بزمِ ثقافت پاکستان کے زیر اہتمام ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ کل پاکستان مشاعرہ

435

سیمان کی ڈائری
کراچی کے حالات پاکستان کے دیگر شہروں سے ہمیشہ مختلف ہی رہے ہیں۔کہنے کو شہرکراچی ماں کا درجہ رکھتا ہے لیکن اس ماں نے اپنے کچھ بیٹوں سے دکھ سہے ہیں۔شمار کیا جائے تو کبھی نہ ختم ہونے والے دکھ در دکھ۔اِنھی دکھوں کے سائے میں کچھ بیٹے ایسے بھی جواں ہوئے جو اس ماں کو اس کا حق ، اس کے حصے کی خوشیاں دینا چاہتے ہیں اور وہ اپنے مثبت عمل سے یہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔کسی نے ہرا بھرا چمن بنانے کی بات کی تو کسی نے اسے معاشی حب بنانے میں کردار ادا کیا۔یہ حقیقت ہے کہ کراچی کو اگر کو چھینک بھی آئے تو ملک کا پورا وجود لرز جاتا ہے تو سوچیے کیا کیا صدمات نہ جھیلے ہوں گے۔کچھ بیٹے ایسے بھی ہیں جو اس شہر کو امن کا گہوارہ بنانے میں کردار ادا کررہے ہیں۔کھوئی ہوئی روشنیاں بحال کرنا چاہتے ہیں اور وہ کامیاب بھی ہوئے ۔کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ رات کتنی ہی سیاہ سہی ،صبح کی نوخیز کرن ہی اسے مٹانے کو بہت ہے۔علم و اَدب کا دیا جلانے والے بھی کسی سے کم نہیں اور انھوں نے اس شہر کو اَدب کا گہوارہ بنایا۔عالمی مشاعروںسے لے کر اردوکانفرنسز کا انعقاد کرنے والوں نے ثابت کیا ۔اس عمل میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی متعدد بار اَدبی تقریبات کرانے کی کوششیں کی گئیں جو کسی نہ کسی مقام پر اپنا سیاسی اثر چھوڑ گئیں۔
پچھلے دنوں ہفتے کی رات نشتر پارک کراچی میں بزم ثقافت پاکستان کے زیراہتمام بہ عنوان ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘کل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔اس مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ ابتدا سے اختتام تک کسی بھی طور سیاسی رنگ غالب نہیں آیا ۔حیرت انگیز بات یہ بھی تھی کہ جنھیں ہم پردہ اسکرین پر بہ طور سیاسی لیڈر دیکھتے آئے ہیں۔وہی اس کے منتظمین تھے اور ایک ایک شاعر کو سر آنکھوں پر بٹھا کر اسے عزت اور مقام دیتے رہے ۔ایک بڑے سے اسٹیج پر رنگین بتیوںکے درمیان صرف شعراموجود تھے اور نیچے پنڈال میں سامعین کے درمیان عوامی رہنما بھی موجود تھے اور مشاعرے کی ابتدا سے اختتام تک وہیں موجود رہے ۔ایک ایک شاعر کا کلام سنا ،اس پر داد دیتے رہے ۔ان سیاسی رہنماؤں میں پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفٰی کمال، انیس قائم خانی، رضا ہارون،ارشد ووہرا،وسیم آفتاب اور دیگر شامل تھے ۔ مشاعرے میںدیگر شعبوںسے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات بھی شریک تھیں۔آرٹس کونسل پاکستان کے صدر جناب احمد شاہ اورگورنرسندھ جناب محمد زبیر بھی اس مشاعرے میں خصوصی طور پر شریک تھے اور نیچے پنڈال میں بیٹھ کر شعرا کرام کا کلام سنتے رہے۔ ایک بات جو اہم ہے وہ یہ کہ اس مشاعرے کا انعقاد اور اسے کامیاب بنانے میں اعظم خان اور ان کی جماعت کی محنت ،ان کا خلوص شامل ہے۔
مہمان شعرا کودوسرے شہر سے مدعو کرنا،فائیواسٹار ہوٹل میں ان کا قیام،نشتر پارک میں مشاعرے کی تزئین و آرائش،اسٹیج،تیاریاں ، انتظامات سبھی ان کے ذمے تھا۔ظاہر ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر مشاعرے کا انعقاد ایک آدمی کے بس کی بات نہیں لیکن اتنے ہی بڑے پیمانے پر کروانے کا خواب اس نے ضرور دیکھا تھا اور اس کو سچ بھی کر دکھایاتھا۔
مشاعرے کے لیے اس جگہ کا انتخاب بھی بہت اہم تھا۔نشترپارک کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس میدان میں ہمیشہ سیاسی پنڈال ہی سجتا رہاہے یا مذہبی تقریبات ہوتی رہی ہیں۔ کل پاکستان مشاعرے کی صدارت لاہور سے تشریف لائے معروف شاعر امجد اسلام امجدنے کی۔مقامی شعرا میں جناب انور شعورم، عنایت علی خان،خالد معین، اجمل سراج، فاضل جمیلی، ریحانہ روحی، اے ایچ خانزادہ، عمران شمشاد، ہدایت سائر، یاسمین یاس، سانی سید، عبدالرحمان مومن، جاوید پارس، سکندرمضطر، سلیم عکاس اور خاکساربھی شامل تھا۔ حیدرآباد سے عتیق جیلانی، لاہور سے رحمان فارس،وصی شاہ اور ملتان سے احمد رضوان بھی اس مشاعرے میں شریک تھے۔خوبصورت نظامت کے فرائض ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبرنے ادا کیے۔کوئی بھی مشاعرہ اس وقت تک کامیاب قرار نہیں پا سکتا جب تک اس کے سننے والے موجود نہ ہوں۔بزم ثقافت پاکستان کے زیر اہتمام اس مشاعرے میں سامعین کی تعدادکسی بھی عالمی مشاعرے کی تعداد سے کئی گنا زیادہ تھی اور یہی اس کے کامیابی تھی۔مشاعرے کے اختتام تک خواتین ،مرداور بزرگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ایک ایک شاعر کو توجہ سے سنا گیا ۔مشاعرے کے دوران گورنر سندھ جناب محمد زبیرکے ہاتھوں شعرا اوراور منتظمین کو ہدیۂ تہنیت بھی پیش گیا اور اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ اور گورنرسندھ نے منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور اظہار خیال بھی کیا۔مشاعرے کے اختتام پر پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفٰی کمال نے تمام شعرا کی آمدپران کا شکریہ ادا کیا اور مختصر سا اظہار خیال بھی کیا۔
دوستو! مشاعرے کی روایت برصغیرمیں برس ہا برس سے چلی آرہی ہے اور ہر دور میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا۔ اَدب سے شغف رکھنے والے اس کا بہرطور کسی بھی سطح پر اہتمام کرتے رہتے ہیں۔مشاعرے کی روایت اور اس کی اہمیت پر بے شمار مضامین کتابوں میںموجود ہیں جن سے ہمیں تاریخ میں ہونے والے مشاعروں کا احوال پڑھنے کو ملتا ہے۔صرف یہی نہیںبلکہ اُس عہد کی خالص اَدبی تہذیب اور اخلاقیات کا بھی علم ہوتا ہے۔یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جب کسی شہر میں مشاعرے کا اہتمام کیا جاتا تھاتو اس کے انتظار میں لوگ دن کاٹتے تھے اور اس کو سننے کے لیے دور دراز شہروں سے سامعین بلائے نہیں خود ذوق اور شوق سے آیا کرتے تھے۔ شہر میں ایک الگ ہی فضا ہوتی تھی۔پورا ماحول بنایا جاتا تھا۔لوگ مشاعرے میں شریک شعراکا کلام بہت محبت اور خلوص سے سنتے تھے۔کچھ سیکھ کر جاتے تھے۔نشترپارک کے اس مشاعرے نے تاریخ تاریخ کی یاد تازہ کردی۔
مشاعروں میں ناظمِ مشاعرہ کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔پورے مشاعرے کا دارومدار ناظم پر ہی ہوتا ہے۔ شعرا کو ان کے مقام پر بلانا،انھیں پڑھانااور مشاعرے میں موجود ایک ایک سامع کی توجہ پرنظر رکھنا ۔ناظمِ مشاعرہ اگر خوش گفتار،صاحب علم و مطالعہ اور شاعر بھی ہو تو سمجھیے مشاعرے کو چار چاند لگ گئے۔بہ حیثیت ناظم اس نشست کا میزبان وہی ہوتا ہے اور وہی ابتدا کرتا ہے اور یہ روایت برسوں ہی سے یونہی چلی آ رہی ہے۔آج کے مشاعروں میں ایک چیز جو مَیں نے محسوس کی وہ یہ کہ اب ناظم مشاعرہ بجائے میزبانی کے اپنے مقام کا تعین خود کرتا ہے کہ اسے کہاں پڑھنا ہے ، کس سے پہلے پڑھنا ہے اور کس کے بعد پڑھنا ہے۔کس شاعر کو اہمیت دینی ہے اور کسے نہیں دینی ہے۔کس کو کم سنانے کا کہنا ہے اور کس سے زیادہ سے زیادہ کلام سننا ہے۔ ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ اچھے اچھے شعرا سے کہا جاتا ہے کہ آپ اپنا ایک کلام سنائیے، وقت بہت کم ہے ۔ جب وہ خودکلام سناتا ہے تو ایک کلام جو اُسے پڑھنا ہے وہ پڑھتا ہے پھر وہ فلاں کی فرمائش پر دوسرا کلام سناتا ہے ۔اس کے بعد دوچار غزلیں کسی نہ کسی کی فرمائش پر اور آخری کلام اپنی فرمائش پر سنا کر واپس میزبانی کے فرائض انجام دینے لگتا ہے۔بھئی یہ کون سی روایت ہے؟؟حیرت کی بات یہ ہے کہ اب کوئی اس عمل کوروکتا بھی نہیں ۔خدارا اس غلط طریقے کو روایت کا حصہ بننے مت دیجیے۔نشترپارک کے اس مشاعرے میں بس یہی ایک ناخوشگوار بات تھی ۔امید ہے یہ عمل دوہرایا نہیں جائے گا۔ بزم ثقافت پاکستان کے منتظمین کو’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ کل پاکستان مشاعرے کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد ۔امید ہے اَدب کایہ چراغ آئندگان میں بھی جلتا رہے گا۔

حصہ