آم پھلوں کا بادشاہ

1838

حکیم راحت نسیم سوہروردی
آم جو پھلوں کا بادشاہ ہے، اس کا شمار برصغیر کے بہترین پھلوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک مقبول پھل ہے جسے برصغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ آم کو برصغیر کا جلیل القدر پھل، جنت کا میوہ اور دیوتاؤں کا بھوگ جیسے نام دئیے گئے ہیں۔ آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخشی کے لحاظ سے سب سے منفرد ہے اور برصغیر میں کاشت کے سبب سستا اور سہل الحصول بھی ہے۔ آم کا درخت خوب پھل لاتا ہے، اور اس کی سینکڑوں اقسام ہیں۔ برصغیر کو آم کا گھر بھی کہتے ہیں، یہاں کے قدیم باشندے بھی اسے بڑی رغبت سے استعمال کرتے تھے۔
فرانسیسی مؤرخ ڈی کنڈوے کے مطابق برصغیر میں آم چار ہزار سال قبل بھی بویا جاتا تھا۔ آج کل جنوبی ایشیا کے ممالک میں بڑے پیمانے پر تجارتی طور پر کاشت کیا جاتا ہے۔ جنوبی امریکا میں بھی بڑے پیمانے پر اس کی کاشت ہونے لگی ہے، مگر ذائقے، تاثیر اور اقسام کے لحاظ سے اب بھی برصغیر کو برتری حاصل ہے۔
ویسے تو آم کی متعدد اقسام ہیں جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا تاہم دو قسمیں عام ہیں: تخمی اور قلمی۔ کچا آم جس میں گٹھلی نہیں ہوتی، کیری کہلاتا ہے اور اس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔ اور بعض حالات میں اس کا استعمال بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ البتہ پکا ہوا آم شیریں اور کبھی کھٹا میٹھا ہوتا ہے۔ پکے ہوئے تخمی آم کا رس چوسا جاتا ہے اور قلمی آم کو تراش کر کھایا جاتا ہے۔ آم قلمی ہو یا تخمی، بہرصورت پکا ہوا لینا چاہیے، کیونکہ اس کے فوائد مسلّم ہیں اور یہ رسیلا ہونے کی وجہ سے پیٹ میں گرانی پیدا نہیں کرتا اور زود ہضم ہونے کے ناتے جلد جزوِ بدن بنتا ہے۔ پکا ہوا رسیلا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے استعمال کے بعد کچی لسی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اس طرح آم کی گرمی خشکی جاتی رہتی ہے۔ جو لوگ کچی لسی (دودھ میں پانی ملا ہوا) استعمال نہیں کرتے، وہ عام طور پر منہ میں چھالے یا پھوڑے پھنسیاں نکل آنے کی شکایت کرتے ہیں۔
آم کے بعد کچی لسی پینے سے جسم میں فربہی ہوتی ہے اور تازگی آتی ہے۔ معدہ، مثانہ اور گردوں کو طاقت پہنچتی ہے۔ آم کا استعمال اعضائے رئیسہ، دل و دماغ اور جگر کے لیے مفید ہے۔ آم میں نشاستہ دار اجزاء ہوتے ہیں، اس سے جسم موٹا ہوتا ہے۔ اپنے قبض کشا اثرات کے باعث اجابت بفراغت ہوتی ہے۔ آم جس قدر میٹھا اور رسیلا ہوگا اسی قدر گرم ہوگا۔ جس قدر کم میٹھا یعنی ترش ہوگا اسی قدر نیم گرم ہوگا۔ اپنی مصفی خون تاثیر کے سبب چہرے کی رنگت کو نکھارتا اور حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ ماہرینِ طب کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سب سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہے اور اس میں حیاتین الف و ج تمام پھلوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کچا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے ٹھنڈا ہوتا ہے اور ذائقے کے لحاظ سے ترش ہوتا ہے۔ یہ بھی اپنے اندر بے شمار غذائی و دوائی اثرات رکھتا ہے، اس کے استعمال سے بھوک لگتی ہے اور صفرا کم ہوتا ہے۔ موسمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے لو کے خدشات سے بچاتا ہے۔ البتہ ایسے لوگ جن کو نزلہ، زکام اور کھانسی ہو، انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ فائدے کے بجائے نقصان ہوسکتا ہے۔
آم جو پکا ہوا اور رسیلا ہو، تمام عمر کے لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ جو بچے لاغر اور کمزور ہوں اُن کے لیے تو عمدہ قدرتی ٹانک ہے۔ حاملہ عورتوں کو استعمال کرنا چاہیے، یوں بچے خوبصورت ہوں گے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں اگر استعمال کریں تو دودھ بڑھ جاتا ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل نہ صرف خون پیدا کرنے والا قدرتی ٹانک ہے بلکہ گوشت بھی بناتا ہے اور نشائی اجزاء کے علاوہ فاسفورس، کیلشیم، فولاد، پوٹاشیم اور گلوکوز بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے دل و دماغ اور جگر کے ساتھ ساتھ سینہ اور پھیپھڑوں کے لیے بھی مفید ہے۔ البتہ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ آم کا استعمال خالی معدہ نہیں کرنا چاہیے، اور آم استعمال کرنے کے بعد دودھ پانی ملا کر ضرور استعمال کرنا چاہیے، یوں آم کے فوائد بڑھ جائیں گے۔ بعض لوگ آم کھانے کے بعد گرانی محسوس کرتے ہیں اور ان کی طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو آم کے بعد جامن کے چند دانے استعمال کرنے چاہئیں۔ جامن آم کا مصلح ہے۔
آم کی مختلف اقسام
یوں تو آم کی بے شمار اقسام سامنے آچکی ہیں مگر پاکستان میں بکثرت پیدا ہونے والی اقسام درج ذیل ہیں:
دسہری :
اس کی شکل لمبوتری، چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد، نرم، ذائقہ دار اور شیریں ہوتا ہے۔
چونسا :
یہ آم قدرے لمبا، چھلکا درمیانی موٹائی والا، ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت) کے قریبی قصبے چونسا سے ہوئی۔
انوررٹول :
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ موٹا، چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے، گودا بے ریشہ ٹھوس سرخی مائل زرد، نہایت شیریں، خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے، اس کی گٹھلی درمیانہ بیضوی اور نرم ریشہ سے ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ (بھارت) کے قریب رٹول سے ہوئی۔
لنگڑا :
یہ بیضوی لمبوترا ہوتا ہے، اس کا چھلکا چکنا، بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے، گودا سرخی مائل زرد، خستہ، بے حد عمدہ، شیریں، رس دار ہوتا ہے۔
الماس :
اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ، چھلکا زردی مائل سرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔
فجری :
یہ بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ فجری کا چھلکا زردی مائل، سطح برائے نام کھردری، چھلکا موٹا اور نفیس گودے کے ساتھ ہوتا ہے۔ گودا زردی مائل سرخ، خوش ذائقہ، رس دار، ریشہ برائے نام ہوتا ہے، اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشہ دار ہوتی ہے۔
سندھڑی :
یہ بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے، اس کا سائز بڑا، چھلکا زرد چکنا، باریک، گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا زرد، شیریں رس دار اور گٹھلی لمبی و موٹی ہوتی ہے۔
غلام محمد والا :
یہ شکل میں گول ہوتا ہے، سائز درمیانہ، چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا، ہلکا ریشہ دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔
مالرا :
بہت بڑا سائز، گٹھلی انتہائی چھوٹی، چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔
نیلم :
سائز درمیانہ، چھلکا درمیانہ موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے۔
سہارنی :
سائز درمیانہ، ذائقہ قدرے میٹھا ہوتا ہے۔

آم بطور دوا

قدرت نے جتنے بھی پھل عطا فرمائے ہیں یہ موسمی تقاضے پورا کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اسی طرح آم موسم گرما کا پھل ہے اور موسم گرما میں دھوپ میں باہر نکلنے سے لُو لگ جاتی ہے، لُو لگنے کی صورت میں شدید بخار ہوجاتا ہے، آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، لُو کے اثر کو ختم کرنے کے لیے کچا آم گرم راکھ میں دبا دیں، نرم ہونے پر نکال لیں، اس کا رس لے کر ٹھنڈے پانی میں چینی کے ساتھ ملا کر استعمال کرائیں، لُو لگنے کی صورت میں تریاق کا کام دے گا۔
آم کے پتے، چھال، گوند، پھل اور تخم… سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کا اچار جس قدر پرانا ہو اُس کا تیل گنج کے مقام پر لگائیںُ بال چر میں بھی فائدہ ہوگا۔
آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی روزانہ بطور مسواک استعمال کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔
آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کریں، مرض جریان میں مفید ہے۔
جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو، آم کی جڑ کا چھلکا اور برگ شیشم ایک ایک تولہ لے کر ایک کلو پانی میں جوش دیں، جب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیں، پیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خودبخود جھڑ کر گر جائیں، سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں، صبح و شام دو دو ماشہ پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔
نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ بطرزِ نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہوجاتا ہے۔
جن لوگوں کے بال سفید ہوں، آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں، روزانہ تین ماشہ یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی، دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ ارنڈی کے درخت کی چھال اور سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔
آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے۔ اس لیے سیلان الرحم (لیکوریا)، آنتوں اور رحم کی ریزش، پیچش، خونیں بواسیر کے لیے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر اسے انڈے کی سفیدی یا گوند کے ساتھ دیا جاتا ہے۔
چھال کا رس چونے کے پانی کے ساتھ سوزاک میں ایک تیر بہدف دوا سمجھی جاتی ہے۔ تازہ چھال کا رس مرض آتشک کا بہترین علاج ہے۔ چھال سے نکلا ہوا گوند تلوؤں پر لگایا جاتا ہے۔ تیل اور عرقِ لیموں کے ساتھ بنایا ہوا مرہم خارش اور دوسرے امراضِ جلد میں استعمال کرایا جاتا ہے۔
آم کا کچا پھل (کیری) ترش اور مسہل ہونے کے علاوہ اسکربوط (مرض سکروی) کو ختم کرتا ہے۔
کیری کے چھلکے کو گھی میں تل کر شکر ملا کر کھانے سے کثرتِ حیض میں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا مستوی اور قابض ہوتا ہے۔ آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے، چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے اس لیے پرانی پیچش، اسہال، بواسیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔ پیچش میں آنوؤں کو روکنے کے لیے گری کا سفوف دہی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ نکسیر بند کرنے کے لیے گری کا رس ناک میں ٹپکایا جاتا ہے۔
دستوں کی شکایت میں آم کی گٹھلی کا مغز فائدہ مند ہوتا ہے۔ خاص طور پر پرانی گٹھلی زیادہ مفید ہے۔ اسے باریک پیس کر تین گرام کی مقدار پانی کے ساتھ کھانے سے دست رک جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے مخصوص ایام میں خون زیادہ جاری ہو یا خونیں بواسیر کی زیادتی سے روز بروز کمزوری بڑھ رہی ہو تو اس کے کھلانے سے شکایت رفع ہوجاتی ہے۔
ایک عجیب کرشمہ
جب آم کے درخت میں پھول آئیں اور وہ خوشبو دینے لگیں تو انہیں توڑ کر دونوں ہتھیلیوں میں اچھی طرح مَلیں، جب مَلتے مَلتے پھول ختم ہوجائیں تو مزید پھول لے کر مَلیں، تقریباً ایک گھنٹے تک آم کے پھولوں کو ہتھیلیوں پر مَلیں، اس کے تین چار گھنٹے بعد تک پانی سے ہاتھ نہ دھوئیں، ایسا کرنے سے ہاتھ میں ایک حیرت انگیز تاثیر پیدا ہوگی جو کرشمہ سے کم نہیں ہے۔ جس جگہ بچھو، بھڑ وغیرہ کاٹے محض اس جگہ ہاتھ رکھنے سے فوراً درد اور جلن موقوف ہوجاتی ہے اور ہاتھوں میں یہ تاثیر ایک سال تک رہتی ہے۔

حصہ