جسارت :یادوں کے آئینوں میں

678

جاوید احمد خان
جسارت سے میری رفاقت تقریباَ 48برس کی ہے لہذا یہ ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ تقریباَنصف صدی کا قصہ ہے ۔1970کے شروع کے دنوں کی بات میں اپنے محلے کی ایک دکان سے سودا خریدنے گیا تو اس کے یہاں جسارت رکھا ہوا تھا ان دنوں میں انتخابی مہم کی شروعات ہو چکی تھیں ۔اس اخبار کے بارے میں سن رکھا تھا کہ یہ جماعت اسلامی کا اخبار ہے ،میں نے دکاندار سے پوچھا کہ آپ کیا اسے خریدتے ہیں اور یہ کہ کیا یہ جماعت اسلامی کا اخبار ہے ۔دکاندار نے جماعت کے ایک کارکن کا نام لیا کہ وہ صاحب یہاں رکھ جاتے ہیں اور دفتر سے واپسی پر لے جاتے ہیں ۔اور اس سوال کا جواب کہ یہ کیا جماعت اسلامی کا اخبار ہے دکان پر کھڑے ہوئے ایک صاحب نے جواب دیا کہ یہ جماعت اسلامی کا اخبار تو نہیں ہے البتہ جو لوگ یہ اخبار نکالتے ہیں ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ۔یہ جسارت سے میری پہلی ملاقات کا احوال ہے ۔
جس وقت یہ واقعہ لکھا ہے اس وقت میں تحریک میں شامل تو نہیں ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ دل تحریک کی طرف راغب ہو رہا تھا ۔ہمارے محلے میں ہر سیاسی جماعت کی کارنر میٹنگ ہوتی تھی اور میں ہر ایک میں شریک ہوتا تھا ان تمام سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں ایک بات قدر مشترک تھی کہ وہ سب جماعت اسلامی کی مخالفت کرتے تھے ۔جب جماعت کے جلسہ میں شرکت ہوئی تو مقررین کسی سیاسی جماعت کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ اپنا پروگرام ہیش کرتے کہ ہم کیا تبدیلیاں لائیں گے ہمارے دوست احباب میں سب لوگ جے یو پی سے ذہنی طور پر وابستہ تھے ان ہی دنوں کے ایک واقع نے مجھے پوری طرح جماعت کی طرف دھکیل دیا کہ ہماری مسجد (جو بریلوی مکتبہ فکر تھی)میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک سفید ڈاڑھی والے بزرگ نے اپنے تھیلے میں سے پمفلٹ نکال کر مسجد ہی میں بانٹنا شروع کردیا ۔اس پمفلٹ میں مولانا حامد بدایونی صاحب کی ایوب خان کے گلے میں ہار ڈالتے ہوئے تصویر چھپی ہوئی تھی مسجد کے نمازی مشتعل ہو گئے ان کو دھکا دے کر گرادیا ان کے تھیلے میں سے پمفلٹ نکال کر پھاڑ دیے اس ساری کارروائی میں ہمارے دوست احباب بھی شریک تھے نماز کے بعد ہم ان ہی دوستوں کے ساتھ باہر کھڑے اس واقع پر بات کررہے تھے میں نے اپنے دوستوں سے کہا جس نبیﷺ کے آپ لوگ عشق کے دعویدار ہیں نبی کا جھنڈا اونچا رہے گا کے نعرے لگاتے ہیں اس نبی ﷺ کی سیرت تو یہ ہے کہ ایک یہودی نے مسجد نبوی میں پیشاب کردیا صحابہ کرام اسے مارنے دوڑے تو آپﷺ نے انھیں روک دیا اسے سمجھا کر مسجد کو صاف کرادی اور آپ لوگوں کا عمل یہ ہے کہ ایک کلمہ گو سفید ڈاڑھی والے بزرگ کو مارا دھکا دیا ننگے پیر مسجد سے نکال دیا انھیں چپل بھی نہیں پہننے دی ۔یہ بحث آگے بڑھی سب دوستوں نے کہا کہ بھئی یہ تو جماعتی ہو گیا میں نے ہاں جائو میں آج سے جماعتی ہو گیا ۔
گھر والوں کی طرف اکیلے کہیں دور جانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے یوم شوکت الاسلام کے جلوس اور یوم دعا کی ریلی کو ہم نے بلاک دس نمبر کے اسٹاپ پرکھڑے ہو کر صرف دیکھا تھا ۔7دسمبر 1970کو قومی اور17دسمبر 1970کو صوبائی اسمبلیوں کی ووٹنگ کے دن تھے ۔اس وقت ووٹ ڈالنے کی عمر 21سال تھی جب کہ میری عمر 18سال تھی اس لیے میں تو ووٹ نہ ڈال سکا لیکن اپنے والد اور والدہ کے ووٹ کاسٹ کرادیے تھے بس انہی دنوں میں کسی دن سے ہم جسارت کے قاری اور خریدار بن چکے تھے ۔
اب ہم باقاعدہ تحریک کے کارکن بن چکے تھے روزانہ رات کو ایک تحریکی ساتھی کے گھر حلقے کے کارکنان بیٹھک ہوتی تھی اس جماعتی بیٹھک میں جسارت کی کسی نہ کسی خبر یا اداریے کے حوالے سے ڈسکشن ہوتی روز صبح میرا یہ معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد ہم تفہیم القران کا مطالعہ با آواز بلند کرتے تاکہ قریب ہی باورچی خانے میں والدہ بھی سنتی رہیں جو ناشتے کی تیاری بھی ساتھ ساتھ کرتی رہتی اس مطالعے کے بعد جسارت آجاتا تو میں جسارت کی خبریں اور اداریے بھی والدہ صاحبہ کو سناتا کبھی ایسا بھی ہوتا کے تفہیم القران کے مطالعے کے دوران ہی جسارت آجاتا۔بھٹو صاحب کی حکومت جو مشرقی پاکستان کی قربانی دے کر انھوں نے حاصل کی تھی اس لیے عوام میں اس حکومت کے خلاف نفرت کا یک جذبہ تو پہلے ہی سے موجود تھا پھر ان کے آمرانہ اقدامات اس ماحول میں جسارت کی خبریں اور بالخصوص اداریے قلب و ذہن کے سکون و سرور کا ذریعہ بن جاتے ۔جب مطالعہ قران کے دوران اخبار آجاتا دل کی عجیب کیفیت ہوتی کہ مطالعہ کرتے کرتے خیال ہوتا آج کی شہ سرخی(Main Heading)تو دیکھ لیں ۔وہ دیکھ کر جسارت تہے کرکے تکیے کے نیچے رکھ لیتے پھر پڑھتے پڑھتے ذہن میں خیال آتا کہ یہ تو دیکھ لیں کہ آج کا اداریہ کس موضوع پر لکھا ہے اسی ادھیڑ بن میں یہ بات یاد آجاتی کہ جب قران میں مطالعے کو دوران یکسوئی نہ ہو تو بہتر ہے اسے بند کر دیا جائے ۔اچھا یہ کیفیت صرف میری ہی نہیں ہوتی ایک دفعہ پروفیسر غفور صاحب نے بھی ایک اجتماع میں اسی طرح کا اپنی کیفیت کا اظہار کیا تھا ۔میں نے اپنی اس کیفیت کا ایک ساتھی کارکن سے ذکر کیا تو انھوں نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا کہ اسی لیے تو اللہ میاں نے جسارت کو بند کردیا کہ آپ مطالعہ قران پوری یکسوئی کے ساتھ کریں اور یہ کہ جب تک جسارت کا دوبارہ اجراء نہیں ہوتا آپ تفہیم کا مطالعہ مکمل کرلیں ۔
اس زمانے میں محکمہ ڈاک (Post Office)میں ملازم تھا میرا دفتر نیشنل بنک کے ہیڈ آفس کے سامنے اولڈ ریلی برادرزبلڈنگ میں ہوتا تھا میں مطالعہ قران اور جسارت کے تفصیلی مطالعے کے بعد اخبار کو اپنے ساتھ دفتر لے جاتا دس نمبر سے بس میں بیٹھتا تو سیٹ تو نہ ملتی اکثر کھڑے ہو کر ہی جانا پڑتا میں جس ہاتھ سے سر کے اوپر لگے ہوئے بس کے ڈنڈے کو پکڑتا اسی ہاتھ میں جسارت کو گول تہہ کرکے اس طرح پکڑتا کہ اس کی لوح لوگوں کو نظر آتی رہے تو اکثر سیٹ پر بیٹھے ہوئے لوگ مانگ لیتے اور میں بھی یہی چاہتا تھا آدھے گھنٹے کے اس سفر اور جتنے لوگ اخبار پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں کیونکہ یہ بھی ہماری دعوت کا ایک ذریعہ ہے ۔پھر ہم جب دفتر پہنچتے تو ہمارے باس میری اپنی نشست پر جانے سے پہلے ہی میرے ہاتھ سے اخبار لے لیتے اور اسطرح دن بھر یہ اخبار مختلف ہاتھوں میں گھومتا آخر میں یا تو آخری پڑھنے والا خود ہی مجھے واپس کردیتا یا مجھے ڈھونڈنا پڑتا پھر جو اخبار میں واپس لے جاتا وہ اخبار کے بجائے کاغذ کا ملیدہ بن چکا ہو تا ۔
بھٹو صاحب کی حکومت دوران اخبار اکثر کھلتا اور بند ہوتا رہتا اس دوران کبھی کبھی جسارت اپنے قارئین سے مالی تعاون کی اپیل بھی کرتا کہ جسارت کو اشتہارات تو ملتے نہیں تھے اور اخباری کاغذ بھی مہنگا ہوجاتا ایک دفعہ میں اپنے دفتر یعنی ٹاور سے پیدل جسارت کے دفتر جو روزنامہ جنگ والی گلی میں تھا گیا اور جو مالی تعاون اس وقت میں کرسکتا تھا وہ کیا یہ میرا جسارت کی بلڈنگ کا پہلا دورہ تھا ۔یہاں پر یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ بچپن ہی سے مجھے اخبار کے مطالعے کا شوق رہا ہے اس لیے اخبارات کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ بھی ہوتا رہتا مثلاہم حجاموں وغیرہ کی دکانوں پر دو چیزوں کا مشاہدہ کرتے کہ یا تو لوگ یہ دیکھتے کہ کون سی فلم کس سنیما ہائوس میں لگی یاکبھی کسی اہم نوعیت کی خبریں زیر بحث آتیں ادارتی صفحہ تو کسی گنتی میں نہ تھا اس وقت ہم کیا عام لوگ یہ سمجھتے تھے یہ صفحہ کسی اور کلاس کے لوگوں کے لیے ہوتا ہے اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں لیکن جسارت نے ادارتی صفحہ کو اور بالخصوص اداریوں کو عوامی صفحہ بنادیا اور اسی وجہ سے دیگر اخبارات نے بھی اسی کے مطابق اپنے یہاں تبدیلیاں کیں آج صورتحال یہ ہے جب بھی کوئی نیا اخبار نکلتا ہے سب سے پہلے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھے اور معروف لکھنے والوں کو بھاری معاوضے دے کر اپنے یہاں رکھا جائے تاکہ اس کی وجہ سے اخبار کے معیار اور اس کی اشاعت میں اضافہ ہوتا رہے بھٹو دور میں جسارت کے اداریوں نے جو دھوم مچائی اس سے عام لوگوں کو بحث و مباحثہ کے لیے مواد اور دلائل مل جاتے ۔ایک دفعہ ہم ایک جماعت کے سینئر کارکن کے ساتھ بس میں گلبہار سے گزررہے تھے میں نے ان سے کہا کہ جسارت کے مدیر صلاح الدین صاحب یہا ںرہتے ہیں انھوں نے کہا کہ جسارت کے ایڈیٹر کو اب ان آبادیوں میں نہیں رہنا چاہیے وہ تو کہیں دور کسی بستی میں یونیورسٹی کی طرف رہیں تو زیادہ بہتر ہے جب جسارت میں گئے تو معلوم ہوا کہ اصل اداریہ نویس تو یونیورسٹی ہی میں رہتے ہیں ۔اس زمانے میں ایک اور بات محسوس ہوتی تھی کہ صلاح الدین صاحب گرفتار ہوجاتے ان کے بعد حکیم اقبال حسین صاحب بھی جو ان کی جگہ قائم مقام ایڈیٹر ہوتے وہ بھی گرفتار ہو جاتے لیکن جسارت کے اداریوں کے قلم کی کاٹ اور اس کی گھن گرج میں کوئی کمی نہ آتی ہم سے سوچتے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ صلاح الدین صاحب جیل سے اداریے لکھ کر بھیجتے ہوں پھر جب ہم جسارت میں گئے تو معلوم ہوا متین الرحمن مرتضیٰ صاحب جو کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور صلاح الدین صاحب کے دوستوں میں ہیں وہ اداریہ لکھتے ہیں ۔متین صاحب اپنی تحریر میں کبھی کبھی مزاح کا رنگ بھی ڈال دیتے تھے ۔
ایک دفعہ ان کے اداریے کی ایک تحریر جو میں غلط پڑھ گیا والدہ نے اس کی تصیح کی اور اس پر ان کو ہنسی بھی بہت آئی بھٹو صاحب نے تمام پرائیویٹ اسکول اور تعلیمی ادارے قومیا لیے تھے بعد میں ان اسکولوں کے حوالے سے کچھ شکایات پیدا ہوئیں تو جسارت نے اس پر اداریہ لکھا اس میں ایک جملہ یہ تھا کہ” جب آپ ان اسکولوں کا انتظام ٹھیک سے سنبھال نہیں سکتے تھے تو ان اداروں کو قومیانے کا شوق ہی کیوں چرایا تھا “میں لفظ چرایا کی ر پر تشدید نہیں دیکھ سکا اس زمانے میں ہاتھ سے کتابت ہوتی تھی اس لیے تشدید زیر زبر پیش وغیرہ حسب ضرورت لگا دیے جاتے تھے میں اس کو چرایا (چور والا) پڑھ گیا والدہ نے اس پر ٹوکا اس کی تصیح کی اور اس جملے پر ان کو بہت ہنسی بھی آئی تو اکثر اداریوں میں طنز و مزاح بھی آجاتا تھا ۔بھٹو دور کی طویل بندش کے بعد جب بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی اور 5جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق صاحب آئے تو پھر اور گرفتار شدگان کے ساتھ صلاح الدین صاحب اور پبلشر ذاکر صاحب بھی رہا ہوئے اور 2ستمبر 1977کو طویل بندش کے بعد جسارت کی پہلی اشاعت ہوئی اور 17اکتوبر 1977کو میں جسارت کے شعبہ حسابات میں ایک کارکن (اسسٹنٹ اکائونٹس آفیسر )کی حیثیت سے داخل ہوا ۔
شعبہ حسابات میں ہمارے انچارج یعنی اکائونٹس منیجر مرحوم جناب سید محمد فاروق صاحب تھے جو جماعت اسلامی اسلام آباد کے سابق امیر جناب سید محمد بلال صاحب کے والد اور موجودہ ایڈیٹر جسارت مظفر اعجاز کے سسر تھے۔ہمارے ساتھ کیشئر جناب ضیاء الاسلام صاحب تھے جو اس وقت کے چیف ایگزیکیوٹیو جناب محمود اعظم فاروقی صاحب کے بھتیجے تھے ،ہمارے برابر والے روم میں جسارت کا ادبی سیکشن تھا جہاں اطہر ہاشمی صاحب جسارت کے ادبی صفحہ کے انچارج تھے ان کے ساتھ جسارت کے صفحہ خواتین کی نگراں جناب ادیبہ تنویر صاحبہ بیٹھتی تھیں ۔ادیبہ تنویر صاحبہ اس ا وقت جماعت اسلامی علاقہ سوسائٹی کے ناظم جناب مقصود صاحب (مرحوم) کی بیٹی تھیں ۔ساتھ ہی ایک چھوٹے سے روم میں ایڈمن اسسٹنٹ جناب افضل صاحب اپنی دلاویز مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھے ہوئے نظر آتے میں جب فاروقی صاحب کو انٹر ویو دینے گیا تو پہلی ملاقات ان ہی افضل صاحب سے ہوئی تھی جنھوں نے مجھے بتایا کہ ابھی فاروقی صاحب کا فون آیا تھا انھوں نے کہا ہے کہ کوئی صاحب ملنے آئیں گے تو بٹھا لیں مجھے تھوڑی تاخیر ہو جائے گی لہذا آپ کچھ انتظار کرلیں ۔جسارت کا دفتر تیسری منزل پر تھا ،لفٹ سے نکلتے ہی پہلے سٹی سیکشن تھا اس کے بعد شعبہ اشتہارات ،پھر شعبہ سرکولیشن ،پھر ہمارا شعبہ حسابات ،پھر میگزین روم ،انتظامیہ کا کمرہ اس کے ساتھ فاروقی صاحب کا روم ان کے برابر میں جناب صلاح الدین کا دفتر تھا پھر ان کے ساتھ ہی شعبہ ادارت کی نائٹ ڈیسک تھی اور پھر شعبہ کتابت تھا جس کے انچارج جناب الیاس صاحب تھے ۔اس زمانے میں جسارت کا ماحول ایک خاندان جیسا لگتا تھا ہمارے برابر میں شعبہ سرکولیشن میں جناب خواجہ فرید الحق صاحب سرکولیشن منیجر تھے ان کے اسسٹنٹ عقیق اللہ اور شاہد میاں کلرک تھے عقیق اللہ صاحب گئے تو ان کی جگہ جناب مرتضیٰ ہارون صاحب آئے کچھ عرصے بعد ان کی جگہ جناب عبدالوہاب صاحب بعد میں عبدالوہاب صاحب خواجہ فرید الحق کی جگہ سرکولیشن منیجر ہوئے جو کافی عرصے تک اس منصب پر فائز رہے خواجہ صاحب اور عبدالوہاب کا انتقال ہو چکا مرتضی ہارون صاحب امریکا میں ہیں ،شاہد میاں صاحب جو جسارت کا سرکولیشن کا شعبہ چار سال پہلے تک دیکھ رہے تھے وہ آج کل جہان پاکستان اخبار میں سرکولیشن منیجر ہیں شعبہ اشتہارات میں جناب سلمان شاہ رخ صاحب اس شعبہ کے نگران جب کہ ان کے ساتھ جناب صالح محمد اختر صاحب جناب ارشد محمود صاحب جناب صفوت علی قدوائی صاحب تھے جو اشتہارات کا ترجمہ کرتے تھے بعد میں جناب ضیاء الاسلام صاحب کا ٹرانسفر ہوگیا ان کی جگہ شعبہ حسابات میں جناب اجمل حسین صاحب آگئے شعبہ اشتہارات میں قدوائی صاحب کا تو انتقال ہوچکا اباقی حضرات کے بارے میں معلومات نہیں ہیں وہ جہاں بھی ہوں اللہ ان کو ایمان و جسم کی سلامتی کے ساتھ قائم و دائم رکھے ۔اسی شعبے میں ایک زمانے میں نیاز مدنی صاحب بھی ہوتے تھے جو بعد میں شعبہ ادارت میں چلے گئے تھے نیاز مدنی صاحب بڑے زندہ دل اور ہنس مکھ انسان تھے یہ سب سے اور سب ان سے مذاق کرتے تھے ان کا بھی انتقال ہو چکا ہے اللہ سب مرحومین کی مغفرت فرمائے ،آمین اگر ہم افراد کے بارے میں لکھیں گے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا ۔
صحافت کی دنیا میںجسارت نے جن نئے رجحانات کو متعارف کرایا آج اس کے بارے میں شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں اداریہ اور ادارتی صفحہ کے بارے میں تو بات ہو چکی ہے کہ کس طرح جسارت نے اداریوں کے حوالے سے عوامی شعور کو اجاگر کیا کہ دیگر اخبارات نے بھی اپنے انداز تحریر کو تبدیل کیا یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی کی وفات پر روزنامہ جنگ نے جو اداریہ لکھا تھا وہ ایک شاہکار تحریر ہے ۔ادب اور ادیبوں کے حوالے سے دیگر اخبارات میں خبریں نیوز پیج پر یا سٹی پیج پر شائع ہوتی تھیں جب کہ جسارت نے اپنے یہاں باقاعدہ ادبی صفحہ کا اجراء کیا آج ہر قومی اور بڑے اخبارات میں ادبی صفحات شائع ہوتے ہیں ۔اس زمانے میں یعنی یہ 1977سے 1980کے درمیانی مدت کی بات ہے جسارت کی تحقیقاتی خبروں (Investigating News)نے بڑی دھوم مچائی ہوئی تھی،یہی وجہ ہے کہ جنگ اخبار کے مالک میر خلیل الرحمن روز آنہ اپنی میز پر جسارت کا مطالعہ کرتے اور جو Exclusive News جسارت میں ہوتی اور ان کے اخبار میں نہیں ہوتی تو پھر وہ متعلقہ رپورٹر کی خبر لیتے چاہے اس کے نام سے اس دن کئی اور خبریں شائع ہوتیں لیکن وہ جسارت میں شائع ہونے والی خبر کے حوالے سے ضرور بازپرس کرتے ۔ظہور احمد نیازی،نذیر خان، غلام ربانی ،رشید احمد خان،اور منصور شیخ یہ وہ رپورٹر تھے جو اداروں میں کرپشن کے حوالے سے اہم معلومات قارئین جسارت کو پہنچاتے تھے اس طرح کی خبریں ہر ہفتے پورے ایک صفحہ پر شائع ہوتیں ۔ریکنڈیشن کاروں کے اسمگلنگ کی خبر مرحوم منصور شیخ نے دی تھی جس نے بڑا تہلکہ مچا دیا تھا ۔اس زمانے ایک کیس جو ترنم عزیز کیس کے نام سے مشہور ہوا اس کیس کے حقائق منظر عام پر لانے میں جسارت کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔عزیز آباد کی ایک آٹھ برس کی بچی اغوا ہوئی اور پھر اس کی کچھ دن کے لاش ملی اس زمانے الیکٹرانک چینلز تو تھے نہیں پرنٹ میڈیا میں یہ خبر نمایاں ظور پر شائع ہوتی رہی کہ پولیس کئی دن تک ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکی ۔آخر ایک دن جوہر آباد تھانے کے ایس ایچ او محمد خان نے تمام کرائم رپوٹروں کو بلایا انھیں مٹھائی کھلائی کہ ہم نے ترنم عزیز کے ملزمان کو پکڑ لیا ہے دوسرے دن تمام اخبارات میں ملزمان کی گرفتاری کی خبریں شائع ہوئیں تھی لیکن جسارت میں اس کے بالکل الٹ خبر شائع ہوئی کہ پولیس نے جعلی لوگوں کو جو بے قصور ہیں انھیں گرفتار کیا ہے جب کہ اصل ملزمان غائب ہیں ۔اس خبر نے پولیس کے محکمے کو ہلا کر رکھ دیا دو ایک روز بعد دیگر اخبارات نے بھی اپنی لائن تبدیل کی اور جسارت کی دی ہوئی خبر کے مطابق ہی اپنے یہاں بھی خبریں شائع کرنے لگے اس کیس کی وجہ سے جسارت کی مانگ میں بہت اضافہ ہوا تھا ۔
پہلے اسپورٹس کی خبریں بشمول جسارت تمام اخبارات میں سٹی پیج پر یا کوئی اہم خبر ہو تو صفحہ اول یا صفحہ آخر پر شائع ہتی تھیں ۔جسارت میں سٹی کے دو صفحات تھے اور مرحوم فیض الرحمن صاحب سٹی ایڈیٹر تھے ۔انھوں نے ایک صفحے کو کھیل کی خبروں کے لیے مختص کردیا اور راشد عزیز کو اس کا زمہ دار بنادیا الگ صفحہ ہونے کی وجہ شہر کی تمام چھوٹی بڑی اسپورٹس ٹیموں کی خبریںشائع ہونے لگی جس کی وجہ سے دیگر اخبارات بھی مجبور ہوئے اور آج ہر اخبار دو دو صفحات کھیل کی خبروں کے شائع کرتا ہے ۔تمام اخبارات میں فلمی صفحہ بھی آتا تھا جسارت نے فلمی صفحہ کے بجائے ہفتہ میں ایک صفحہ عکس اور آواز کے عنوان سے شروع کیا جناب پروفیسر طاہر مسعود صاحب اس کے نگران تھے جس میں ریڈیو اور ٹی وی پروگراموں کے حوالے مضامین شائع ہوتے تھے لیکن یہ زیادہ دن چل نہ سکا ۔
جسارت کے اجراء کے موقع جہاں یہ مقصد پیش نظر تھا کہ اسلامی صحافت کو نہ صرف متعارف کرایا جائے گا بلکہ شعبہ صحافت کو نظریاتی اور با مقصد بنایا جائے گا اور ساتھ ہی یہ بھی اہم مقصد پیش نظر تھا جسارت ایک ایسی صحافتی نرسری کا رول ادا کرے گا جہاں سے لوگ تربیت پاکر دیگر اداروں میں اپنی صلاحیتوں کے لوہے منوائیں گے ۔الحمد اللہ جسارت اپنے اس مقصد میں تو بہت حد تک کامیاب ہوا ہے ۔آج پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا آپ کو ہر جگہ ایسے لوگ ضرور نظر آئیں گے جنھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز جسارت سے نہ کیا ہو ۔امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی جسارت کے کالم نگار رہ چکے ہیں ،جنگ لندن کے سابق ایڈیٹر جناب ظہور احمد نیازی جسارت میں سینئر رپورٹر تھے کئی اہم کالم نگار جو دوسرے اخبارات میں اہم منصب پر بھی ہیں اور ملک کے معروف کالم نگار بھی ہیں وہ کبھی اپنی خدمات جسارت میں دیا کرتے تھے جنگ کے کالم نگار الطاف حسین قریشی انھوں نے تو یہ اخبار ہی ملتان سے نکالا تھا پھر اس کو جماعت نے لے لیا یہ چودہری غلام محمد صاحب جو جماعت اسلامی کراچی کے سابق امیر تھے کا ایک خواب بھی تھا ۔اسی لیے جسارت کی لوح پر آج بھی ان کا نام شائع ہوتا ہے ۔معروف کالم نگار جناب ہارون رشید صاحب جو روزنامہ دنیا میں لکھتے ہیں وہ پہلے جسارت کے لیے لکھا کرتے تھے اسی طرح روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر اور کالم نگار جناب عطاالرحمن بھی جسارت کے کالم نگار تھے اسی اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مقصود یوسفی بھی جسارت میں کرائم رپورٹر رہ چکے یہ بڑی طویل فہرست ہے سب کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔
جسارت ایک اخبار ہی نہیں بلکہ ایک خاندان کی طرح تھا ہمارے یہاں ایک نصر احمد مخدومی صاحب ہوتے تھے جو بہت سنجیدہ اور انتہائی با اخلاق کارکن تھے نائٹ ڈیسک پر کام کرتے تھے وہ دماغی طور پر اکثربیمار ہو جاتے تھے ۔جناب صلاح الدین صاحب ان کا کراچی نفسیاتی ہسپتال میں علاج کرواتے تھے اکثر ایسا بھی ہوا کے گھر میں ان کی طبعیت خراب ہو گئی تو گھر والوں نے صلاح الدین صاحب کو فون کیا انھوں نے جسارت کی گاڑی بھیج کر انھیں ہسپتال پہنچوایا ۔جسار ت میں کارکنوں کی ایک یونین بھی تھی جس میںظہور احمد نیاز ی صاحب ،ادریس بختیار جو آج کل جنگ میں لکھتے ہیں زیادہ فعال تھے ۔یونین کی سطح پر ادارے میں پکنک بھی منائی جاتی تھی کینٹین والے سرفراز صاحب کو کون بھول سکتا ہے جو آج ایک اچھے اور کامیاب بزنس مین ہیں ملک کے بڑے اداروں میں ان کی کینٹین چل رہی ہیں ان کے اور بھی کاروبار ہیں ان ہی کی کینٹین آج بھی جسارت میں ان کے رکھائے ہوئے دیگر لوگ چلارہے ہیں لیکن اب وہ کم کیا بلکہ بالکل ہی نظر نہیں آتے ۔
یہ چند یادوں کے موتی تھے جو پیش کردیے ورنہ جسارت میں گزرا ہوا دور تو اب بھی بچپن کی طرح ایک گمشدہ سرمایہ ہے۔

حصہ