کراچی کے ندی نالے اب نالیاں بننے لگیں

514

محمد انور

کراچی میں ہیٹ ویو چل رہی ہے۔شدید گرمی کے بعد محکمہ موسمیات نے سمندری طوفان کی پہلے ہی سے پیشگوئی کی ہوئی ہے۔ جس سے شہری تشویش کا شکار ہیں۔ باسیوں کو یقین ہے کہ سمندری طوفان ہمیشہ کی طرح آتے آتے اللہ کے حکم سے ٹہر جائے گا لیکن پریشانی کا امر یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کا کوئی بھی نظام ایسا نہیں ہے جو معمولی بارشوں کو بھی برداشت کرسکے۔
گزشتہ دو سال قبل بارشوں کے باعث ” اربن فلڈ ” شہری سیلاب آچکا ہے۔ جس کی وجہ شہر میں برساتی پانی کے مناسب نظام کا نہ ہونا ہے جبکہ ملیر لیاری اور ندی پر مسلسل قبضے کرکے ان کی چوڑائی کو چھوٹا کیے جانے کی
وجہ سے بارش کے پانی کا اخراج درست طریقے سے نہیں ہوپاتا بلکہ ان کے پشتے ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔
شہر میں ندی نالوں کی دیکھ بھال اور ان کی حفاظت کی ذمے داری بلدیہ عظمیٰ کراچی ، ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز ، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، کنٹونمنٹ بورڈز اور سندھ گورنمنٹ پر عائد ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے یہ تمام ادارے اس حوالے سے وہ اقدامات کرتے ہوئے نظر ہی نہیں آتے جیسے انہیں ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔ بلدیہ کراچی اور سمیت تمام ہی ادارے ندی نالوں کی صفائی کا کام ٹھیکوں پر کرایا کرتے ہیں یہ ٹھیکے ہر سال دیے جاتے ہیں جبکہ مگر نالے بھی ہمیشہ ویسے ہی رہتے ہیں جیسے ان کی صفائی کے ٹھیکے دینے سے قبل تھے اور آج بھی یہی صورت ہے۔
بلدیہ عظمٰی کے سابق سینیئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز مسعود عالم جن پر الزام ہے کہ وہ طویل عرصے تک سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز رہنے کے باوجود وہ نالوں کی صفائی کرانے اور اس پر سے تجاوزات ہٹانے میں ناکام رہے سے جب راقم الحروف نے رابطہ کیا اور یہی سوال کیا کہ وہ نالوں کو صاف ستھرا کیوں نہیں کرسکے اور ان پر سے تجاوزات کیوں نہیں ہٹاسکے ؟ مسعود عالم نے جواب دیا کہ ” جب متعلقہ ادارے اور ضلعی بلدیات کچرا اٹھانے اور مروجہ طریقہ کار کے ٹھکانے لگانے کے بجائے ندی نالوں میں بہائیں گے ، جب نالوں پر قبضے کیے جاتے رہیں گے تو پانچ ارب روپے سالانہ بھی خرچ کردیے جائیں تب بھی نالے صاف نہیں ہوسکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں کئی تجارتی اور دیگر عمارتوں کے ساتھ لاکھوں رہائشی مکانات ان ندی نالوں پر قائم ہیں جنہیں نہیں ہٹایا گیا تو بہت بڑا جانی و مالی نقصان ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محکمہ میونسپل سروسز صرف نالوں کی صفائی کراسکتا ہے لیکن نالوں میں مختلف مقامات سے کچرا ڈالنے والوں کو نہیں روک سکتا۔
ایک اور افسر کا کہنا ہے کہ شاہراہ فیصل پر نالے کے اوپر بڑا شاپنگ مال قائم کردیا گیا۔ ماضی میں برنس روڈ کے قریب اردو بازار کی متعدد دکانیں اور سندھ سیکریٹریٹ کی عمارت بنادی گئیں۔ اسی طرح ناظم آباد میں برساتی نالے اور کے اوپر اور سروس روڈ پر نیا اردو بازار قائم کردیا گیا کسی نے ان کی تعمیرات کے وقت نوٹس نہیں لیا۔ اور اب یہاں نالے ڈھونڈھنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح نہر خیام کلفٹن بھی برساتی پانی کے نکاسی کے لیے ایک نہر بنائی گئی تھی جسے بعد میں دیگر نالوں کی طرح سیوریج نالے میں تبدیل کردیا گیا۔جبکہ اس نہر خیام کی چوڑائی دو سو فٹ چوڑی اور ایک کلو میٹر لمبی ہے۔لیکن اب اس کی چوڑائی صرف ایک سو فٹ رہ گئی جبکہ سو فٹ اور تقریبآ ایک کلو میٹرلمبائی کے حصے پر بلڈرز مافیا نے عمارتیں تعمیر کرلیں ہیں۔ واقف حال لوگوں کو کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق اور مفرور ڈی جی منظور کاکا نے نہر کی چوڑائی کم کرکے یہاں کم و بیش 50 بڑی عمارتوں کی تعمیرات کی نہ صرف منظوری دی ہے بلکہ نقشے بھی منظور کیے ہیں۔ اگر ان دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس نہیں لیا جاتا تو نہر خیام کی زمین پر عمارتوں کی تعمیرات شروع ہوجاتیں۔
کے ایم سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نہر خیام کو اصل نہر جیسا بنانے کے لیے بلدیہ عظمٰی نے دو سال قبل ایک منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت نہر سے گزرنے والے سیوریج کو سیوریج پائپ لائن ڈال کر اس میں منتقل کردیا جاتا جبکہ نہر کو اصل نہر کا روپ دیدیا جاتا جس کے آس پاس خوبصورت پودے بھی لگائے جاتے۔لیکن اس مقصد کے لیے جیسے ہی کے ایم سی نے کارروائی شروع کی اور کروڑوں روپے کی لاگت سے اس صفائی کی تو اس کے ساتھ ہی مختلف حلقوں کی طرف سے مزاحمت ہونے لگی۔
علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کلفٹن کی اس نہر کو فوری چوڑا اور اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کی ضرورت ہے چاہے یہاں تعمیر ہوجانے والی عمارتوں کو منہدم کرنا پڑے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو تیز بارشوں میں کلفٹن اور قرب و جوار کا حصہ ڈوب سکتا ہے اور بڑا جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہے۔
سوال ہے کہ کراچی کے چھوٹے بڑے 374 نالوں کو کون ان کی اصل حالت میں بحال کراسکے گا۔ ان نالوں میں شہر کے وہ 30 نالے بھی شامل ہیں جن کو صاف رکھنے اور ان کی دیکھ بھال کی ذمے داری بلدیہ عظمٰی کراچی کی ہے۔ باقی نالے ضلعی بلدیات ، کے ڈی اے اور کنٹونمنٹ بورڈز کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ملیر اور لیاری ندیاں جو اب نالیاں بنتی جارہی ہیں۔
اہم سوال یہ بھی ہے کہ ملیر اور لیاری ندی میں ہونے والی لاکھوں تجاوزات کو کون ختم کرے گا ؟۔ لیاری ندی کے کنارے راشد منہاس روڈ پر امتیاز اسٹور کے نام سے بڑا تجارتی مرکز قائم کردیا گیا اور اس کی پارکنگ ندی کے اندر قائم کردی گئی مگر نہ کے ایم سی اس کے خلاف کارروائی کرتی ہے نہ ہی کوئی اور ادارہ۔
اسی طرح ملیر ندی میں متعدد رہائشی پروجیکٹ زیر تعمیر ہیں اور بہت سے تعمیر ہوچکے ہیں جس سے ندی کی چوڑائی اور گہرائی بھی کم ہوچکی ہے۔ جس کے نتیجے میں تیز بارشوں کی صورت میں پورے شہر میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوگیا تو کون ذمے دار ہوگا۔ بظاہر تو ندی میں زمین کی حفاظت کی زمے داری پیپلز پارٹی کی موجودہ سندھ حکومت کی ہے جو زمینوں کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے بدنام ہے۔ یہ بات ہر زبان پر ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے رواں دس سالہ حکومتی دور میں ایکڑ کے حساب سے زمینوں خلاف قانون اور قانون کے تحت الاٹ کیا جس کے نتیجے میں دونوں ندیوں میں سیکڑوں نئی بستیاں آباد ہوچکی ہیں۔ جس سے یہ ندیاں اب نالیاں بنتی جارہی ہیں۔

حصہ