یہاں زندگی عذاب ہے یارب

330

سید اقبال چشتی
ایک وقت تھا جب کراچی میں رہنے والے اپنی جان ہتھیلی پر لیے گھومتے تھے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کب ’’معلوم افراد‘‘ کی طرف سے چلائی گئی نامعلوم گولی ان کی زندگی کا خاتمہ کر دے؟ کب شہر بند ہو جائے اور سب پریشان ہو جائیں کہ کیسے گھر پہنچیں۔ ایسے حالات اور واقعات میں جہاں گھر والے پریشان ہوتے تھے وہاں دیگر شہروں میں رہنے والے عزیز رشتے دار بھی اپنوں کی خیریت کے لیے بے چین رہتے تھے۔ جب بھی شہر میں ٹارگٹ کلنگ یا جلائو گھیرائو کے واقعات ہو تے‘ اسلام آباد سے ہمارے بھانجوں کا فون آجاتا کیوں کہ 2000ء تک موبائل فون اتنے عام نہیں تھے کہ فرد سے رابطہ کرکے خیر خیریت معلوم کر لی جائے اس لیے رابطے کا واحد ذریعہ ٹیلی فون تھا۔ ایک دفعہ جب کراچی کے بہت زیادہ حالات خراب ہو ئے تو اسلام آباد میں بیٹھے بھانجے کہنے لگے اب آپ سارے بھائی گھر بیچ کر یہاں (اسلام آباد) آجائیں۔ اُس وقت میں سوچتا تھا کہ دنیا میں کتنی ایسی جگہیں ہیں جہاں لوگ بد امنی کا شکار ہیں‘ وہاں کے لوگ کیسے زندگی گزارتے ہوں گے۔
دنیا میں بیشتر ایسے ممالک ہیں جہاں ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ جنگ ہی دیکھی ہے یا پھرکسی جگہ لوگوں کو آزادی کے نعرے لگاتے اور جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کشمیر، فلسطین، افغا نستان تو تھے ہی لیکن اس فہرست میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا رہا اور مسلم دنیا کے بسنے والوں کی آزمائش اور تکالیف کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہیں۔ جب بھی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اُن ممالک کے لوگوں پر ہونے والے مظالم سے متعلق معلوم چلتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہو ں گے۔ ابھی گزشتہ دنوں قندوز میں ایک مدرسے پر بمباری کر کے سینکڑوں بچوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا‘ جن میں وہ معصوم بچے بھی شامل تھے جنھوں نے قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا تھا اور حافظ قرآن بننے کی سند اور دستار بندی کے لیے مدرسے کی تقریب میں شریک تھے ان کے ساتھ ان کے والدین اور عزیز و اقارب بھی اس پر مسرت مو قع پر موجود تھے لیکن دشمن نے جہاں پہلے ہی لاکھوں انسانوں کا خون کیا ہوا ہے ایک بار پھر درندگی کا ثبوت دیا اور بغیر تحقیق مدرسے پر بمباری کر کے 107 حفاظ کرام کے ساتھ دیگر افراد کو بھی لقمۂ اجل بنا دیا کہ ان کے لیے انسانوں کو مارنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جو ملک سالہا سال سے جنگ زدہ ہے وہاں پر دنیاوی اور مذہبی تعلیم کے لیے والدین اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں اور جہاں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کب ڈرون حملہ ہو جائے‘ کب بمباری ہو جائے… لیکن شاباش اُن لوگوں اور والدین پر جو اپنے بچوں کو وہ علم دے رہے ہیں‘ جو اُن کے لیے دنیا اور آخرت ہر جگہ کام آئے گا۔
کراچی کے تعلیمی ادارے ایک لسانی تنظیم اور حکومتوں کی عدم توجہی اور لاپروائی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگئے جب کہ یہاں کوئی جنگ نہیں ہو رہی تھی لیکن اس کے برعکس افغانستان اور کشمیر کو دیکھا جائے تو سنگینوں کے سائے میں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اُن کا عزم و حوصلہ کبھی بھی کم نہیں ہوا اور نہ ہی وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے۔ ہر شعبۂ زندگی میں آزادی کا نعرہ لگانے کے بعد بھی یہاں طلبا و طالبات آگے ہیں‘ نہ ان لوگوں کا جذبہ آزادی سرد ہوا اور نہ ہی کوئی ان لوگوں کو اسلام کے راستے پر چلنے سے روک سکا۔ اسکول، کالج ، یونیورسٹی ہر سطح پر تعلیم کا حصول جاری ہے اور ساتھ ہی مدرسے بھی آباد ہیں۔ قندوز میں مدرسے پر حملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ’’مر جائیں گے مگر ایمان کا سودا نہ کریں گے۔‘‘
جس دین کی سر بلندی کے لیے افغانستان کے مسلمانوں نے روس سے جہاد کیا اب بھی ان کی نئی نسل اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی جرم کی پاداش میں دشمن نے سمجھا کہ یہ اسلام اور قرآن کا علم حاصل کرکے اپنے ایمان کو پختہ کرتے ہیں آج ان کو ایسا سبق سکھائو کہ لوگ قرآن اور دین سے نہ صرف دور ہو جائیں بلکہ آئندہ کوئی اپنے بچوں کو مدرسہ میں داخل کرانے سے پہلے سو بار سوچے۔ لیکن دشمن محدود سوچ رکھتا ہے‘ اپنی دانست میں اُس نے بڑا کام کیا‘ لیکن شاید اُسے یہ معلوم نہیں کہ قرآن اور اسلام کا تحفظ تو اللہ ہی کرتا ہے اور آج پوری دنیا میں ہر جگہ جہاں‘ بھی شورش ہے‘ تمام تر ظلم و جبر کے باوجود اسلام پسندوں نے ہی اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے اور کسی بھی میدان چاہے وہ جہاد کا ہو‘ تعلیم کا یا تبلیغ دین کا‘ پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ صرف اس بات سے اندازہ لگایئے کہ فلسطین، افغانستان اور کشمیر میں برسہا برس سے قابضین یہاں کے لوگوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں لیکن یہاں کے با شندوں کو سلام ہے کہ جنھوں نے کسی بھی مرحلے پر یہ شائبہ بھی نہیں ہونے دیا کہ ہم مایوس ہوچکے ہیں۔ اگر مسلم مماک نے ان لوگوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا اور ان کی مدد نہیں کی تو ان لوگوں نے با طل قوتوں کا مقابلہ اپنے ہا تھوں میں پتھر اُٹھا کر کیا‘ لیکن اپنے ملک اور ضمیر کا سودا نہیں کیا۔
ایک زمانہ تھا جب روس میں بسنے والے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تھا اور انہیں مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے گھروں پر خنزیر کو لازمی پالیں گے‘ داڑھی نہیں رکھیں گے اور جو بھی نماز پڑھتا ہوا پایا گیا اس کو سزائے موت دی جائے گی۔ طاغوتی قوتوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم نے روس میں اسلام کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ لیکن جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ اُس رب کی عبادت بھی کرتے ہیں اور قرآن کا علم بھی حاصل کرتے ہیں۔ روس کے مسلمان اپنے ایمان کو چھپاتے تھے ‘ نماز کھڑے ہو کر اشاروں سے پڑھتے تھے تاکہ ان کی پیشانی اور گھٹنوں پر نشان نہ آئے۔ اس طرح اسلام زندہ رہا اور افغانستان کے جہاد کے نتیجے میں روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ وہ وقت بھی کیا تھا جب مسلمانوں کو اسلام سے وابستگی کی بنیاد پر تنگ کیا جاتا تھا‘ لیکن مسلمان صبر سے کام لیتے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرتے تھے۔ مگر آج جب کہ اسلام مغلوب بھی نہیں ہے‘ مگر مسلمان اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ شام، لیبیا، عراق اور یمن میں مسلمان اپنوں ہی کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہیں، جن مسلمانوں کو سختیوں سے نہیں دبایا جا سکا‘ باطل نے مسلم حکمرانوں کو اقتدار کا لالچ دے کر اپنوں ہی کو مارنے پر آمادہ کر لیا۔ شام کی صورت حال سب کے سامنے ہے‘ جہاں زندگی کسی عذاب سے کم نہیں‘ لیکن مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لیکن اللہ کا نظام ہے جو چل رہا ہے ہم سو چتے ہیں کہ نہ جانے شورش زدہ علاقوں کے لوگ کس طرح زندہ ہیں؟ کس طرح روزی روز گار جاری رکھے ہو ئے ہیں؟ کس طرح اپنی خوشی کی تقریبات کرتے ہوں گے۔ لیکن وہ اللہ‘ جو اس کائنات کا مالک ہے‘ یقینا اُسی کی چال کامیاب ہونے والی ہے اور ہو رہی ہے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ شورش زدہ علاقوں میں شادی بیاہ اور غمی خوشی کے ساتھ ہر طرح کی تعلیم و تربیت جاری و ساری ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو اللہ پر ایمان پختہ کرتی ہے۔
زندگی اور موت کے فیصلے بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہیں لیکن جو طاقتیں دنیا میں زندگی اور موت کے فیصلے کر رہی ہیں اُن کی چالیں سمجھ نہیں آتیں کہ ایک طرف بمباری کر کے معصوم جانوں کو قتل کرتی ہیں‘ انہیں زندگی بھر کے لیے معذور کر دیتی ہیں اور دوسری طرف امداد کے بہانے بچوں کو معذور ہونے سے بچانے کے لیے پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ ایک طرف تعلیم اور صحت کے لیے لاکھوں ڈالر کی امداد تو دوسری طرف خطرناک مہلک ہتھیاروں سے درس گاہوں پر حملہ… یہ کیسا ایجنڈا ہے؟ اگر ان طاغوتی قوتوں کو انسانیت کا اتنا ہی احترام ہے تو پھر اُن ممالک میں امن کیوں قائم نہیں کردیتے۔ ایک طرف امداد اور دوسری طرف اسلام دشمنی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں دو نظام کی جنگ جاری ہے اور باطل نظام اپنے تمام حربے استعمال کر کے اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کر نے والوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اس لیے وہ چاہے مدرسے کا حافظ قرآن ہو یا کسی انجینئرنگ کالج کا طالب علم‘ جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے لیے جدوجہد کرنے والے ہیں‘ اصل میں کفر کو انہی لوگوں سے خطرہ ہے جو سالہا سال سے انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزانے کے باوجود دنیا میں امن کی خواہش کے ساتھ غلبۂ دین کے لیے پُر عزم ہیں۔

داد دیجیے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح

حصہ