انجمن فروغ ِ ادب بحرین کے زیر ِ اہتمام، دسواں عالمی مشاعرہ ’بہ یاد ِ سعید قیس

985

خالد معین
شاعر نباض ِ حیات ہے ، ناقد ِ حیات ہے ، عصر ِ حاضر کا ترجمان ہے ،ماضی ،حال اور مستقبل کی تکون کو ایک لڑی میں پرونے والا نظر شناس ہے اور ساتھ ساتھ محبتوں کا سفیر بھی ہے ۔شاعر حسن ،نیکی اور خیر کا کلمہ گو ہے اور زندگی کے ساتھ معاشرے کے تضادات کو آئینہ دکھانے والا بھی ہے ۔تاہم محبت کے پیام بر اور محبتوں کے سفیر والی حیثیت شاید اُس کی سب سے بڑی پہچان کہی جا سکتی ہے ۔یہ محبتوں کی سفارت جب اپنے وطن سے باہر کسی دوسرے وطن میں اُس کے سپرد کی جاتی ہے تو اُس پر پہلے سے زیادہ ذمے داری عائد ہو جاتی ہے ۔کراچی سے بحرین کے ہوائی سفر کے دوران میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھااور سوچ رہا تھا بحرین کا موسم ،جو گرمیوں میں خاصا گرم رہتا ہے ،ان دنوں کیسا ہوگا اور معیاری مشاعرے کرانے والے والی ’انجمن فروغ ِ ادب ،بحرین ‘ کا نیا مشاعرہ کیسا رہے گا۔ بحرین کی مذکورہ ادبی تنظیم کے روح و رواں نوجوان شاعر، طاہر عظیم سے چند ذاتی ملاقاتیں اور سوشل میڈیا پر رابطے تو رہے لیکن اس بار اُن کی عملی کار کردگی کا دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جب کہ بحرین میں مزیدچند ذاتی دوستوں کی موجودی بھی حوصلہ افزا تھی ۔
ایمریٹس ائیر لائن کا سفر پُر سکون رہا ۔لطف کا مقام یہ بھی رہا کہ صبح چھ بج کر پچاس منٹ پر طیارے نے اُڑان بھری اور کیوں بحرین کا مقامی وقت کراچی سے دو گھنٹے پیچھے ہے ،اس لیے طیارے نے بحرین کے مقامی وقت کے مطابق تقریبا ً اُسی وقت وہاں لینڈ کیا ،جتنے بجے کراچی سے اُڑان بھری تھی ۔طاہر عظیم ائیر پورٹ پر موجود تھے اور اُن کے ساتھ ایک تازہ کار نوجوان شاعر عدنان افضال بھی تھے ۔ابتدائی ملاقات کے بعد ہم لوگ بحرین کے ایک ہوٹل آگئے ۔تھوڑی دیر فریش ہونے کا وقفہ دیا گیا ،اور اسی ہوٹل کے ایک اور کمرے میں موجود بھاول پور سے آئے ہوئے معروف اور خوب صورت لہجے کے شاعر، افضل خان بھی ہمارے کمرے میں منتقل ہوگئے ،اور یہ منتقلی آخری شب تک اپنی خوش گواریت کے ساتھ جاری رہی ۔افضل خان سے اگرچہ بھاول پور میں ایک ہی ملاقات رہی ،مگر ہم اُن کے کلام اور تازہ ادبی سرگرمیوں سے بڑی حد تک واقف ضرور رہے۔
مرحوم استاد شاعر ،سعید قیس کا نام بحرین کی ادبی ،ثقافتی اور تخلیقی فضا کے ساتھ مزید کئی حوالوں سے جڑا ہوا ہے ۔اُنہیں بابائے خلیج کا خطاب بھی دیا گیا اور اُن کے قریبی رفقا ،دوستوں،اہل ِ خاندان،چاہنے والوں اور شاگردوں نے اُنہیں نہ صرف یاد رکھا ہوا ہے بل کہ ہر سال اُن کی یاد میں ایک شان دار مشاعرے کی داغ بیل بھی ڈالی ہوئی ہے ۔ 16 دسمبر 1971ء کو برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے بحرین کی آبادی کم و بیش 77 لاکھ ہے ،رقبہ 694کلو میٹر ہے،سرکاری زبان عربی ہے جب کہ سکہ رائج الوقت بحرینی دینار ہے ۔گزشتہ کئی برسوں کے دوران جہاں دبئی اور ابو ظہبی نے اردو زبان کے فروغ اور پاک و ہندمشاعروں کی تاب ناک روایت کو آگے بڑھایا ،وہیں بحرین نے بھی اس روایت میں اپنا منفرد حصہ ڈالا ہے ،اور بحرین کے سنجیدہ ،معیاری اور خوب صورت مشاعروں کی گونج پاکستان کے ادبی حلقوں میں سنی جاتی رہی ہے ۔بحرین میں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد بہ سلسلہ ٔ روزگار موجود ہے ،وہیں بھارتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں ایک طویل عرصے سے آباد ہے ۔اس طرح بحرین کے مشاعروں میں ایک جانب پاکستانی اور بھارتی سامعین کی مشترکہ موجودی، مشاعروں کے روایتی حسن میں اضافہ کرتی ہیں ،وہاں بھارتی شعرا کی آمد بھی پاک ہند مشاعروں کی خوش گوار اور تخلیقی روایت کو آگے بڑھاتی ہے۔اس کا مظاہر ہ بحرین کے ہونے والے دسویں سالانہ مشاعرے کے دوران دیکھنے میں آیا ،تاہم مشاعرے کی مختصر دوداد سے قبل کچھ اور پُر لطف یادوں کا بیان ہوجائے ۔
نوجوان شاعر ،طاہر عظیم کو بحرین کے مشاعرے سے پہلے نسبتا ً دور دور سے دیکھا ،اس بار قدرے قریب سے دیکھنے ،سمجھنے اور برتنے کا موقع ملا ۔طاہر عظیم اپنے ٹھنڈے مزاج ،سلجھے ہوئے رویوں اور حالات و واقعات کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کا غیر معمولی ملکہ رکھتا ہے ،وہ بحرین کے ایک اہم سرکاری محکمے سے وابستہ ہے اوربرسوں سے بحرین میں مقیم بھی ہے ۔اس کے ساتھ وہ بحرین کے ادبی و ثقافتی منظر نامے کا چشم دید گواہ بھی ہے،اس کا حصہ بھی ہے اور اس منظر نامے کو سنوارنے میں کوشاں بھی ہے ۔ بزرگ اور مرحوم شاعر ،سعید قیس سے اُس کا عشق اور طویل وابستگی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔طاہر عظیم ایک سچا اور کھرا نوجوان ہے ،چیزوں ،لوگوں اور معاملات کے بارے میں اُس کی رائے اور اس رائے کے بر ملا اظہار نے یقینا اُس کے لیے بحرین اور بحرین سے باہر جہاں بے پناہ محبتوں کے در کھولے ہیں ،وہیں چند مخالفین بھی پیدا کیے ہیں ،مگر وہ سب سے بے نیاز شعرو ادب کی تخلیقی فضا کی آب یاری میں منہمک ہے ،اُسے نہ اپنوں کی ستایش درکار ہے اور نہ وہ مخالفین کو خاطر میں لانے والا ہے ۔ اُس کا یہی رویہ اپنی شاعری کے ساتھ بھی ہے ،شعر اُس کے لیے ایک مقدس تحریک ہے اور وہ معیاری شعر کے ساتھ معیاری شعرا کا عاشق ہے،حیرت ہوتی ہے کہ وہ ایک بلوچ ہے اور اردو سے اتنا عشق کرتا ہے ،خوش رہو پیارے صاحب ۔
طاہر عظیم کے ساتھ متعارف ہونے والے نوجوان کا نام عدنان افضال ہے ،یہ وہی تازہ کار شاعر، عدنان افضال ہے ،جو پہلے عدنان تنہا کے نام سے ادبی منظر نامے کا حصہ تھا ۔اس نوجوان کے اندر معصومیت بھی ہے،سمجھ داری بھی ہے اور شعری منظر نامے پر اُبھرنے کے لیے ذوق و شوق بھی ہے ،اس نوجوان کے باہر بڑا سکون دکھائی دیتا ہے ،مگر لگتا ہے کہ اس کے اندر کبھی کبھی کوئی طوفان بھی سر اٹھاتا ہے ،جسے وہ دبا دیتا ہے اور خود کو مصروف کر لیتا ہے ۔ اُدھرطاہر عظیم نے مشاعرے میںمقامی لکھنے والوں کے ساتھ پاک و ہند کے جن شعرا کا انتخاب کیا ،اُن پر سرسری سی نظر ڈالنے ہی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ شعرا مشاعروں کی عام چلت پھرت میںمشاقی رکھنے والے نہیں ،البتہ ان شعرا کی شاعری تخلیقی معیارات پر ضرور پورا اترتی ہے،اور یہ شعرا ادبی حلقوں میں اپنا ایک مقام بھی رکھتے ہیں ۔مشاعرے سے قبل ممتاز بھارتی بزنس مین اور ادب نواز شخصیت سلمان صاحب کے گھر ایک پُر تکلف ظہرانے کا اہتمام تھا ۔اس بہانے تمام شعرا سے وہاں ملاقات کی صورت نکل آئی ۔ وہیںبھارت سے آئے ہوئے معروف ناظم ِ مشاعرہ اور شاعر ،منصور عثمانی سے طویل عرصے کے بعد ملاقات کی سبیل نکلی ، بھارتی شاعر،شارق کیفی ہمارے آبائی شہر بریلی سے تعلق رکھتے ہیں ،اور سنجیدہ شاعری میں اپنی جدا گانہ پہچان رکھتے ہیں ،بھارت ہی سے آئے ہوئے ایک نوجوان شاعر مشتاق احمد مشتاق سے بھی اس نشست میں ملاقات ہوئی ۔تعارف ہوتے ہی ہم نے ازراہ ٔ مذاق مشتاق سے پوچھ لیا ،آپ کا ترنم تو بڑے غضب کا ہوگا ؟اُنہوں نے جواباً یہ بتا کر حیران کر دیا کہ وہ ترنم سے نہیں تحت الفظ میں پڑھتے ہیں ۔ معروف شاعر ،عرفان ستار نے یوں تو ساری زندگی کراچی میں گزاری ،تاہم اب وہ کینڈا منتقل ہو چکے ہیں اور وہاں کے ادبی منظر کو چند برس سے ایک نئی ترتیب دینے میں مگن ہیں ۔عرفان ستار چند ماہ پہلے کراچی آئے تھے ،ان سے کچھ ملاقاتیں بھی رہیں تھیں ،اُن سے دوبارہ ملاقات ہونے کی خوشی اپنی جگہ رہی ۔ ممتاز مزاحیہ شاعر ،انور مسعود اس وقت پوری ادبی دنیا میں اپنی منفرد اردو اور پنجابی شاعری کے سبب عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ،اور ساتھ ساتھ اپنی منکسرالمزاجی کی وجہ سے بھی ہر دل عزیز ہیں ۔انور مسعور کے ساتھ اُن کے صاحب زادے عمار مسعود بھی تھے ،جو افسانہ نگار ہیں اور پی ٹی وی ’کے ادبی و ثقافتی پروگرام ’رات گئے ‘ کے میزبان بھی ہیں ۔اسی ظہرانے میں معروف سینیر صحافی شاہد نعیم اور بحرین میں مقیم پاکستانی ادب نواز دوست، خرم عباسی سے بھی ملاقات رہی اور ظہرانے کے بعد انورمسعود کی دل چسپ باتوں اور صحبت سے تمام احباب خوب لطف اندوز ہوئے ،اس کے بعد کچھ دیر تک فوٹو سیشن چلتا رہا ۔شام ہوتے ہوتے مشاعرے کی آمد کا شور بھی مچ گیا ۔طاہر عظیم تو اپنے رفقا کے ساتھ مشاعرے کے انتظامات میں مصروف تھے ۔اس دوران ہم اور افضل خان موقع غنیمت جان کے عرفان ستار کے ساتھ گپ شپ کرنے اُن کے ہوٹل جا پہنچے ،جو ہمارے ہوٹل سے کچھ فاصلے پر تھااور اسی ہوٹل میں مشاعرے کا شان دار پنڈال بھی سج رہا تھا ۔
ایک دن کے قیام کے دوران بحرین کو آتے جاتے دیکھنے کا موقع ملتا رہا ،سڑکیں صاف ستھری ،فٹ پاتھ کشادہ ، جدید ڈیزائن کی عمارتیں بڑی دیدہ زیب ،مختلف جگہوں پر سمندری پانی کے ساتھ عمدہ تفریح گاہیں ،ٹریفک کا نظام قابو میں ،ہر گاڑی سگنل کی پابند ،لیکن رش کے اوقات میں سنا کہ کراچی کی طرح یہاں بھی ٹریفک جام ہو جاتا ہے ، البتہ لوڈ شیڈنگ نام کو نہیں ،پانی ہر وقت موجود لیکن پینے کے لیے تمام بحرین منرل واٹر پر انحصارکرتا ہے اور زندگی میں پہلی بار منرل واٹر کی قدرے چھوٹی چھوٹی بوتلیں دیکھیں ،پوچھنے پر بتایا گیا کہ بحرین کی مقامی آبادی اور پورا بحرین پینے کے پانی بڑی قدر کرتا ہے اور یہاں پانی کے زیاں کو عملاًبُرا تصور کیا جاتا ہے ،اور یہ ہم ایسے پانی کا زیاں کرنے والوں کے لیے ایک بڑا سبق بھی ہے ۔
جاری ہے

حصہ