بچنا کس چیز سے؟

530

افشاں نوید
مختلف پوسٹیں سوشل میڈیا پر دیکھیں، آج سنڈے میگزین نظر سے گزرا کہ خواتین رمضان سے قبل مہینہ بھر کا باورچی خانے کا کام ہلکا کرلیں، مثلاً لہسن پیس کر رکھ لیں، پیاز کئی کلو براؤن کرکے پیس لیں، سموسے رول مہینہ بھر کے بنالیں، ٹماٹر کو ابال کر پیس کر فریز کرلیں۔ ایک خاتون نے کہا: چاول بھگو کر خشک کرکے تھیلیوں میں رکھ لیں، ایک خاتون نے ٹی وی پر مشورہ دیا کہ فروٹس کاٹ کر زپ لاکس میں رکھ لیں، شیک اور چاٹ کے کام آئیں گے، وقت بچے گا۔ مزید مشورے: سفید اور سیاہ چھولے اُبال کر پیکٹ بنالیں، دال کے بٖڑے تل کر پیکٹ بنا لیں۔ ایک مشورہ یہ تھا کہ املی کی میٹھی چٹنی، کیریوں کی کھٹی میٹھی چٹنیاں جار میں بھر کر رکھ لیں، اور کچھ سبزیاں ابال کر، کچھ بغیر ابلی فریز کرلیں۔ ایک سگھڑ خاتون نے کہا: پراٹھے اَدھ کچے مہینہ بھر یا ہفتہ بھر کے بناکر فریز کردیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کریں؟ گھر کے کام کاج کو دماغ پر سوار کیوں کرلیں؟ اگر ہم ملازمت پیشہ ہیں تو فکر دوسری طرح کی ہوگی، وہ خواتین تو روزمرہ کے معمولات میں بھی یہ سب کچھ کرتی ہی ہوں گی۔
مشورے ہیں کہ وسط شعبان سے یہ تیاریاں شروع کردیں… اور ہم سارے سر دھن رہے ہیں کہ واقعی عورت کتنی مجبور ہے کہ خانگی امور کا بوجھل پن اور رمضان کے تقاضے…!!!
ہمارے بچپن میں فریج ایجاد ہوچکا تھا مگر ایسی تیاریاں ہم نے نہیں دیکھیں۔ گھر میں ایک یا دو چولہے ہوتے تھے اور ہر گھر میں ماسی بھی نہیں آتی تھی، نیز عید کے کپڑوں کی سلائی گھر پر ہوتی، لٹھے کے تھان سے مردانہ سفید شلواریں اور پاجامے بھی گھر میں سلتے۔ لڑکیوں بالیوں کے کپڑوں پر کڑھائیاں، ٹکائیاں بھی ہوتیں، محلے میں افطاری بھی ہوم میڈ تقسیم ہوتی، افطار پارٹیاں بھی ہوتیں، عید پر گھر آنے والوں کو سِل پر پسے ماش کی دال کے بھلے بھی پیش کیے جاتے۔
پھر اب وقت کہاں چلا گیا؟ کیا ہماری عبادتیں، ریاضتیں بہت بڑھ گئی ہیں؟ یا وہ ناخواندہ تھے، ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ… اس لیے اتنے فکرمند ہیں کہ رمضان میں باورچی خانے کا کیا ہوگا؟ ایسا کچھ ہوجائے کہ بٹن دبائو تو کھانے کی تھیلیاں لڑھک کر مائیکرو ویو میں چلی جائیں، اور روبوٹ ٹیبل تک سموسے، دہی بھلے، فروٹ چاٹ، شیک، بریانی، کوفتے سب سجا دے۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ گھر کے کام عبادت ہیں؟
اپنے گھر والوں کو لذتِ کام ودہن سے بچانے کے بجائے کھٹی میٹھی چٹنیوں کو فریز کرنے کے چکر میں پڑگئے۔
جتنا بھرا ہوا فریزر ہوتا ہے، دماغ اتنا ہی بوجھل ہوتا ہے کہ کون سی چیز زیادہ پرانی نہ ہوجائے؟ فریزر کو خالی کرنا ایک دردِسر کہ تازہ کھانے کی خواہش مگر بھرا فریزر دماغ پر سوار۔
لوڈشیڈنگ جہاں پانچ سے پندرہ گھنٹے تک ہے وہاں یہ مشورے چہ معنی دارد؟
ہم کتنی عبادت کرتے ہیں کہ گھر کے کام حائل ہوجائیں گے! اور کھانا پکانا وقت کتنا لیتا ہے! بلکہ آپ باورچی خانے میں جاتی ہیں تو روزے کی قدر بڑھتی ہے کہ خود بھوک، پیاس میں اہلِ خانہ کے لیے اس قربانی کا کتنا اجر ہوگا۔
ہم سب کے گھر چولہوں میں پانچ برنر ہیں، یا کم از کم تین تو ضرور ہیں۔ اگر آپ عصر کی نماز پڑھ کر تلاوت کرکے باورچی خانے میں جاتی ہیں، آپ کے ساتھ بہو، بیٹی کی صورت میں کوئی مددگار ہے تو ایک گھنٹہ کافی ہے ہر طرح کے پکوان کی تیاری کے لیے۔
سوال یہ ہے کہ دسترخوان پر ہر روز سموسے، رول، پکوڑے اور چھولے کیوں ہوں؟ کیا افطار کے لیے کوئی ایک مشروب اور کھجور کافی نہیں؟ مشروب لسّی بھی ہوسکتی ہے… سیب، چیکو یا کھجور کا شیک بھی۔ پھر کھانا تو تیار ہی ہے، نمازِ مغرب کے فوراً بعد کھانا لگائیں، تراویح سے قبل کچھ سستانے اور کام سمیٹنے کا وقت بھی مل جائے گا، پھر تراویح کے بعد باورچی خانے کا جھنجھٹ بھی ختم۔
کھانے میں سالن ہو یا چاول وغیرہ… خوب بھوک ہو تو دال چاول بھی سلاد کے ساتھ مزا دے جاتے ہیں۔ افطاری سے بوجھل پیٹ بریانی اور کوفتوں کی بھی لذت محسوس نہیں کرتا۔
اصل امتحان کا وقت ہے عصر اور مغرب کے بیچ، جب نفس کی خواہشیں ابھر ابھر کر سامنے آتی ہیں کہ کتنے بے چارے ہو تم کہ سارے دن کی بھوک اور پیاس کی مشقت کے بعد اب تو افطار سے بھرا دسترخوان تمھارا حق بنتا ہے۔
آپ غور کیجیے، جب طرح طرح کے مشروبات، نت نئی ڈشز طبیعت کو بوجھل کردیتی ہیں تو خود بچے کہتے ہیں کہ کل اتنا نہ بنائیے گا۔ مگر ہم نفس کی جنگ ہار جاتے ہیں کہ بچوں کا بھی آخر دل ہے، یا میاں چپ ہیں توکیا، خوش تو وہ بھی ہوں گے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ آپ کے روزے کا اصل امتحان آپ کے افطار کے دستر خوان پر ہوتا ہے کہ نفس کو مارنے کی کتنی تربیت ہوئی ہے آپ کی؟
ہر گھر کے تقاضے مختلف ہوں گے، سب کے لیے ایک مشورہ نہیں ہوسکتا۔
جب واشنگ مشین تھی نہ ماسیاں، ہماری والدہ فجر کے بعد سوتی نہیں تھیں، نہ رمضان ٹرانسمیشن کی بربادیاں تھیں، نہ بازاروں کی الفت، نہ برینڈز کا جنون۔ وقت وہاں سے بچانا ہے۔ گھر والوں کو فریزر کی سبزیاں اور مہینہ بھر پرانے کوفتے، کباب اور بریانی کھلانے سے گریز کریں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دستر خوان کیسے ہلکا ہوکہ معدہ ہلکا ہو اور عبادت کا لطف آئے۔
گیارہ مہینے خوب کھایا ہے، اب بھی صرف کھانے ہی کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ پیٹ خالی بھی ہے تو کیا، فریزر تو ماشاء اللہ لبالب بھرا ہوا ہے کہ ایک چیز نکالنے میں بھی دس منٹ لگ جاتے ہیں۔
اب کھانے سے آگے کا سوچنا ہے۔گھر کے کام خالصتاً عبادت ہیں۔ کام کو ہلکا کریں خواہشوں پر ضرب لگا کر۔ رمضان فرمائشی پروگرام نہیں ہے کہ ہر ایک کی الگ فرمائش۔
گھر کے مرد بھی کام میں ہاتھ بٹائیں تو کوئی ذمے داری بوجھل نہیں ہوتی۔
رمضان کے کاموں کو قبل از رمضان بوجھ نہ سمجھیں کہ ہلکان ہوجائیں کہ اور کیا رہ گیا، رمضان سر پر آگیا!!! یہ رمضان کی تیاری نہیں ہے۔ رمضان کی تیاری تو تہجد کی بیداری، کم کھانے کی مشق اور قرآن سے تعلق کی استواری ہے۔
رمضان تو مشقت کا مہینہ ہے۔ غزوات اور فتح مکہ کا ماہِ مبارک ہے۔ اس ماہ میں اسلامی تاریخ کی بڑی بڑی فتوحات ہوئی ہیں۔
ایک مسلمان عورت کے لیے خانگی ذمے داری نہ بوجھ ہے، نہ یہ ہلکان ہونے کے عنوانات۔ سپر اسٹورز پر سب مسالے بشمول لہسن، ادرک پاؤڈر دستیاب ہیں۔ ضرورت ہے اپنی خواہشات کی فہرست کو مختصر کرنے کی۔ اور جب موسم اچھا تھا پانی بھی وافر، مٹی بھی خوب زرخیزی پر تھی۔ میں اپنا کھیت ہی نہ سینچ سکی، نہ گھر والوں کو سمجھا سکی۔
افطار کے بعد ایک روز بی بی عائشہؓ نے خواہش ظاہر کی تھی کہ زیتون کی چپڑی روٹی کے ساتھ کوئی سالن ہوتا توکتنا اچھا ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عائشہؓ! کیا زیتون کے ساتھ بھی سالن کی گنجائش رہتی ہے؟‘‘
بس بچنا اسی لذتِ کام ودہن سے ہے اور خواہشوں کے سراب سے… لعلکم تتقون… سب کا بچنا الگ الگ ہوگا، اس لیے کہ سب کے نفس کے تقاضے الگ الگ ہیں۔
علامہ شنقیطی رحمۃ اللہ سے پوچھا گیا: عبادت کے موسموں کا استقبال کیسے کریں؟
فرمایا: استقبال کے لیے بہترین چیز استغفار کی کثرت ہے، اس لیے کہ گناہوں کی وجہ سے بندہ عبادت و اطاعت کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے۔
جو بندہ استغفار کو لازم پکڑ لیتا ہے (استغفار کی کثرت کرتا ہے) تو:
٭وہ گناہوں سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔
٭ اگر وہ کمزور ہے تو طاقتور بن جاتا ہے۔
٭بیمار ہے تو مکمل شفایاب ہوجاتا ہے۔
٭کسی مصیبت میں مبتلا ہے تو خلاصی پالیتا ہے۔
٭اگر حیران و سرگرداں ہے تو ہدایت پالیتا ہے۔
٭ بے چین ہے تو قرار نصیب ہوجاتا ہے۔
٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے لیے سب سے بڑی امان استغفار ہی ہے۔
حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’اگر آسمان سے بجلی گر پڑے تو استغفار کرنے والے بندے پر نہیں گرے گی۔‘‘

حصہ