی ﷺ کی اس سنت کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ افراد کی اخلاق و کردار کو سنوارنے کی سعی کی جاتی ہے۔قرآن کی تعلیمات نے بے شمار لوگوں کی زندگیاں بدلیں اور بے شمار لوگ اس سے روشنی لے کر اب اس نور کو آگے منتقل کرنے کے عمل میں شریک ہیں۔۔ ہم نے اس سلسلے میں جامعات المحصنات کی پرنسپلز سے ان کے دورہ قرآن کے ذریعہ تبدیلی کے سفر کی بابت معلوم کیا۔ ان سے موصولہ جوابات نذر قارئین ہیں۔
(شہناز فاروق،پرنسپل جامعۃالمحصنات اسلام آباد)
الحمدللہ میں نے دینی گھرانے میں آنکھ کھو لی ۔امی جان نے باقاعدہ دینی کورس تو نہیں کیا لیکن قرآن سے محبت ان کی مثالی ہے۔ ہم سب بہن بھائیوں کو امی جان نے ہی ناظرہ پڑھایا جیسا ان کا اپنا تعلق قرآن سے تھا ویسا ہی ہمارا تعلق بھی قرآن سے جوڑنے کی بھر پور کوشش کی بچپن ہی سے باقاعدگی سے تلاوت قرآن کرواتیں اور ساتھ کہتیں تلاوت قرآن کے بغیرکسی کام کو ہاتھ مت لگانا ۔تلاوت کے بغیر جو کام بھی کرو گے وہ برکت سے خالی ہوگا ۔یہ محبت اور تعلق شعور سے خا لی تھا ۔تھرڈ ائیر میں میں نے اسلامی جمعیت طالبات میں شمولیت اختیار کی ۔جمعیت نے اس تعلق کو شعور دیا ہاسٹل میں طالبات کو درس قرآن دیتی تھی شوق تو بڑھ رہا تھا لیکن تشنگی تھی کہ میں کسی ماہر سے قرآن کا ترجمہ تفسیر سیکھوں اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی بہت کرتی تھی ۔اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو سن لیا۔اسلام آباد شفٹ ہونے کے بعد جامعہ میں جاب شروع کی وہیں باقاعدہ قرآن کی کلاسزمیں ترجمہ اور تفسیر پڑھی ۔جامعہ کی طالبات منصورہ دورہ قرآن کے لئے جاتی تھیں اور جب وہ دورہ تفسیر کے بارے میں تاثرات بتاتی تو میں بھی اللہ تعالی سے بہت دعائیں کرتی یا اللہ مجھے بھی ایسا موقع مل جائے کہ میں دورہ قرآن کسی عالم سے کروں اللہ تعالی نے میری دعا کو سن لیا ایک مقامی ادارے میں خواتین کے لئے دورہ قرآن کا اہتمام کیا گیا میں نے اس میں شرکت کی اسلام آباد کی دینی و علمی حلقوں کا ایک بڑا نام محترم خلیل الرحمن چشتی سے میں نے پہلا دورہ قرآن لیا۔ اس دورہ قرآن نے نہ صرف ظاہر و باطن کو جلا بخشی بلکہ زندگی کے نصب العین کو سمت عطا کی ان کا انداز اتنا متاثر کن تھااور آیات کا ربط آپس میں اس انداز میں کرتے کہ پورا قرآن سمجھ میں آگیا کہ قرآن کی دعوت کیا ہے ۔انہوں نے تفسیر کے اصول اور قرآن سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کرنا سکھایا ۔بحیثیت قرآن کی مدرسہ میں تو سب سے کہتی ہوں کہ ضرور وقت نکال کر دورہ قرآن لیں۔آپ پڑھنا شروع کریںشعوری اور حقیقی تبدیلی اللہ کے فضل و کرم سے ضرور آجاتی ہے ۔اس دورہ قرآن کے بعد اب میں ہر سال خود دورہ قرآن کرواتی ہوں او کوشش رہتی ہے کہ اسی طریقے پر کروائوں جس طریقے پر میرے استاد محترم نے کروایا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے ہمارے لئے قرآن پر عمل کرنا ،اس کی دعوت کو پھیلانا اس پر غور و فکر کرنا اور اس کا حق ادا کرنے کوآسان کردے ،قرآن کو ہمارے حق میں حجت بنادے ۔آمین
( شازیہ عبد القیّوم : پرنسپل جامعتہ المحصنات اٹک )
میں نے اپنا پہلا دورہ قرآن آج سے آٹھ نو سال پہلے جامعہ خیرآباد میں لیا جہاں زینب معراج میری ٹیچر تھیں ۔ جامعہ میں، میں قرآن کی کلاس لینے جاتی تھی ۔پھر وہیں معلوم ہوا کہ رمضان میں دورہ تفسیر ہوگا۔ اس میں میں نے بہت ذوق و شوق سے شرکت کی۔ اس سے قبل میں ایک روایتی مسلمان تھی۔ بس نماز پڑھ لی روزہ رکھا۔ پردہ بھی چادر کی حد تک محدود تھا۔تبدیلی کا آغا زیوں تو اس نو دس ماہ کے عرصہ میں شروع ہو گیا تھا جب میں جامعہ سے وابستہ ہوئی تھی۔لیکن دورہ قرآن نے شعوری مسلمان بننے میں بنیادی کردار ادا کیا۔میرے معاملات، اخلاق ،لباس بات چیت وغیرہ میں بھی تبدیلی آئی۔ قرآن نے ہمیں بتایا کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے ار ہمارا مقصد اپنی زندگی کو خدا کے احکام کے تابع کرنا اور اللہ کے دین کی ترویج کے لئے کام کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن ایک کتاب انقلاب ہے۔ بعد میں ،میں نے خود جب اپنے گائوں ’’اٹک خورد‘‘ میں ذیلی جامعہ بنائی اور وہاں دورہ قرآن لیا تو تبدیلی کے اس سفر کو وہاں بھی دیکھا۔ وہاں ایک بار میرے پاس دو ایسی خواتین نے آنا شروع کیا کہ جن کی بد مزاجی ، جھگڑالو پن پورے گائوں میں مشہور تھا۔ حتیٰ کہ وہ مردوں کا بھی لحاظ نہ کرتیں ۔ لیکن جب انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو ان کی اخلاقی حالت، بول چال، مزاج ہر چیز بدل گئی۔ یہ ہے قرآن کا عجاز کہ جواس سے وابستہ ہو جائے وہ ضرور خیر ہی پاتا ہے۔اللہ ہمیں اس قرآن سے خیر سمیٹنے اور پھیلانے والا بنائے۔ آمین
نجمہ اشفاق ، پرنسپل جامعۃ المحصنات ایبٹ آباد
 دورِ طالبِ علمی کی بات ہے کہ میں اپنی زندگی میں مگن تھی ۔زندگی کا مقصد نگاہوں سے اوجھل تھا ۔نماز پڑھتے تھے مگر بڑوں کے ڈر سے کہ کوئی پوچھے گا تو کیا بتائیں گے کہ نماز پڑھی ہے کہ نہیں ۔قرآن بھی پڑھتے تھے مگر بغیر سمجھے۔اگرچہ ناظرہ قرآن کا ہم کزنزکے درمیان باقاعدہ مقابلہ ہوتا تھا کہ دیکھتے ہیں کون قرآن جلدی مکمل کرے گا اور کتنی مرتبہ کرے گا ۔خصوصاََ(رمضان میں )لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ کتاب جو ربِ کریم کی طرف سے ہدایت نامہ ہے ۔اس میں کیا لکھا ہے؟؟؟
 اسی خیال نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔یہ کیسے ممکن تھاکہ جس کی خاطر نکلی تھی وہ مسیحائی نہ کرتا ۔بہت ہی شفیق و مہربان رب نے جامعتہ المحصنات کی راہ دکھائی ۔وہیں پر جا کر قرآن کی تفسیر کا مطالعہ کیا۔ پھر پتہ چلا کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے۔اور یہ کہ ہم دنیا کی رنگینیوں میں گم نہ ہوں بلکہ اپنی زندگی کو اطاعتِ الٰہی میں گزاریں اور اسی کے ہو کررہیں۔قرآن جیسے جیسے پڑھتی گئی ذہن کے دریچے کھلتے گئے۔دورئہ قرآن نے اپنی ذات کی پہچان کرائی اور زندگی کے حقیقی نصب العین سے روشناس کرایا۔رب کی رضا کے حصول کا طریقہ بتایاور یہ بھی کہ اس علم کی اشاعت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آج الحمدللہ میں قرآن کے ذریعہ تبدیلی کے عمل میں شریک ہوں ۔ ؎ میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
 میری دعا ہے کہ ربِ کریم ہمیں اس کتاب کے مطابق عمل کرنے اور اسے آگے بڑھانے والا بنائے ۔ ( آمین )
 مہہ جبین : پرنسپل جامعتہ المحصنات لاہور
 قرآن کریم ایک عظیم معجزہ ہے جوانسان کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتا ہے،تاکہ لوگ اپنی زندگی کے تمام شعبہ ہائے امورکی کماحقہ مطیع و مسلم بن جائے۔
 اللہ کے فضل و کرم سے جب میں نے سرزمینِ عرب میں عربی کی تعلیم حاصل کی اور دین کا بنیادی علم حاصل کیا تو پھر کلام اللہ نے میرے دل کی زندگی کو ہی بدل دیا اس نے میرے شعور پر ایسا اثر کیا کہ اس کی تاثیر نے میرے دل کے گناہوں ،غفلتوں اور کوتاہیوں کو دور کیا ۔اس کی حلاوت آہستہ آہستہ میرے دل میں بڑھتی گئی اور تمام احساسات میں زندگی کا احساس پیدا ہوااور مقصدِ حیات سے واقفیت ہوئی ایسا لگا جیسے ایک نئی زندگی شروع کی ہے گویا کہ:
’’ قرآن ایک روح ہے جس نے دل میں جا کر نئی زندگی بخشی ہو ۔ ‘‘
 میں جب بھی قرآن پڑھتی یا سنتی ہون تو حالات و واقعات اور مناسبت کے اعتبار سے تمام حالات وا قعات کو محسوس کرتی ہوں ۔کلام اللہ کلامِ عظیم وکلامِ انقلاب جو بلاغت کے ساتھ مزیّن ہے اس کی تلاوت کا مزہ ہی اس وقت آتا ہے جب ہمیں عربی زبان کے بنیادی مضامین کا علم ہو جیسے عربی گرائمر،اصولِ تفسیر ،بلاغت اور علم تجوید۔اللہ کا شکر اور احسانِ عظیم ہے اب مجھے اس کلاس کو سمجھنے کے لئے کسی ترجمے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ہمیں چاہیئے کہ قرآن کی تعلیم حاصل کریں یا کم از کم اتنا تو سیکھ لیں کہ جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں تو ہمیں علم ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کیا باتیں کر رہے ہیں کیونکہ جب کسی کا خط آتا ہے تو ہم اس کو ہر طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اگرچہ کہ دوسری زبان میں ہی کیوں نہ ہو لٰہذا کلام اللہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اللہ کے اس خط کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے کیونکہ اس میں ہمارے لئے ہدایت کا سامان ہے۔
( فوزیہ سلیمی ، پرنسپل جامعۃ المحصنات ملتان )
 قرآن وہ عظیم کتاب جس کی محض تلاوت بلاشبہ اپنا وجود رکھتی ہے مگر کمال درجے کی بھلائی اور نیکی تو یہ ہے کہ جب اس کے اصل معانی اور اس کی آیات کے اصل پیغام کو اپنی روح میں اترتا محسوس کیا جائے۔
 یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب انسان کسی ایسی محفل یا جماعت کا زندہ حصّہ بن جائے جہاں فہمِ قرآن کے لئے شوق ، تڑپ اور اِدراک کی آبیاری کی جاتی ہو۔قرآن کا فہم وہ عمیق سمندر ہے جس میں جتنی بار یا جب بھی غوطہ زن ہوا جائے پہلے کی نسبت زیادہ قیمتی موتی ہاتھ آتے ہیں ۔
 میں اپنے اس دورئہ قرآن کا ذکر ضرور کروں گی جس کا تجربہ مجھے۲۰۰۸ ؁ء میں ہوا۔ اس وقت ہم کینیڈامیں مقیم تھے اور وہیں ایک ادارے کے تحت دورہ قرآن کرایا گیا۔یہ مقدّس کام تقریباََ سوا سال جاری رہا ۔اس دوران بارہا اپنی کم ادائیگی کا احساس ہوا ۔
 لفظی و با محاورہ ترجمہ ،تفسیر، عربی گرامر اور تجویدکی کلاس نے مجھے اس خوشبو کا ہمسفر بنا دیا جو چہار سو پھیلی رہتی تھی۔ تعلّم کا یہ خوبصورت اور مہکا مہکا سفر طے کرتے کرتے ہمارا وہاں آخری روز بھی آن پہنچا جس کی سکینت بھی اس قدر روح پرور اور خوش کن تھی کہ سارا ماحول بھی اس میں گم ،ربِّ کریم کے حضورجھکے جھکے مکمل وجود، جل تھل آنکھیں اور روح کے اندر سے نکلتی ہوئی سسکیاں اور دبی دبی چیخیںسب ہی کو ایک دوسرے سے بے نیاز پا کر فضا میں عجب کیفیت برپا کر رہی تھیں جیسے کم از کم میرا قلم بیان کرنے سے قاصر ہے ۔پر حالت اس وقت عجیب ہوئی جب قرآن مجید کی ان آیات سے پروگرام کا آغاز ہوا ۔
’’ جس دن تم مردوں اور مؤمن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان ( کے ایمان ) کا نوکر ان کے آ گے اور دا ہنی طرف چل رہا ہے ( تو ان سے کہا جائے گا کہ ) تم کو بشارت ہو کہ ( آج تمہارے لئے ) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں ہمیشہ رہو گے ۔۔۔ یہی بڑی کامیابی ہے ۔۔۔ ‘‘
(سورۃ الحدید آیت : ۱۳ )
 مگر ترجمے سے پہلے ہی ہر طالب علم جو ترجمہ سیکھنے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا اس کے مطلب کو سمجھ کر یوں سسک سسک کر رو رہا تھا جیسے کسی مجرم کو اس کے جرائم یاد آجائیں اور احساس جرم اس کو تڑپا تڑپا کر رُلا رہا ہو۔
 تب میں نے جانا کہ اس دلگداز کیفیت کے لئے قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا لازم ہے۔قرآن کا مطلب جانے بغیر نہ اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی مثبت نتائج کی امید کی جا سکتی ہے اس مقدس و عظیم کتاب کافہم و ادراک ہی قلب و ذہن کو پاکیزہ ٰ اورسوچ کو برتر بنا سکتا ہے۔اسی کے دم سے فکر کے زاویے قائم اور تفکر کے دریچے وا ہوتے ہیں ۔ذاتی و اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا ہوتا ہے، تاریکیاں چھٹتی اور سویرا صبح نمودار ہوتا ہے۔پاکیزہ خیالات کے سَوتے تبھی پھوٹ سکتے ہیں ،ہاں تبھی پھوٹ سکتے ہیں ۔
 (فریدہ عظیم ،پرنسپل جامعۃ المحصنات لاڑکانہ )
 وہ ایک ناسمجھی کی زندگی تھی گو کہ مذہبی گھرانا تھا۔نما ز ،روزہ ،پردہ ہر چیز کرتے تھے مگر ایک عام مسلمان کی طرح سب ہی کچھ ہو رہا تھا۔تصویریں بنانا، مووی ،رسم و رواج ،فیشن یعنی زندگی کو انجوائے منٹ کا دوسرا نام سمجھتے۔
 ۱۹۹۰ کو میری زندگی میں انقلاب آیا ۔ میں نے ایک بار اپنی کچھ ساتھی طالبات کے کہنے پر پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت طالبات کے ایک پروگرام میں شرکت کی۔ وہاں کا سکینت بھرا ماحول جیسے میرے وجود پر چھا گیا ۔ اور جب میں وہاں سے نکلی تو ان طالبات نے مجھے مولانا مودودی کی کتاب پردہ پڑھنے کے لئے دی۔میں جوں جوں اس کا مطالعہ کرتی جاتی تھی مجھے اپنے آپ سے شرم آتی جاتی تھی ۔اس کے بعد دو سال کے اندر میں نے تفہیم القرآن کا پورا مطالعہ کر لیا۔پھر بعد میںجماعت کے حلقے میں بھی آگئی اور پھر متفق کارکن ،رکن اور ناظمئہ شہر بنی،بیٹھک اسکول چلایا ، ہر ہر مرحلہ میں تبدیلی اور ارتقا کا ایک سفر جاری رہا ۔درس کا آغاز ۱۹۹۰ء میں قرآن کی اس محفل سے ہوا تھا۔میری زندگی کو ایک مقصد ملا اور یہ میرے اللہ کا احسان ہے ۔ اس دوران یہ بھی احساس ہو اکہ ایمان کی حالت گھٹتی اور بڑھتی جاتی ہے۔ بس کوشش کرتے رہنا ہمارا کام ہے۔
 مئی ۱۹۹۹میں لاڑکانہ آئی اور جامعہ لاڑکانہ کے افتتاح میں شرکت کی ڈیڑھ سال بعد جامعہ میںبطور پرنسپل آگئی اور یہاں بھی قرآن پڑھنے پڑھانے کا یہ سفر جاری ہے۔ قرآن ہماری زندگیوں کے لئے بہترین رہنما ہے بس ہمیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
خدا کرے کہ ہم ہمیشہ قرآن سے وابستہ رہیں۔ (آمین)
(ثوبیہ فرحانہ ، پرنسپل جامعتہ المحصنات جھنگ)
 الحمداللہ دینی گھرانے سے تعلق کی وجہ سے گھریلو فضا قرآن کی تلاوت اوراس کی عقیدات سے مانوس تھی۔میٹرک سے قبل ہی اسلامی جمیعت طالبات سے وابستگی نے قرآن اور قرآن والوں سے تعلق بہت مضبوط کر دیا۔ اس دوران دورہ قرآن بھی کئے اور کروائے اور ان سے بہت کچھ اثرات سمیٹے لیکن دس بارہ سال قبل جامعہ جھنگ میں جو دورہ قرآن میں نے اٹینڈ کیا وہ میری زندگی کاایک بہت بہترین تجربہ تھا۔ ہمارے بیران شہر سے آئے ہوئے استاد نے بہت بہترین انداز سے قرآن کی تعلیمات اور تذکیر کا فہم دیا۔
 یہ حقیقت ہے کہ قرآن پر ہم جتنا اس پر غور و فکر کریں گے تو یہ ہماری زندگیوں پر اثرات ڈالے گا۔ ہمارے استاد محترم نے چالیس تفاسیر سے ہمیں قرآن پڑھایا ۔انہوں نے تفہیم القرآن کی اہمیت کے حوالے سے ذکر کیا کہ دورئہ قرآن کی تیاری کے سلسلے میں انہوں نے ۴۰ تفاسیر کا مطالعہ شروع کیا اور جب ان تفاسیر کے مطالعے کے بعد تفہیم القرآن کا مطالعہ کیاتو اس میں وہ تمام مواد موجود تھا جو دیگر تفاسیر میں تھا ۔یہ بات سن کر مولانا مودودی کا رتبہ دل میں اور زیادہ بڑھ گیا ۔
 دورہ قرآن میں ایک اوربہت اہم بات جس نے زندگی پر اثر ڈالا وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بھی طرح کی زبردستی کا option ہے ہی نہیں ۔وہ خیر و شر کے معاملے میں کبھی بھی زبردستی نہیں کرتا ۔یہ کّلی طور پرانسان کے اختیار میں کر دیا ہے کہ وہ کس راستے پر چلتا ہے۔ نہ خیرکے لئے آپ پر کسی کا زور چلے گا اور نہ شر کے لئے شیطان آپ سے زبردستی کر سکتا ہے البتہ جب ہم کسی ایک راستے پر دلچسپی اور ارادہ ظاہر کر دیتے ہیں پھر خیر ہو یا شر ہمارے لئے راستے آسان کر دیئے جاتے ہیں ۔لہٰذا اچھے اور برے اعمال کا ذمہ دار دوسروں کو نہیں ٹھیرا سکتے جس کے ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں ۔
 یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ قرآن کا مطالعہ مسلسل کریں گے تو یہ عقل و دانش کے راستے پر جائے گا اور رحمت و برکت کے دروازے کھولے گا ۔اور جتنا اس سے کم تعلق ہو گا قرآن دلوںسے نکلتا جائے گا۔ مجھے یہ تجربہ بھی ہوا کہ قرآن کے مطالعے کے لئے وقت بڑھایا تو اللہ نے وقت میں برکت ڈالی اور اہلِ خانہ پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
 (ذکیہ منہاس،جامعتہ المحصنات چترال )
 اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ۔۔۔
ترجمہ: اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔
 ؎ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
 اللہ کرے تجھے عطا جدّت کردار
 ۲۰۰۷ میں چترال کے دور دراز قصبوں کے لئے دورہ تفسیر کا آغاز ہوا۔ جس سے بے شمار طالبات مستفید ہوئیں۔۲۰۱۴ سے میں بھی باقاعدگی سے دورئہ تفسیر میںشرکت کرتی ہوں ۔دورئہ تفسیر کرنے کے بعد میری زندگی میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ۔اب سب سے پہلے میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جتنا پڑھا ہے اس پر خود عمل کروں کیونکہ جب ہم میں عمل ہو گا تو لوگ بھی خود بخود ہم سے سیکھیں گے ۔پہلے اور بعد والی زندگی میں بہت فرق ہے ، پہلے تو ہنسی خوشی زندگی گزار تے تھے۔لیکن سکون نہیں تھا۔ اب فضول چیزوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اللہ کی رضا میں ہر حال میں خوش رہتی ہوں ۔قرآن و سنت کی زندگی سے جڑے رہنے سے دنیاوی عزت تو ملتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آخرت کی فکر بھی اجاگر رہتی ہے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس بھی ہوتا ہے۔مولانا مودودی ؒ فرماتے ہیں : ’’میرے لئے یہ قرآن شاہ کلید ہے۔مسائلِ حیات کے جس قفل پر اس سے لگاتا ہوں کھل جاتا ہے‘‘۔جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے ۔
 مختلف علاقوں میں دورئہ تفسیر کرانے کا مقصد یہ ہے خواتین تک قرآن کا پیغام پہنچائیں اور اس پیغام سے واقف ہونے کا اثر ان کی زندگی اور طرزِ عمل پر پڑے اور وہ شرک اورجاہلیت کے اثرات سے خود کو اور اپنے گھروں ،اپنے خاندان،ہمسایوں اور اپنے ملنے جلنے والوںکے گھروں کوبھی بچائیں ۔
 خواتین جماعت اسلامی کے تعاون اور امت الرقیب خالہ جان اور ان کی پوری ٹیم نے علم کی روشنی کو چترال کے پہاڑوں پر روشن کیا ہے۔اور گلشنِ اسلام کی مقدس شہزادیاں اس علم کی روشنی سے مستفید ہوتی ہیں اور دیئے سے دیئے کو جلا رہی ہیں ۔پچھلے رمضان میں عالیہ کی طالبات نے اپنے علاقوں میں دورئہ تفسیر کرائی تھی اور اس سال بھی ان شاء اللہ شھادۃالعالیہ اول اور دوم کی طالبات اپنے علاقوں میں دورئہ تفسیر کریں گی۔جس سے قرب و جوار کے لوگوں کو بھی فائدہ ہو گا ۔اللہ پاک ان کی جان و مال میں برکت عطا فرمائیں اور تمام دینی مدارس کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا کرے۔( آمین )
 ( عائشہ ظہیر : پرنسپل جامعتہ المحصنات سکھر)
 الحمدُاللہ بحیثیت مسلمان قرآن کی تلاوت اور اس کا احترام پہلے سے ہی موجود تھا لیکن دورئہ قرآن کے بعد عمل اورفکر میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی دل کی گہرائیوں سے اس کتاب کی عظمت کا احساس پیدا ہوا ۔شدت کے ساتھ احساس پیدا ہوا کہ قرآن پاک اللہ کی طرف لے جانے والا واحد اور یقینی راستہ ہے۔اس احساس نے میرے اندر مسّرت اور مٹھاس پیدا کر دی۔روحانی خوشی پیدا ہوئی۔قرآن کے پانچ حقوق جن سے میںغافل تھی ایمان لانا، سمجھنا، پڑھنا، پھیلانااور عمل کرنا ان سب سے آگاہی ہوئی۔
 ہر آیت پر شدّت سے یہ احساس ہوا کہ کوئی کتاب اس کی مثل نہیں ہو سکتی۔جیسے جیسے آگے پڑھتے گئے احسا س ہوتا گیا کہ یہ ایک زندہ کتاب ہے ایمان میں نئی حرارت پیدا ہوئی اور روح کی گہرائیوںکو منوّر کر دیا۔آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے پھر قرآن کے مطابق زندگی گزارنے کی جدّ وجہد شروع کی ۔دورئہ قرآن کے بعد دل میں یہ تمنّا ہوئی کہ اب قرآن کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرنا ہے۔ قرآن کے پیغام کو گھر گھر پھیلانا ہے۔ ’’قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو !‘‘
(رقیہ جبین، پرنسپل جامعۃ المحصنات حب)
 دورہ قرآن سے وابستگی الحمدللہ جامعہ سے تعلق سے پہلے سے ہے۔ دورہ قرآن خود بھی کرواتی ہوں۔ دورہ قرآن سے میری زندگی میں کافی تبدیلی آئی قرآن سے میرا تعلق اور زیادہ گہرا ہوگیا ۔دورہ قرآن کروانے کا مقصد ہی دراصل قرآن سے لوگوں کو جوڑنا ہوتا ہے ۔دورہ قرآن ہی کے ذریعے ہمارے اندر تقوی کی صفت پیدا ہوتی ہے اور رمضان میں دورہ قرآن کروانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ہم اس ایک مہینے میں اپنے اندر وہ تبدیلی لائیںجو پورے سال ہمارے لئے بامقصد اور مفید ثابت ہو۔ ہم اپنی پوری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کے خوف میں گزار دیں۔اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جو قرآن سیکھتے اور سکھاتے ہیں ۔آمین
(ثمینہ اقبال۔پرنسپل جامعۃ المحصنات پشاور)
 میری عملی زندگی کا آغاز ۲۰۰۲ء میں ناظمہ ضلع پشاور کے دعوتی درس سے ہوا ۔اور آہستہ آہستہ قرآن سمجھ آنے لگا ۔تو اپنی پچھلی زندگی کی غفلت پر بہت رنج ہوا ۔لیکن پھر قرآن ہی نے جگہ جگہ تسلی دی کہ اب جتنی مہلت اللہ نے دی ہے۔ اس میں پچھلی زندگی کی کمی بھی پوری کر لو اور اس مشن کو آگے لے کر چلوجو نبی ﷺ نے ہمارے لئے چھوڑا ہے ۔کچھ ماہ بعد رمضان کا ماہِ مبارک شروع ہونے والا تھا۔تو معلوم ہوا کہ رمضان میں دورئہ تفسیر کا اہتمام ہو گا اور تمام قرآن ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھایا جائے گاتو سوچا کہ گھروں کے کاموں سے کیسے وقت ملے گاعید کی تیاری بھی ہو گی لیکن ایک لگن تھی کہ یہ رمضان پچھلے رمضانوں کی طرح ضائع نہیں کرنا۔ہر سال تو ناظرہ پڑھ پڑھ کررمضان گزارتے تھے اب کے سمجھ کر پڑھنا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور جو کام رمضان میں کرتے تھے وہ شعبان میں ہی کر لئے اور جب دورئہ تفسیر شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ واقعی رمضان المبارک تو صرف قرآن کا مہینہ ہے ۔ زندگی میں ایک بڑی تبدیلی محسوس ہوئی ۔
 تقریباََ تین سال تک دورئہ قرآن سنا اورجماعت اسلامی کی حلقہ خواتین میں زیرِ تربیت رہی ۔پھر قرآن پاک پڑھانے کا تجربہ ہوا۔ یہ ایک حیران کن بات ہے کہ جب اجتماعیت میں خواتین کو بتا رہی ہوتی توکوئی ایک نئی بات قرآن سے میرے ذہن میں آتی کہ میں خود حیران ہوجاتی کہ پچھلے سال بھی دورئہ قرآن کیا تھا تب تو یہ بات ذہن میں نہیں آئی اصل میں یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جتنا زیادہ غور و فکر کریں گے جتنا زیادہ پڑھیں گے اتنا ہی علم کے دروازے کھلتے جائیں گے۔
 پہلے دورئہ قرآن سننے کے بعد میری زندگی میں جو تبدیلی آئی وہ یہ کہ میں نے تمام بدعات چھوڑیں مہندی اورمایوں کی رسموں میں جانا چھوڑاحتیٰ کہ اپنے چھوٹے لاڈلے بھائی کی بھی ان تمام فضول رسموں شرکت نہ کی ۔ان شادیوں میں شرکت نہ کرتی جن میں موسیقی ہو۔چاہے جتنا بھی نزدیکی رشتہ کیوں نہ ہو۔ اپنی تینوں بیٹیوں کی شادیوں میں ان تمام فضول رسموں سے اجتناب کیا ۔غیبت ،حسد ،جھوٹ سے پرہیز کا خود بھی اور گھر میں اہتمام ہوا۔اولادخصوصاًبیٹوں کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ رکھی کہ خاندانوں کو جوڑنا ایک عورت کا ہی کام ہے۔ بہرحال بہت سارے واقعات ایسے ہیںجو قرآن کی برکتوں سے وقوع پذیر ہوئے۔اور اب بھی ان کی یادیں اکثر ستاتی ہیں۔اور جب قرآن پڑھو تو وہ تمام ساتھ یاد آتے ہیںاور وہ لوگ جب بھی ملتے ہیں تو قرآن کی وابستگی کی وجہ سے جو محبت اور خلوص دیتے ہیں وہ قرآن کریم کی وجہ سے ہے ۔
 (نورالنساء، جامعۃ المحصنات سنجھورو)
 جامعۃ المحصنات میںدوران تعلیم دورہ تفسیر منعقدہ منصورہ لاہورکا حصہ بننے کا موقع ملا ۔ اس دوران مرکز منصورہ میں اجتماعی ماحول اوراکابرین سے مل کر قرآن فہمی کا عملی مظاہرہ دیکھا اور اندازہ ہوا کہ صرف تعلیم ہی تبدیلی کے لئے کافی نہیں بلکہ ماحول اور صحبت صالح ضروری ہے ۔جیسے جیسے قرآن دل میں اتر رہا تھا تو گویا نگاہوں کو بصیرت کے نئے زاویے ملے۔ہماری رائج رسومات کا تعلق جب قرآنی احکا م سے کیا تو ہماری خود ساختہ رسوم کا نتیجہ صفر نکلا۔اور پھر اندر اور باہر تبدیلی کا ایک طویل سفر تھا جو اس کے بعد شروع ہواجسکے ایک طرف میں مخالفتیں بھی تھیں، حوصلہ شکنی بھی اور دوسری طرف بہترین اساتذہ اورساتھیوں کی ہمت افزائی اور دعائیں بھی۔آج جب ا ندرون سندھ کے اپنے اس چھوٹے سے گائوں میں کہ جہاں افراد وضو،نماز اور موت و زندگی کے دینی شعائر سے بھی ناآشنا تھے ،میں تبدیلی کا عمل دیکھتی ہوں تو سر اللہ کے سامنے جھک جاتا ہے کہ یہ سب قرآن پاک کا ہی اعجاز ہے۔آج اسی گائوں سے بہت سے افراد دین کی ترویج اور نظم سے وابستہ ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ ہم ایسی اجتماعیت اور جامعہ سے وابستہ ہیں جو ہمیں اللہ سے جوڑنے کا سبب بنی۔قرآن نے ہی ہمیں اجتماعیت سے جڑنا سکھایا کہ اس کے لئے عملاً ایثار، خود پر دوسروں کو ترجیح دینی پڑتی ہے ۔تبھی سیسہ پلائی دیوار بننے کا عمل مکمل ہوتا ہے ۔قرآن ایک روشنی مینارہ ہے اللہ ہمیں اس سے بہترین انداز میں مستفید ہونے والا بنائے ۔آمین۔
حصہ