واہ امام سعید

290

اللہ آپ کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے

جاوید احمد خان
دو اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے ایک ایک سوال کیا پہلے والے نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ بتایے سب سے اچھا شخص کون ہے؟ دوسرے نے پوچھا یا رسول اللہؐ یہ بتایے کہ سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے پہلے والے کو جواب دیا کہ سب سے اچھا شخص وہ ہے جو لمبی عمر پائے اور آخر وقت تک نیک اعمال کرتا رہے۔ دوسرے فرد کا آپؐ نے جواب دیا کہ سب سے اچھا عمل کثرت سے ذکر الٰہی کرنا ہے۔ ذکر الٰہی میں مختلف تسبیحات کے علاوہ مولانا مودودیؒ نے اپنی تفہیم القرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ اپنی گفتگو میں الحمداللہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ کا استعمال بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اپنی زندگی کے اہم فیصلوں میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کے مطابق عمل کرنا۔ یہ حدیث مجھے جسارت کے دیرینہ کارکن جناب امام سعید کے انتقال کی خبر پڑھ کر یاد آئی۔
جسارت کے صفحہ آخر پر جناب امام سعید کے انتقال کی خبر پڑھ کر غم کی ایک لہر تھی جو پورے جسم میں سرایت کرگئی، خبر میں نماز جنازہ کے لیے تفصیل پڑھی تو معلوم ہوا کے رات ہی کو ان کی تدفین بھی ہوگئی اگر ذرا پہلے اطلاع مل جاتی تو میں ضرور ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوتا۔ درج بالا حدیث کی روشنی میں ہم دیکھیں تو امام سعید صاحب نے لمبی عمر بھی پائی اور آخر وقت تک نیک عمل بھی کرتے رہے اور اسی طرح ہر وقت ذکر الٰہی میں ان کی زبان تر رہتی تھی۔ مظفر اعجاز بھائی نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے کہ جب جسارت جمعیت الفلاح کی بلڈنگ میں شفٹ ہو ا تو امام سعید صاحب نے یہاں آنے سے اس لیے معذرت کرلی کہ وہ سابقہ جسارت کی عمارت کے برابر والی مسجد کے ہول سول منتظم تھے اور وہ مسجد نہیں چھوڑنا چاہتے تھے ۔اللہ کے گھر کی دیکھ بھال کرنے والے کو پھر اللہ نے اپنے پاس بلا لیا ۔
بھٹو دور میں جسارت بند ہوتا اور کھلتا رہا اس وقت جسارت میں کام کرنے والے کارکنان بھی ایک مشنری جذبے کے ساتھ کام کرتے تھے جسارت بند ہوتا تو وہ دوسرا ذریعہ معاش تلاش کرتے اور جیسے ہی جسارت کھلتا تو وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر واپس جسارت آجاتے ۔ایک دفعہ جب بند ہوا تو اس کی بندش بہت طویل ہو گئی یہاں تک کے مختلف اجتماعات میں جب پرویسر غفور صاحب سے سوال کیا جاتا کہ جسارت کب نکلے گا توہ جواب دیتے کہ اب بھٹو اور جسارت ساتھ ہی نکلے گا ۔غفور صاحب کی ویسے تو یہ بات پوری ہوگئی کہ 5جولائی 1977کو بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی اور 2ستمبر 1977کو اپنی طویل بندش کے بعد جسارت کا پہلاشمارہ نکلا امام سعید صاحب 1970 سے جسارت سے وابستہ تھے ۔جسارت میں اس کی اشاعت کے ڈیڑھ ماہ بعد میں اس قافلے میں شامل ہوا 17اکتوبر 1977میرا پہلا دن تھا میرا تقرر شعبہ حسابات (Accounts)میں ہوا اس وقت ہمارے انچارج جناب سید محمد فاروق صاحب تھے جو جماعت اسلامی اسلام آباد کے سابق امیر جناب سید محمد بلال صاحب کے والد اور ایڈیٹر جسارت مظفر اعجاز صاحب کے سسر تھے ۔اس وقت فاروق صاحب بہت حد تک پورا مینجمنٹ ہی دیکھ رہے تھے ۔اس وقت جسارت نے یہ پالیسی بنائی کہ جو لوگ بھٹو دور میں جسارت میں رہے ہیں انھیں تلاش کرکے جسارت میں بلایا جائے اس کے لیے جناب فاروق صاحب کچھ لوگوں کے ذریعے یا ٹیلیفونک رابطے کرتے تھے دو تین روز کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک صاحب جن کے چہرے پر ڈاڑھی اور سرپر صافہ بندھا ہوا تھا ہمارے شعبہ حسابات میں جناب فاروق صاحب سے ملنے آئے ، انھیں دیکھتے ہی فاروق صاحب نے کہا کہ ارے بھئی امام سعید آپ کہاں تھے ،ہم نے کئی بار پیغام بھجوایا لیکن کوئی جواب نہیں آیا،امام سعید صاحب نے کہا کہ آپ کا پیغام تو مجھے مل گیا تھا لیکن میں اپنے گائوں گیا ہوا تھا ۔ اس طرح میرے سامنے امام سعید صاحب کا تقرر ہوا تھا امام سعید صاحب شروع سے نمازی پرہیزگار تھے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ اب سے چالیس سال پہلے ان کا جو جثہ یعنی جسمانی ساخت تھی وہی آخر وقت تک تھی بس تھوڑے سے بیمار رہنے لگے تھے ۔
امام سعید صاحب ادارے کے فعال مطیع قسم کے کارکن تھے کبھی کسی کام کو منع نہیں کرتے تھے تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے لیکن اختلافی بحث و مباحثہ سے گریز کرتے تھے ،ہم نے ان کو شدید غصے والی کیفیت میں بھی دیکھا اس میں ان کی آواز تو معمول سے بلند ہوجاتی لیکن گالی تو دور کی بات ہے کوئی غیر معیاری الفاظ بھی استعمال نہیں کرتے تھے ۔میرا جسارت کی سابقہ بلڈنگ اکثر جانا ہوتا تو نیچے سیڑھیوں کے پاس ان سے ملاقات ہوجاتی پرانے ساتھی ہونے کی وجہ کچھ دیر تک ہم لوگ آپس میں باتیں کرتے وہ بھی مجھے دیکھ کر بڑی گرمجوشی سے ملتے پرانے لوگ اور پرانی باتیں ہمارے موضوعات ہوتے ۔
جسارت میں دوپہر کے وقت نماز کے ٹائم پر مجھ سے کہتے کہ چلئے ظہر کا وقت ہو گیا ہے میں کہتا کہ ہاں امام سعید صاحب آپ چلئے میں آتا ہوں پھر کہتے کہ کوشش کیا کریں کہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ ہوجائے ۔پھر انھوں نے تکبیر اولیٰ کے حوالے سے ایک نہایت دلچسپ اور سبق آموز واقعہ سنایاجو میں اب تک کئی لوگوں کو سنا چکا ہوں اور مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہاس واقع کو سن کر جن لوگوں نے بھی عمل کیا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کا ثواب بھی امام سعید کو پہنچائے گا ۔انھوں نے بتایا کے ایک دفعہ ایک بزرگ اپنے کسی دوست سے عصر کے بعد ملنے کے لیے گئے دونوں بزرگ متقی پرہیز گار اور صوم صلواۃ پابند تھے ۔انھوں دیکھا وہ بزرگ نماز پڑھ رہے ہیں وہ انتظار کرنے لگے کے نماز ختم ہو تو ملاقات کریں گے انھوں نے دیکھا کہ نماز ختم ہوئی تو انھوں نے دوبارہ نیت باندھ لی اس کے بعد بھی یہی عمل دہرانے جارہے تھے کہ آنے والے بزرگ نے ان سے پوچھا یہ آپ کیا کررہے ہیں کون سی نماز پڑھ رہے ہیں تو ان بزرگ نے جواب دیا کہ آج میری عصر کی نماز جماعت سے نہیں ہو سکی اس لیے میں 27مرتبہ نماز پڑ ھ رہا ہوں اس لیے کہ آپؐ کا فرمان ہے کہ جماعت کی نماز کا ثواب انفرادی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ ہے ۔آنے والے بزرگ نے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ آپ ستائیس بار نماز پڑھ لیں گے لیکن یہ تو بتائیں کہ آپ تکبیر اولیٰ کا ثواب کہاں سے لائیں گے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ اگر میری امت کو پہلی صف میں نماز کے ثواب کا علم ہو جائے تو اس کے لیے مساجد میں جھگڑے ہونے لگیں ۔
امام سعید صاحب دنیاوی گفتگو کم ہی کرتے اسی طرح کسی غیبت یا برائی سے کسی کاذکر نہیں کرتے تھے ۔عموماَدینی حوالے سے ان کی بات چیت ہوتی تھی ایک دفعہ انھوں نے کہا کہ ہمارا دین تو اتنا اچھا ہے کہ اس نے ہمیں کھانے پینے کے آداب سے لے کر حکومت کرنے کے آداب بھی بتائے ہیں ایک اور تاریخی واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک صحابی رسول دور جنگل میں رفع حاجت کے لیے گئے جیسا کہ اس زمانے میں ہوتا تھا تو وہ سنت طریقے کے مطابق اس طرح بیٹھے کہ دونوں ہاتھوں کی کہنیاں گھٹنوں پر رکھ کر اپنی ہتھیلیوں کو کانوں پر رکھتے ،اتنے میں ایک دشمن کافر آیا اس نے پیچھے سے رسی گلے میں ڈال کر گلا گھونٹنا چاہا لیکن ہاتھوں کے آڑ کی وجہ سے رسی گلے تک نہ جاسکی اور وہ ناکام ہوگیا اس کافر نے بعد میں مسلمان سے سوال کیا کہ یہ تم کس طرح بیٹھتے ہو کہ میں نے رسی کا پھندا ڈال کر تمھیں مارنا چاہا لیکن ایسا نہ ہو سکا مسلمان نے جواب دے کہ ہمارے نبی نے ہمیں اس کا بھی طریقہ بتایا ہے وہ کافر یہ کہتا ہوا مسلمان ہو گیا کہ جو دین اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رہنمائی دیتا ہے یقینا وہ سچا دین ہو گا ۔
آخر میں ایک بزرگ کا یہ قول بھی دیکھ لیجئے کہ انھوں نے کہا کہ جس کی دنیا اچھی یعنی اطاعت میں فرما برداری میں گزری ہوگی اس کی قبر یعنی برزخ کی زندگی بھی اچھی ہو گی اور جس کی برزخ کی زندگی اچھی ہوگی اس کی آخرت بھی اچھی ہو گی ۔امام سعید صاحب کی زندگی ایک سیدھے سادے مسلمان کی سی اچھی زندگی تھی اور امید ہے کہ ان کی قبر کی زندگی اور پھر آخرت کی زندگی بھی اچھی ہو ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو اپنے نور سے بھردے ۔

حصہ