حضرت مہدی ؑ مودو

662

سیدہ عنبرین عالم
حضرت مہدی ؑ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ وعدہ ہیں جو قیامت کے نزدیک پورا ہوگا‘ ان کے بارے میں کثرت سے احادیث موجود ہے جو یقینا آپ کی نظر سے بھی گزری ہوں گی۔ محترم مہدی ؑ کا نام لے کر اکثر فتنے بھی کھڑے کیے گئے اور کئی جھوٹے نبی بھی خود کو مہدی کہلانے لگے‘ جو کہ جلد ہی پکڑا جانے والے جھوٹ ثابت ہوئے‘ ہم جس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں‘ وہ ختم نبوت اور حضرت مہدی کے ظہور کے بارے میں پیدا ہونے والے خدشات ہیں‘ بعض لوگ حضرت مہدیؑ کی آمد کے اس قدر قائل ہیں کہ ختم نبوت کو بھی نہیں مانتے اور کسی بھی جھوٹے کو حضرت مہدی سمجھ بیٹھتے ہیں جب کہ کچھ لوگ ختمِ نبوت میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ اصل حضرت مہدی اور مسیح موعود کو بھی جھوٹا نبی نہ قرار دے دیں‘ ہمیں بالکل اندازہ ہے کہ یہ ایک حساس موضوع ہے اس لیے ہم ان شاء اللہ احتیاط سے بات کریںگے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو مکمل قائل ہونا پڑے گا کہ حضرت مہدی ؑ یا مسیح موعود کی آمد بالکل سر پر آن پہنچی ہے‘ جس قدر غلیظ اخلاقی اقدار اور نجس روایات فروغ پا رہی ہیں‘ جس قدر ظلم اور بے انصافی کا ماحول ہے اور اللہ کے چاہنے والوں کو جس بے دردی سے کنارے لگا کر شیطانی و دجالی نظام قائم کیا جا رہا ہے یہ سب اس بات کی غمازی کر رہ اہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مداخلت اب ناگزیر ہے اور بات انسان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ مسلم امہ نے بھی بنی اسرائیل کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کی کتاب کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اللہ کی آخری کتاب عملی طور پر کسی خطے میں رائج نہیں ہے‘ ذاتی یا معاشرتی زندگی میں اس کا عملی نفاذ ممکن نہیں رہا‘ انسان چاہے جتنا بھی اس کتاب پر عمل پیرا ہونا چاہے‘ کہیں نہ کہیں سود سے واسطہ پڑ ہی جاتا ہے‘ کسی نہ کسی بے حیا عورت پر نظر پڑ ہی جاتی ہے اور کچھ نہ کچھ جائز کام لیے رشوت بھی دینی پڑتی ہے یعنی معاشرہ اس قدر شیطان کے نرغے میں چلا گیا ہے کہ قرآن کریم کسی طرح سدھار پیدا نہیں کر پا رہا‘ اللہ کی دخل اندازی ہمیشہ نئے پیغمبر یا نئی الہامی کتاب کے ذریعے معاشرے کے مکمل انتشار کو فلاحی معاشرے میں تبدیل کر دینے کی صورت میں ہوتی ہے‘ جو نہیں مانتا وہ مٹا دیا جاتا ہے‘ لہٰذا قیامت کی کئی نشانیوں کے پورا ہونے کے بعد اب تقریباً وہ وقت آتا محسوس ہو رہا ہے کہ اللہ کا ڈنڈا کام کرنے لگے‘ یعنی اللہ کی دخل اندازی‘ ختم نبوت ہوچکا‘ لہٰذا صرف حضرت مہدیؑ یا مسیح موعود ہی آسکتے ہیں۔
کیا حضرت مہدی ؑیا مسیح موعودؑ کا نزول‘ ختم نبوت پر ایک سوالیہ نشان ہے؟ نہیں کیونکہ قرآن متروک نہیں ہوگا بلکہ اس کو دوبارہ نافذ العمل کیا جائے گا‘ قرآن کو زندہ کیا جائے گا‘ حضرت محمدؐ شریعت مکمل کرچکے‘ اس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں لہٰذا حضرت مہدی ؑ یا مسیح موعودؑ نئی کتاب لے کر نہیں آئیں گے‘ وہ قرآن کو ہی موجودہ دور کے مطابق قابلِ عمل بنائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی کئی ایسی آیات تھیں جو سمجھ سے بالاتر تھیں اور موجودہ صدی کی نئی سائنسی توجیہات کی روشنی میں ہی ہم ان کا اصل مفہوم سمجھ پائے‘ جیسے سورۃ الطارق میں جس تارے ’’طارق‘‘ کا ذکر ہے وہ اب ہمیں سمجھ آیا کہ ایک سیٹلائٹ ہے جو مسلسل ہر انسان کی مووی بنا رہا ہے‘ جو ثبوت کے طور پر قیامت کے روز دکھائی جائے گی‘ یہ ایک مثال ہے‘ قرآن میں ایسی لاتعداد آیتیں ہیں جن کا درست مفہوم اور اصل نفاذ انسانی ذہن سے بہت اوپر کی چیز ہے اور انسان کبھی یہ الجھی گتھیاں نہیں سلجھا سکتا‘ نبی کریمؐ کے دور کا انسان‘ انتہائی خام دور سے گزر رہا تھا‘ ان کو ہر بات نہیں سمجھائی جاسکتی تھی‘ یہ نبی کریمؐ کی تعلیمات میں کجی نہیں بلکہ ایسا ہے کہ میٹرک کے بچے کو پی ایچ ڈی میں شامل تھیوریز نہیں پڑھائی جاسکتیں‘ اس میں استاد کی قابلیت کی بحث نہیں‘ بچے کی استعداد کا معاملہ ہے۔
لہٰذا اب کچھ راز قرآن کے کھل رہے ہیں‘ تو کچھ حضرت مہدی ؑ آکر کھولیں گے اور قرآن اتنا مکمل انداز میں نافذ ہوگا کہ پوری دنیا پر اللہ کی حکمرانی ہوگی اور جو شیطان آج مکمل جو بن پر دندناتا ہوا دنیا پر قابض ہے‘ منہ چھپاتا پھر رہا ہوا‘ یہ میرے پاک نبیؐ کا وعدہ ہے جو یقینا ضرور پورا ہوگا‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ اصل مہدی کریم ؑ کو بھلا کیسی پہچانا جائے‘ کوئی نیا شیطانی ذہن جھوٹی نبوت کے دعوے میں معصوم مسلمانوں کو نہ پھنسالے؟ پہلی بات تو میں یہ واضح کر دوں کہ حضرت مہدیؑ کو جھٹلانے اور ان کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کی مثال ابو جہل اور ابولہب کی سی ہوگی کیوں کہ حضرت مہدی ؑ ختم ہوتی دنیا کی واحد آس بن کر تشریف لا رہے ہیں‘ دجالی اور دور شروع ہوچکا ہی‘ ایسے میں حضرت مہدی ؑ کے لیے مشکلات کھڑی کرنے والا‘ اللہ اور شیطان کے درمیان جنگ کے فائنل رائونڈ میں‘ اللہ کے مہرے کو مات دینے کی کوشش کرنے والا شمار ہوگا اور اللہ نے اس کی ایسی تیسی کرکے رکھ دینی ہے‘ ظاہر ہے وہ آخری وقت کے کھیل میں شیطان کا غلبہ برداشت نہیں کرے گا‘ اس لیے اب ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے‘ اب وہ وقت نہیں رہا کہ ایک قوِم کی نافرمانی پر اسے ہٹ اکر نئہی قوم لے آئی جائے اب نہیں‘ یہ آخؒری وقت ہے یا ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن ہو‘ بیچ کی کوئی راہ نہیں… یہ جملہ تکبر سے ایک بار جارج بش جونیئر نے کہا تھا مگر اب یہ معاملہ اللہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… سوچ لو!
اب میں آپ کو وہ نشانیاں بتاتی ہوں جس سے آپ مہدی کریم ؑ ہجونے کا دعویٰ کرنے والے شخص کو جانچیں گے۔
-1 وہ شخص صرف قرآن کو واضح کرے گا اور اگر نئے قوانین اور احکامات بھی جاری کرے تو سب کے سب قرآن سے ثابت ہونے چاہئیں اور عقل کی دلیل پر بھی پورا اتریں۔
-2 یہ شخص ہر بات انبیائے کرام کی مناسبت سے کرے گا‘ جیسا کہ نبی پاکؐ اپنے سے پچھلے انبیا کے تذکرے اور واقعات سے سبق حاصل کرتے تھے۔
-3 یہ شخص پرانی الہامی کتب اور انبیا سے رتی برابر بھی اختلاف نہ کرے‘ تمام انبیا ایک ہی جماعت میں اور ایک اللہ ان کی تربیت کرتا ہے اس لیے ان کے عقائد میں فرق نہیں ہوسکتا۔
-4آپ اس شخص کی ہیئت اور حلیہ کو پہچان کا ذریعہ نہ بنائیں حلیہ تو کوئی بھی حدیث پڑھ کر بنا سکتا ہے کیونکہ دجال کی آمد آمد ہے‘ وہ ہمیں دھوکا نہ دے‘ اس لیے آپ اس دعویدار کی تعلیمات کو دیکھیں‘ کیا یہ تعلیمات فساد برپا کرنے والی ہیں یا دنیا میں موجود مسائل کا قابل استعمال حل پیش کررہی ہیں۔ ایک مومن فوراً پہچان لے گا کیونکہ وہ انبیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور تعلیمات کا علم رکھتا ہوگا۔
-5 دکھیں کہ وہ ذاتی زندگی میں ان تعلیمات پر عمل کرتا ہے یا نہیں‘ جو آپ کے لیے تجویز کرتا ہے۔
-6 اس کا جھکائو دشمنانِ اسلام کی طرف ہے یا وہ اللہ کے فرمانبرداروں کے ساتھ قربانی دے کر‘ اللہ کے دین کو نافذ العمل بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
-7 کیا وہ بہادر ہے؟ اللہ کا پیغمبر کبھی ڈرپوک نہیں ہوتا کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمے داری اللہ نے لے رکھی ہوتی ہے اور وہ شہادت کا آرزو مند بھی ہوتا ہے۔
یہ کوئی الہامی نشانیاں نہیں ہیں‘ میں نے خود سوچ کر لکھی ہیں اور امید ہے کہ یہ نشانیاں آپ کو گمراہ نہیں ہونے دیں گی اور آپ صحیح اور سچے مہدی کریم ؑ کو پہچان لیں گے گو کہ شیعہ اور سنیوں میں اس سلسلے میںاختلافات ہیں مگر یہ نشانیاں کافی مددگار ثابت ہوں گی اور اصل حضرت مہدی ؑ آئے تو انہوں نے مسلمانوں کو ایک فرقہ‘ ایک امت بنا دینا ہے‘ یہی وہ فرقہ ہوگا جو مسلمانوں کے 72 فرقوں میں سے ایک جنت میں جانے والا ہوگا کیونکہ حضرت مہدی ؑ آخری وقت کے آخری مصلع ہیں‘ وہ جس کی اصلاح کر دیں گے وہی منتخب فرقہ ہے‘ جو چاہے اس فرقے میں شامل ہو جائے‘ وہ تو محبت اور یکجہتی کا پیغام لائیں گے‘ مزید اختلافات اور نفرتیں ان کا مقصود ہرگز نہیں ہوں گی‘ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہوں گے۔
کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ کروڑوںسال سے زندگی بالکل جامد تھی‘ ایک ہزار سال میں بھی انسان کی طرز زندگی میں زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا‘ ہاں کبھی کبھی کوئی قوم بت کر کوئی کام کرلیتی تھی‘ جیسے عاد نے پہاڑوں میں گھر تراش لیے یا فرعون نے اہرام بنا لیے۔ گزشتہ 30 سال میں جس تیزی سے زندگیاں تبدیل ہوئی ہیں وہ اس بات کی غماز ہیں کہ اللہ تیزی سے بساط لپیٹ رہا ہے اور خاتمہ قریب ہے‘ جو جو ہونا ہے وہ جلدی سے جلدی کرکے آخرت کی طرف بڑھ رہا ہے اور قیامت اب دور نہیں۔ یہودیوں میں ایک بہت بڑی جنگ کا دنیا کے خاتمے سے پہلے ہونا درج کلیا جاتا ہے جسے Armegadonکہتے ہیں‘ یہ جنگ میری معلومات کے مطابق دجال اور حضرت مہدی ؑ کے درمیان لڑی جائے گی‘ یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ ہوگی‘ جس میں شیطان بالکل شکست کھا جائے گا اور دنیا میں اللہ کا نظام نافذ ہوگا‘ مکمل امن وامان اور انصاف رائج کیا جائے گا‘ حضرت عیسیٰ ؑ اسی جنگ کے دوران یا بالکل خاتمے کے وقت نازل ہوں گے اور جن یہودیوں نے ان کو زندہ اللہ کی طرف اٹھا لیے جانے پر مجبور کیا تھا‘ ان کا اپنے ہاتھوں سے خاتمہ کرکے‘ حضرت مہدی ؑ کی فتح میں معاون ہوں گے۔ کہتے ہیں اس کے بعد 40 سال تک حضرت مہدی ؑ کی حکومت قائم رہے گی‘ حضرت عیسیٰؑ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ہی ہوں گے اور کوئی نئی کتاب یا شریعت پیش نہیں کریں گے‘ اب کہ وہ طبعی موت کا شکار ہوں گے۔ جس طرح غیر فطری زندگی گزار کا ہم سیارہ زمین کو تباہ کر چکے ہیں‘ اسے ہم قیامت کے وقت اللہ کو ایسے ہی واپس نہیں کرسکتے جیسے کرایہ دار کو مکان کی تباہی کا جواب دینا پڑتا ہے‘ ہماری بھی وہی نسبت ہے‘ اس لیے امید کرتی ہوں کہ حضرت مہدی ؑ سائنس اور ٹیکنالوجی کو بڑھائیں گے نہیں بلکہ اسے ختم کریں گے اور انسان کو دوبارہ انبیاء والی خالص فطری اور بے ریا زندگی کی طرف لے جائیں گے اور زمین پھر سانس لینے لگے گی‘ لیکن پھر وہ شیطانی قوموں کی بے پناہ طاقت کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ میرا خیال ہے کہ وہ کوئی نیا علم ایجاد کریں گے جو سائنس کے پجاریوں کی کمر توڑ کر رکھ دے گا‘ وہ مادّی نہیں‘ روحانی علوم کے بانی ہوں گے۔ مادّی علوم تو اپنی معراج دیکھ چکے‘ اب مزید اور کیا ہوسکتا ہے۔ میں تو جب فون پر بنائی گئی وڈیوز دیکھتی ہوں تو لرز اٹھتی ہوں کہ قیامت کی ایک نشانی تو پوری ہوگئی کہ تمہارے اعمال تمہیں دکھائے جائیں گے جب گیس اور مختلف ہوا سے متعلق چیزون کا وزن ہوتے دیکھتی ہوں تو دل کانپ اٹھتا ہے کہ ایسے ہی ہمارے اعمال تولے جائیں گے‘ مادّی علوم تو ترقی کر گئے مگر ہمارے دلوں کو کالا کر گئے اور ان دلوں کو دوبارہ جلا بخشنے‘ ٹاپ کے روحانی علوم کی ضرورت ہے جو اللہ اپنے نمائندے حضرت مہدی ؑ کے ذریعے بھیجے گا۔ دوبارہ عرض کر دوں کہ یہ سب میرا ذاتی تجزیہ ہے‘ جو دلیلوں پر مشتمل ہے اور اللہ کیا کرے گا‘ کیسے کرے گا اس کا مجھے مطلق کوئی علم نہیں‘ بس خواہشوں کو زبان مل گئی‘ لیکن آپ دیکھیے کہ ہر بات میں Logical کر رہی ہوں اور حدیثوں کو بھی یاد رکھتے ہوئے کر رہی ہوں۔
جب قیامت کی ہر نشانی پوری ہوگئی اور قیامت کے لیے کیا گیا ہر وعدہ ہم آنکھوں سے بغیر قیامت کے ہی دیکھ رہے ہیں تو عجب نہیں کہ قیامت سے پہلے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام مُردوںکو بھی زندہ کرکے دکھائیں تگاکہ انسان قیامت کو مُردوں کے اٹھنے پر یقین کرلے‘ اللہ اپنے ہر عذاب سے محفوظ رکھے‘ آگے آنے والے سال مزید تیز تر‘ خونی اور حیرت انگیز ہوں گے‘ خدا کے واسطے قرآن سے اپنا رشتہ جوڑیے تاکہ ہم مہدی ؑ کی فوج میں ہوں دجال کی نہیں بیچ کا کوئی راستہ نہیں‘ اس قیامت خیز آخری دور میں محفوظ رہنے کے لیے قرآن سے بڑھ کر کوئی جائے پناہ نہیں‘ میرا کام تھا آگاہ کرنا‘ اب مزید اپنی تمام محمدؐ کی امت کے لیے صرف ہدایت کی دعا کرسکتی ہوں۔ اللہ ہم سب کو دجال کی چالاکیوں سے محفوظ رکھے۔ آخر میں عرض کر دوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم Revolutionist تھے اور حضرت مہدی ؑ Reformer ہیں اور ان کا کام دنیا میں پھیلے تمام فساد کو Roll back کرنا ہے۔

حصہ