جلد بولتی ہے!۔

567

قاضی مظہر الدین طارق

یہ کیا کہہ دیا؟
جِلد بوتی ہے، اچھا!اور سُنتی بھی ہے!
مگرہم کو رب تعالیٰ نے اس کی بولی نہیں سکھائی!
لیکن ہمارے دماغ کواس کی زبان سمجھ آتی ہے،کیوں کہ دماغ کو باہر کاکچھ دِکھائی دیتا ہے نہ سنائی ،جِلد اُس کو باہر کی بہت سی اطّلاعات اعصابی ریشوں اور نسوں کے ذریعہ بھیجتی رہتی ہے،دماغ بھی اس کو اپنے حکامات بھیجتا ہے،دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھتے ہیںپھرحیرت انگیز! ان کی زبان بھی کئی سوگز فی سیکنڈ کے حساب سے چلتی ہے،ہم تو ہم ،ٹی وی اَینکر بھی اتنا تیز نہیںبول سکتے۔
…………
جب باہر گرمی زیادہ ہونے لگتی تو جِلد اس کی اطلاع بلاتا خیر،بجلی کیتیزی سے، دماغ کو دیتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اندر بھی خون کی حرارت بڑھنے لگتی ہے، اُس کو دماغ فوراً ہی محسوس کرلیتا ہے اور اِن دونوں کے نتیجہ میںوہ حرارت کم کرنے کے اقدامات فوراً سے پیشتر شروع کردیتا ہے۔
…………
وہ جِلد میں موجودخون کی رَگوں کے لئے حکم جاری کرتا ہے کہ پھیل جائوتاکہ خون جِلد میں زیادہ آئے اور ٹھنڈا کیا جا سکے،اِس کو’واسوڈائی لیشن‘کہتے ہیں۔
پھردماغ جِلد سے اندر کی حرارت باہر لانے کے لئے جِلد میں موجود پسینہ آور گلینڈز کے لئے حکم جاری کرتا ہے کہ پسینہ جِلد پر پھیلائو،مائع پسینہ بخارات بننے کے لئے اَندر سے حرارت لیتا ہے،اِس کی وجہ سے خون کی حرارت میں کمی آتی ہے،اِن پیغامات کے تبادلے سیکنڈ کے چھوٹے سے حصے میں مکمل ہو جاتے ہیں۔
…………
جیسے ہی جِلد دماغ کوباہر سردی ہونے سے آگاہ کرتی ہے اور اندر کی حرارت بھی کم ہونے لگتی ہے تودماغ جِلد میں سے گزرنے والی خون کی رَگوں کو حکم دیتا ہے کہ سُکڑ جائو تا کہ یہاں خون کم جائے اور حرارت کو جسم کے اندر زیادہ سے زیادہ محفوظ رَکھنے میں مدد مل سکے،اِس کو’واسوکنسٹرکشن‘کہتے ہیں۔
…………
جب سردی اور بڑھتی ہے،جسم کا درجہ ٔ حرارت کم ہونے لگتا ہے،اُس کو بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے تو دماغ کے حکم پر دانت بج کر حرارت پیدا کرتے ہیںپھرمزیداور سردی میں اضافہ ہوتا ہے توکپکپی تاری ہوجاتی ہے، پورے بدن کے’مسلز‘ حرکت میں آکر حرارت میں اِضافہ کرنے لگتے ہیں۔
…………
اگر ہمارا ہاتھ کسی گرم چیز پر پڑتا ہے،توہم اچانک بلا اِرادہ ہاتھ کھینچ لیتے ہیں،ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ جِلد بجلی کی تیز ی کے ساتھ دماغ سے کہتی ہے کہ ہاتھ جل جائے گا۔
دماغ بھی اسی سرعت کے ساتھ بہت سے مسلز کو حکم دیتا ہے کہ ہاتھ کو پیچھے ہٹائو،ہمارے کچھ سوچنے اور کرنے کا تو وقت ہی نہیں ہوتا،پہلے ہی ہمارے اِرادے کے بغیر ، ہاتھ گرمی میں جھلسنے سے بچ جاتا ہے،یہ اللہ تعالیٰ(جو الودودہے؛یعنی اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت کرنے والا ہے) کا دیا ہوا نظام ہے، کیایہ حادثاتی طور پر ہو سکتا تھا؟
…………
ابھی ہماری چمڑی کی بولتی بند نہیں ہوئی،یہ سوتے میں جاگتے میں چوبیس گھنٹے کچھ نہ کچھ پیغام دماغ کو بھیجتی رہتی ہے۔
یہ ہر وقت بتاتی رہتی ہے کہ ہمارا ہاتھ کس کو چھو رہا ہے، یہ چیز سخت ہے کہ نرم،کھردری ہے کہ چکنی، سوتی کہ اُونی، ریشم ہے کہ ٹاٹ ،گرم ہے کہ ٹھنڈی،سوکھی ہے کہ گیلی، مٹّی کہ پتھّرکہ دھات ہے یا کچھ اور۔
…………
ہمارے پورے بدن کی کھال ہم کو بتاتی ہے، ہم نے کیسے کپڑے پہنے ہیں،وہ کس چیز کے بنے ہوئے ہیں،سوتی ، اُونی ، رِیشمی، ٹاٹ کے یا دھات کے،ملزموں اور مجرموں کو دھاتی بیڑیاں پہنائی گئیں ہو تو وہ صاف محسوس کرتے ہیں کہ یہ لوہے کی ہیں یا المونیئم کی۔
…………
کہیں تکلیف ہے تو یہ دماغ کو اطلاع دیتی ہے، اِس جگہ یہ تکلیف ہے ،ہمارا ہاتھ فوراً دماغ کے رد عمل کے حکم سے اُس طرف ہی جاتاہے،جہاںکوئی کیڑے نے کاٹا ہو یا کوئی چیز چُبی ہوتی ہے۔
…………
اور تو اور یہ جِلد ہمارے منہ کے راستے نظامِ ہضم کے آخری حصے تک جارہی ہے،اور اَندر کا منظر دماغ کو دیکھا رہی ہے،پھردماغ ہم کو بتاتا ہے ،یہ دردیہاں ہے ، جب ہی تو ہم سُنّت کے مطابق علاج کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
…………
اُوپر باربار ذکر ہے جِلد دماغ کو بتاتی ہے ،اور وہ ہم کو بتا تا ہے،ہم فیصلہ کرتے ہیں ،پھر دِماغ اس فیصلے کو اللہ کے کارندے کی حیثیت سے صرف نافذ کرتاہے،فیصلہ تو ہم کرتے ہیں ظاہر پھر ذمہ داری بھی ہماری ہے،ہمارے فیصلے یا نیّت کی بنا پر جزاء و سزاء بھی ہم ہی کو ملنی چاہیے۔
…………
مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’ہم ‘کون ہیں؟ہمارا یہ جسم دماغ سمیت سب اَعضاء، اِس زمین سے اُگے ہیں پھر اِسی میں گم ہو جائیں گے،تو یہ ’ہم‘ کون ہیں؟
…………
توہم ہیں ’روح‘ !
یہ جسم اور اس کے اعضاء تو اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہماری روح کی سواری اوراُس کی مدد کے لئے، عارضی طور پر اس زمین پر ہمارے ’اِرادوں ‘اور’ نیّتوں‘کو پرکھنے کی ضرورت کی حد تک عطا کی ہیں۔
…………
ہم روز میّتیں دیکھتے ہیں،روح نکل جاتی ہے ، جسم وہی ہوتا ہے ،لاش نہ سُن سکتی ہے نہ دیکھ سکتی ہے، نہ ہی بول سکتی ہے،ایک انگلی بھی ہلا نہیں سکتی۔
…………
ان معلومات کے حصول کے بعد،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ صرف ہم کو بنانے کے لئے،کتنی کیمیا، طبیعات،ریاضی اور ’ایلکٹر وا نکس کے مکمل علم اور قوّت کی ضرورت ہے۔
…………
کیا مکمل علم اور قدرت والی ہستی کے بِنا یہ کائنات خود بخود اپنے آپ حادثاتی طور پرتشکیل پا سکتی تھی؟ ؟؟

حصہ