برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

635

قسط نمبر 136
چودہواں حصہ
۔6 ستمبر کی رات پاکستان پر ہندوستان زمینی حملہ تو کر ہی چکا تھا، جس کی کچھ تفصیل ہم پچھلی اقساط میں آپ تک پہنچا چکے ہیں، تاہم یہاں یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان کو اپنی حربی صلاحیتوں، طاقت اور اپنی کمزوریوں کا بخوبی اندازہ تھا کہ وہ کسی بھی اعتبار سے ہندوستان کی برابری نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ پاکستان کی ہائی کمانڈ نے فیصلہ کیا کہ اگر اس جنگ میں اپنی برتری دکھانی ہے تو پھر ہمارے پاس فضائیہ سے اچھا کوئی اور ہتھیار نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت میں زمینی حقائق یہ تھے کہ سوائے ایمانی جذبے اور ماہرانہ صلاحیت کے ہمارا ہندوستان کی فضائیہ سے کوئی مقابلہ نہیں تھا، اور ہندوستان کی فضائی قوت کے مقابلے میں پاکستان کی فضائی قوت کچھ بھی نہیں تھی۔ ایک اور تین کا مقابلہ تھا۔ اس کے باوجود پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی اور آپشن بھی نہیں تھا۔
ہلواڑہ اور پٹھان کوٹ پر پاکستان نے پہل کرتے ہوئے اچھے حملے کیے، جن کی بدولت ہندوستانی فضائیہ پاکستان سے مرعوب دکھائی دینے لگی۔ مگر ہندوستان کا زمینی حملہ بدستور جاری رہا اور اس کی برّی فوج لاہور اور سیالکوٹ کی جانب پیش قدمی کرتی رہی۔ ہلواڑہ اور پٹھان کوٹ پر ہندوستان کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں اپنی فضائیہ کو رن وے پر کھڑے کھڑے تباہ ہونے کے بجائے فضاؤں میں بھیج کر پاکستان کے حملوں کو روکنا ہوگا، ورنہ ہندوستانی طیارے کھڑے منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
پاکستان چونکہ کمزور تھا اس لیے اس نے اپنا ترپ کا پتّا پہلے ہی سے پھینکنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ پٹھان کوٹ اور ہلواڑہ پر حملے اسی منصوبے کا حصہ تھے۔ پاکستان نے اب ہندوستان کے آدم پور کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ آدم پور سرگودھا فضائی مستقر سے 249 میل کی دوری پر تھا۔ یہ مقام ہوشیارپور کے نزدیک تھا۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے ہندوستان کی سرحدوں میں جانے کے بعد بھی تقریباً 98 میل کا سفر درکار تھا۔ اس اہم ترین دور دراز محاذ پر حملے کے لیے اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کو منتخب کیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کی قیادت میں آٹھ سیبر طیاروں کے ساتھ بیک وقت دشمن پر حملہ کیا جائے گا۔ مگر پاکستان کی بدقسمتی رہی کہ سرگودھا کا فضائی مستقر اس قدرمصروف رہا اور ائیر ٹریفک اتنا زیادہ تھا کہ ایک وقت میں کئی کئی طیارے رن وے پر موجود رہتے، جس کی وجہ سے طیاروں کو ٹیک آف میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا۔ چنانچہ حملے کا پلان اچانک تبدیل ہوا اور اس اہم ترین آپریشن میں ایم ایم عالم اپنے ساتھ دو سیبر طیارے ہی لے جاسکے۔
ایم ایم عالم اور اُن کے ہمراہ دو سیبر طیاروں نے اڑان بھرنے کے بعد مشرقی جانب رخ کرکے ہندوستان کا قصد کیا اور جلد ہی ہندوستان کی سرحد کے قریب پہنچ گئے۔ ان کے تینوں طیارے بلندی پر پرواز کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ آدم پور پہنچنا چاہتے تھے کہ راستے میں چار ہندوستانی ہنٹر طیارے فضائی گشت پر دکھائی دئیے۔ ایم ایم عالم نے سب سے پہلے ان ہنٹر طیاروں کو دیکھا اور اپنے پیچھے آنے والے پائلٹوں کو خطرے سے آگاہ کیا۔ ایم ایم عالم نے پہلی ہدایت جاری کی کہ ’’اپنے آپ کو بچاتے ہوئے دشمن کے ہنٹر طیاروں سے اوپر ہی اوپر آدم پور جانے کی کوشش کرو۔‘ُ
مگر دوسرے طیارے سے فلائٹ لیفٹیننٹ سعد حاتمی کا پیغام ملا کہ ’’سر! ہم ہندوستانی ہنٹر طیاروں کی نگاہ میں آچکے ہیں اور انھوں نے اپنا رخ ہماری جانب کرلیا ہے۔‘‘
اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے اگلا حکم جاری کیا: ’’فالو می! اینڈ اٹیک‘‘۔ مطلب یہ تھا کہ اب مجھے دیکھتے جاؤ اور دشمن کا فضا میں ہی مقابلہ کرو۔
چنانچہ ایم ایم عالم نے دشمن کے ہنٹر طیاروں کو چکمہ دینے کے لیے اپنے طیارے کو دائیں بائیں غوطے دینے شروع کیے اور ان پر حملے کی مناسب پوزیشن کا موقع تلاش کیا۔ فضا میں چار ہندوستانی ہنٹر کے سامنے تین پاکستانی سیبر طیارے تھے۔ جیسے ہی ایم ایم عالم کو حملے کی مناسب پوزیشن ملی، انھوں نے مشین گن سے فائر کھولنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے دو ہندوستانی ہنٹر طیارے زمین پر گرتے چلے گئے۔ اسکواڈرن لیڈر کے پیچھے آنے والے فلائٹ لیفٹیننٹ علاوالدین بُچہ اور سعد حاتمی نے بھی کمال پھرتی کے ساتھ ایک ایک ہنٹر پر اپنا نشانہ چیک کیا اور یوں فضا میں موجود چاروں ہنٹر طیارے مار گرائے۔ مگر اس اچانک مڈبھیڑ کے نتیجے میں ایم ایم عالم ہندوستانی آدم پور پر حملہ نہ کرسکے اور واپس سرگودھا بیس پر اتر گئے۔
ایم ایم عالم سمیت کسی کو بھی الرٹ پوزیشن سے ریلیکس پوزیشن میں جانے کا حکم نہیں تھا۔ ہر جانباز ہمہ وقت ہائی کمانڈ کے حکم کا منتظر تھا۔ رات پوری گزر چکی تھی، اگلا دن شروع ہوا۔ 7 ستمبرکو ایم ایم عالم اور فلائٹ لیفٹیننٹ مسعود اختر کو فضائی گشت کا حکم ملا۔ دونوں اپنے F-8 سیبر طیارے میں سرگودھا ایئربیس سے روانہ ہوئے، اسی دوران انہیں دو پاکستانی F-8 طیارے دکھائی دئیے جن کو فلائٹ لیفٹیننٹ بھٹی اپنے ایک اور جانباز کے ہمراہ اڑا رہے تھے۔ ان سب کا مقصد باقاعدہ حملہ کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ پاکستانی سیبر طیارے حفاظتی نقطہ نگاہ سے پاکستانی حدود میں گشت پر مامور تھے۔
گشت کے دوران ہی اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کو اپنے طیارے کی اسکرین پر ہندوستان کے چار ہنٹر طیارے دکھائی دیئے، یہ چاروں ہنٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ ایم ایم عالم نے ائیر کنٹرول کو دشمن کے طیاروں کی موجودگی کا بتایا۔ انہیں کنٹرول ٹاور سے حکم ملا کہ’’چاروں طیاروں کو گھیر کر اتارنے کی کوشش کرو۔ اگر مقابلہ کریں تو مقابلہ کرو‘‘۔ اسی اثناء میں انہیں پانچواں طیارہ بھی دکھائی دیا، جو غالباً اپنے چاروں طیاروں کو کور دینے کی خاطر بلندی پر پرواز کررہا تھا۔
اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کی آنکھوں میں پچھلی رات کا ادھورا مشن ’’آدم پور‘‘ آگیا، اور وہ اس کا بدلہ چکانے کا یہ قیمتی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ اِس بار دشمن خود چل کر شیر کی کچھار تک آچکا تھا۔ لہٰذا ایم ایم عالم نے ذہن میں ان چاروں کا مقابلہ کرنے کا پروگرام ترتیب دیتے ہوئے محض چند سیکنڈ میں طیارے میں نصب مشین گن پر اُس وقت تک انگلی دبائے رکھی جب تک چاروں ہنٹر گول گھومتے، دھواں اگلتے زمین بوس نہیں ہوگئے۔ ہندوستانی ہنٹر طیاروں کو کور دینے والا پانچواں ہنٹر اوپر سے ہی بھاگنے کی کوشش کررہا تھا کہ ایم ایم عالم کی عقابی نگاہوں کی زد میں آگیا، اور اب ایم ایم عالم نے اپنے سیبر کو تیزی کے ساتھ مزید اوپر کی جانب لے جاتے ہوئے بھاگتے ہوئے ہنٹر طیارے کی عقب میں جاکر مشین گن کا فائر کھول دیا۔ پاکستان کی سرزمین پر آئے ہوئے پانچوں ہنٹر طیارے محض ڈیڑھ منٹ کے اندر اندر مٹی میں مل چکے تھے، اور اس طرح ایم ایم عالم نے دنیا بھر میں کسی بھی فضائی معرکے میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا کہ تیس سیکنڈ میں چار طیارے مار گرائے اور مزید ایک کو گرانے کے لیے مزید ایک منٹ صرف ہوا۔
ان چوبیس گھنٹوں کے دوران ایم ایم عالم نے دشمن کے مجموعی طور پر 9 طیارے تباہ کیے اور دو طیاروں کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان 9 طیاروں میں 6 ہاک ہنٹر طیارے شامل تھے جن پر ہندوستانی فضائیہ بہت ناز کرتی تھی۔
6 ستمبر آدم پور حملے والی رات فضا میں مڈبھیڑ میں 1 ہاک ہنٹر جسے اسکواڈرن لیڈر ترن تارن اجیت کمار راولی اڑا رہا تھا، گرایا گیا۔
اگلی رات 7 ستمبر کو 5 ہاک ہنٹر زمین بوس کیے گئے۔ اسکواڈن لیڈر اونکار ناتھ کیکر اڑا رہا تھا اور پیراشوٹ کی مدد سے اس نے پاکستان کی سرزمین پر چھلانگ لگائی اور گرفتار ہوا۔ اسکواڈرن لیڈر اے بی دیویا، اسکواڈرن لیڈر سریش ٰبھگوت، فلائٹ لیفٹیننٹ بی گوہا، فلائنگ آفیسر جگدیشن سنگھ برار کے ہنٹر طیارے بھی تباہ ہوئے۔ تاہم ہندوستانی فضائیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے چار ہنٹر طیارے تو ایم ایم عالم نے گرائے مگر پانچواں طیارہ جسے اسکواڈرن لیڈر اونکار ناتھ کیکر اڑا رہے تھے، کسی زمینی حملے کا شکار ہوئے اور جنگی قیدی بنائے گئے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ 1965ء کی فضائی جنگ کے دو ہیرو سرفراز رفیقی شہید اور غازی ایم ایم عالم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ المیہ یہ رہا کہ بنگالی ہونے کی وجہ سے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور 1971ء کی جنگ میں ہوائی جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی گئی، مگر انہوں نے جنگ کے بعد پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور تبلیغ دین اور دروسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ ایک خطبے کے دوران فضائیہ کے سربراہ انور شمیم پر تنقید کرنے کی پاداش میں انہیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ 1965ء کی جنگ میں جرأت اور بہادری سے بھرپور کارنامے پر ایم ایم عالم کو ستارہ جرأت سے عطا کیاگیا۔ 1965ء کی جنگ کے ہیرو، محب وطن پاکستانی ایم ایم عالم نے 18 مارچ 2013ء کو پھیپھڑے کے مرض میں مبتلا رہ کر کراچی میں انتقال فرمایا۔
(جاری ہے )

حصہ