لوٹ کے بدھو گھر کو آئے

653

سید اقبال چشتی
بر صغیر کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پرانی اور کئی نئی بننے والی سیاسی جماعتوں نے اپنی پارٹی کی کامیابی کے لئے عصبیت کا سہارا لیا بھارت ، بنگلہ دیش میں بھی یہی سیاست ہے لیکن پاکستان میں ایسی پارٹیاں ملکی سطح پر کامیابی حاصل نہ کر سکیں اور جو سیاسی پارٹیاں کبھی ملک گیر پارٹیاں شمار ہو تی تھیں کئی بار وفاق میں حکومت بنانے کے بعد بھی عوام کو کچھ نہ دے سکیں جس کی بنیاد پر ایسی پارٹیاں سمٹ کر صوبے کی حد تک محدود ہو گئیں اور ایسی پارٹیوں نے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے زبان اور اپنی قوم کا نعرہ لگایا جن میں قابل ذکر اے این پی ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہیں۔
اے این پی زبان کی بنیاد پر سیاست کر نے کی وجہ سے صوبہ کے پی کے تک محدود ہو گئی اسی طرح پیپلز پارٹی اب سندھ کی جماعت بن چکی ہے کیو نکہ دیگر صو بوں میں پیپلز پارٹی کی سیاست دم توڑ چکی ہے ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر حقوق کی جدوجہد کے لئے قائم ہو ئی اور اردو بو لنے والے مہاجروں نے اپنے بہتر مستقبل کے لیے ایم کیو ایم کو راتوں رات بلندی تک پہنچا دیا اور ایم کیو ایم اپنے نعروں کی بدولت وفاق اور صوبے میں حکومتوں کے اندر آگئی اور مہاجر قوم اس بات سے خوش ہو گئی کہ اب ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے لیکن مہاجر قوم جہاں کھڑی تھی اس مقام سے بھی پیچھے چلے گئی تیس پینتیس سال میں لفظ ’’مہاجر‘‘ کے نام پر خوب سیاست چمکائی گئی اور ہر الیکشن جیتا گیا مگر جن کے خلاف نعرے لگاتے تھے اُن ہی کی گود میں مہاجر مینڈیٹ ڈال دیا اور وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ نے ایم کیو ایم کو استعمال کیا اور کچھ لوگوں نے خوب مزے کیے اور ممبران اسمبلیوں نے اربوں کمائے مگر مسائل جوں کے توں رہے اور جن وعدوں پر ایم کیو ایم بنی تھی ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا اور آج حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم تین چار گروپ میں بٹ چکی ہے‘ ہر گروپ اس بات کا دعویدار ہے کہ ہم اصل میں مہاجروں کے وارث ہیں اور ایک بار پھر سے لفظ مہاجر کا استعمال کر کے اردو بو لنے والوںکو بے وقوف بنانے کے لیے ’’جاگ مہاجر جاگ‘‘ کا نعرہ لگایا جا رہا ہے اس نعرے کے پھر سے لگانے کا مطلب یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے جہاں سے مہاجروں کے مسائل اور حقوق کے لیے جدو جہد کا آغاز کیا تھا آج پینتیس سال بعد نتیجہ صفر نکلا ہے دنیا گول ہے کے مصداق جہاں سے چلے تھے پھر اسٹارٹ لائن پر ہی پہنچ گئے اس عرصے میں شہروں میں آباد اردو بو لنے والوں نے کیا کھویا کیا پایا کوئی جائزہ لے گا‘ گزشتہ پینتیس سال میں مہاجر سیاست نے شہر کراچی سمیت مہاجروں کو اور اس شہر کو کیا دیا نفرت اور تشدد کی سیاست نے ایم کیو ایم اور اس کے ما ننے والوں کو کہاں لا کھڑا کیا ہے منی پاکستان اور روشنیوں کا شہر کہلانے والا شہر کراچی آج کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے
قوم کی بقاء کے لئے ایک بار پھر مہاجر لفظ کا سہارا لے کر کس بقاء کی بات کی جارہی ہے جہاں لفظ مہاجر سمیت سب کچھ تباہ ہو گیا تعلیم ، صحت ، روزگار، امن و امان اور حقوق مانگتے ما نگتے مہاجر اور شہر کراچی خود فنا ہو گیا لیکن اب بھی ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جو عصبیت سے پاک ہے اور واقعی اس شہر کے مسائل کو حل کرسکتی ہے جس کا نام جماعت اسلامی ہے اور جس کے سٹی ناظم نے شہر کا نقشہ بدل کر یہ ثابت کیا تھا ہم ہی اس شہر اور اس کے باسیوں کے لئے بقاء کا کام کر سکتے ہیں ایک بار پھر الیکشن قریب ہیں لیکن ایم کیو ایم انتشار کا شکار ہے کیو نکہ جس طرح الیکشن میں دھاندلی اور ٹھپہ لگایا جاتا تھا اس پر الیکشن کمیشن سمیت ہر ادارہ اندھا ، بہرا اور گو نگا بن جاتا تھا شاید اُو پر سے آڈر ملتے ہوں ایک پارٹی جو عوامی حمایت کھو چکی ہو اس کو مصنوعی تنفس فراہم کرنے کا نتیجہ آج یہ نکل رہا ہے کہ روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اور اس شہر کا کوئی پر سان حال نہیں اور اب ایم کیو ایم کے سیاسی تنازعات کی وجہ سے جوسیاسی خلا پیدا ہوا ہے اس پر پیپلز پارٹی اسے اپنا شہر کہہ رہی ہے لیکن اس شہر کی تباہی میں جتنا ایم کیو ایم کا حصہ اسی طرح اس میں پیپلز پارٹی برابر کی شریک ہے کیو نکہ ہر حکومت میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی رہے ہیں اب پیپلز پارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ عصبیت کی سیاست نے کراچی کو تباہ کردیا ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما کہہ رہے ہیں ہم شہری اور دہی کا فرق ختم کرنا چاہتے ہیں مگر ایم کیو ایم پھر سے نفرت کی آگ بھڑکا کر لسانی سیاست کے ذریعے سندھ کے باسیوں کو لڑوانے کی کو شش کر رہی ہے لیکن شاید پیپلز پارٹی یہ بات بھول جاتی ہے کہ جب تک ایم کیو ایم سندھ حکومت کا حصہ رہی اس وقت تک دونوں نے نا شہری اور دہی کا فرق ختم کیا اور نہ دو نوں پارٹیوں نے سندھی اور مہاجر کی سیاست کو ترک کیا اس لئے الیکشن کے قریب صوبہ سندھ کو تباہ و بر باد کر نے والے ایک بار پھر سے عصبیت کا نعرہ لگا رہے ہیں تا کہ پھر سے اپنی قوم کو بیوقوف بنا یا جائے اور ایک بار پھر اسمبلیوں میں آسکیں یہ سب چالیں صرف اپنے ووٹرکو فریب دینے کے لیے چلی جا رہی ہیں مگر ووٹر بھی اب واقعی ووٹ کو تقدس دو کے نعرے کو سمجھ چکا ہے اور اپنے اور شہر کے مفاد کے لئے ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے والوں سے نجات کا خواہشمند ہے تاکہ اس کی آئندہ نسلیں سکھ اور چین سے زندگی بسر کر سکیں کیو نکہ جن لوگوں نے بھی عصبیت کے نعرے پر اپنی اپنی پارٹی کا ساتھ دیا ان کو سوائے محرو میوں ، لاشوں، اپنے پیاروں کی گمشدگی اور بے شمار مسائل کے سوا کچھ نہیں ملا اس کا ثبوت ایم کیو ایم کے جلسہ میں شر کاء کی تعداد اور رہنمائوں کے خلاف نعرے اور بینرہیں اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیس سال مہاجر کارڈ کا میابی سے چلا مگر اب یہ نعرہ چلے ہو ئے کارتوس کی طرح ہے جو کسی کام نہیں آئے گا ۔
مہاجر قوم نے ایم کیو ایم کو قومی اسمبلی کی 19 اور صو بائی اسمبلی کی 37 سیٹوں پر پہنچایا لیکن مہاجر قوم کی قسمت کا ستارہ کبھی چمک نہیں سکا وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور ساتھ ہی 12 سال گو رنر سندھ رہنے والے افراد آج کہاں ہیں وزیراور گورنر رہنے والے تمام افراد ملک سے باہر مزے سے زندگی گزار رہے ہیں اور جو ملک میں ہیں اپنی ڈرائی کلین کرانے کی فکر میں ہیں اور کچھ کرا کے ادھر اُدھر ہو چکے ہیں اور اب تین حصوں میں منقسم ایم کیو ایم لفظ مہاجر کا چورن جب تک بے وقوف زندہ ہے عقلمند بھو کا نہیں مر سکتا کے مصداق لے کر آئیں ہیں کیا ایم کیو ایم نے جاگیر داروں، سر مایہ داروں کے خلاف نعرے نہیں لگائے تھے نفرت کی بنیاد پر پنجابی اور سندھی کے خلاف باتیں نہیں کی گئی تھیں لیکن مہاجروں نے جو مینڈیٹ اپنوں کو دیا تھا وہ مینڈیٹ اپنوں نے انہی کی گو د میں لے جا کر ڈال دیا جن کے خلاف مینڈیٹ لیا گیا تھا ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ دو نوں جما عتوں کے اتحاد کے بعد شہری اور دہی کے فرق کے ساتھ تمام مسائل حل ہو جاتے اور جن شرائط پر ایم کیو ایم وزارتوں کو قبول کرتی رہی ان کی بنیاد پر مہا جروں کو وہ حقوق مل جا نے چائیے تھے جن کی بنیاد پر ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی لیکن اپنی کو تاہیوں اور لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے لئے دو نوں پارٹیوں نے کراچی کو ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کا شہر بنا دیا کراچی جرائم کر نے والوں کی جنت بن گیا جن میں پیش پیش اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں کے مصداق ایم کیو ایم ہی ملوث رہی زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے اور لوٹ مار کی رقم لندن بھیجنے کے لئے ہر کسی نے اپنوں کو نقصان پہنچایا یہاں تک کہ بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ فیکٹری کے مزدورں کو زندہ جلا دیا گیااس پر بھی لسانی سیاست کی گئی کتنے ہی افراد نا معلوم لو گوں کی گو لی کا نشانہ بن گئے مگر مہا جروں کو ہو ش نہیں آیا مگر کہتے ہیں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے کراچی کو بیرونی ایجنڈے پر شیطانی چا لیں چلنے والے سمجھ رہے تھے کہ ہم کا میابی حاصل کر رہے ہیں لیکن شیطان کی چال نہیں اللہ کی چال کا میاب ہو ئی اور اب ایم کیو ایم تین چار حصوں میں تقسیم ہو کر خود وہ تمام باتیں بتا رہے ہیں جنھوں نے کراچی اور مہاجروں کو تباہ کر نے کے حوالے سے کی تھیں اگر ادارے اور اعلیٰ عدلیہ ان تمام جرائم پر نوٹس لیں تو یقینا سچ اور جھوٹ سا منے آجائے گا لیکن لگ یہی رہا ہے کہ ابھی بیرونی ایجنڈا ختم نہیں ہوا اس لئے گھنائونے جرائم اور عدلیہ کو مطلوب ہو نے کے باوجود ان لو گوں کا آزاد گھو منا اس بات کی نشاندہی ہے کہ ابھی کھیل ختم نہیں ہوا اسی لئے ایک بار پھر جاگ مہاجر جاگ کا نعرہ لگایا گیا ہے لیکن یہ نعرہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کی طرح ثابت ہو گا کیو نکہ مہاجر واقعی جاگ گیا ہے کہ کون ان کا دشمن اور کون ان کا مخلص دوست ہے ۔

حصہ