حیا اور بے حیائی

749

(چھٹی قسط)
پسند کی شادی پر قتل کردینا، رشتے سے انکار پر کسی کو جان سے مار دینا، میاں بیوی کا اختلافات کی بنیاد پر ہر حد پار کرجانا، یا طلاق و خلع کو فتنہ فساد بنادینا… اس طرح کی باتیں بہت عام ہوتی جارہی ہیں۔ اگر قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور سیرتِ صحابہؓ کو سامنے رکھا جائے تو ایسے کسی بھی معاملے میں کہیں بھی کوئی فساد برپا نہ ہو۔ زندگی میں ایسے مواقع آجاتے ہیں جب کسی نہ کسی فریق کو آخری قدم اٹھانا پڑ جاتا ہے۔ اس قسم کی کسی بھی حالت میں انتہائی قدم اٹھا لینا کہاں کی حیا، غیرت، حمیت اور شرم کی بات ہے؟ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرلینا سب سے احسن قدم ہے، لیکن اگر بیچ کا راستہ موجود نہ ہو تو علیحدگی سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں روکا۔ پھر اس پر مزید یہ ہدایت بھی دی جارہی ہے کہ فیصلہ ہوجانے کے بعد مرد حضرات کسی بھی قسم کی کوئی انتقامی کارروائی نہ کریں بلکہ جو بھی فرائض ان کے ہیں، ان کو بطریق احسن ادا کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آجائے تو یا بھلے طریقے سے انھیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو۔ محض ستانے کی خاطر نہ روکے رکھنا، یہ زیادتی ہوگی، اور جو ایسا کرے گا وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کو کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمتِ عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔‘‘ (البقرۃ، آیت 231)
’’جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو پھر اس میں مانع نہ ہوکہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرۃ، آیت 232)
ایک اور مقام پر اللہ فرماتے ہیں:
’’طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔ اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیںکہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘ (البقرۃ آیت 229)
ایک جانب ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم قتل و غارت گری پر اترے ہوئے ہیں اور خلع و طلاق کو بھی انا کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں، اور دوسری جانب اللہ ایسی حالت میں مومنوں کو کیا ہدایت دے رہا ہے اور اس ہدایت کی روشنی میں ایک ایمان والے کا کردار کیسا ہونا چاہیے، اس بات کو ہم سراسر بھولے ہوئے ہیں، اور اپنے تئیں اس بات کو مردانہ غیرت و حیا قرار دے کر گلے تک کاٹنے سے باز نہیں آتے۔
ہمارے معاشرے میں ہوتا یہ ہے کہ جس خاتون کو شوہر سے علیحدگی چاہیے ہوتی ہے وہ اپنے میکے میں جاکر بیٹھ جاتی ہے۔ یہی حال مرد کا ہے کہ اگر عورت اُس کی نگاہوں میں بھلی نہیں رہتی اور وہ اس کو اپنی زندگی سے نکال پھینکنے کا فیصلہ کر ہی لیتا ہے تو وہ اسے اس کے میکے چھوڑ آتا ہے۔ اوپر کی آیت میں کہا جارہا ہے کہ دوبار طلاق کے بعد یا تو اسے سیدھی طرح روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے۔ گویا پہلی طلاق کے بعد اور پھر دوسری طلاق کے بعد بھی اسے گھر ہی میں رکھا جائے۔ اگر اس بات پر غور کیا جائے تو اس میں بڑی حکمت ہے۔
جس طرح زندگی بے بھروسا ہے اسی طرح انسان کے رویّے کا بھی کچھ بھروسا نہیں۔ یہ گھڑی میں ولی اور گھڑی میں بھوت بن جاتا ہے۔ میاں بیوی میں ناچاقیاں معمول کی بات ہے۔ بعض اوقات غصے اور خفگی میں بہت ساری ایسی باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں جس کا بعد میں پچھتاوا بہت شدت سے ہوتا ہے۔ یہ بات صرف مرد ہی کی جانب سے نہیں ہوتی، عورت کی جانب سے بھی ہوتی ہے۔ جو مرد ایک ایسی عورت جس کے ساتھ زندگی کے طویل ایام گزار چکا ہو، یونہی پاگل نہیں ہوجاتا ہوگا، یقینا اس کی وجوہات ضرور ہوتی ہوں گی خواہ وہ رائی کے برابر ہی ہوں۔ آج کل کے ہمارے رواج یا طور طریقے کے مطابق ایسے عالم میں اگر بیوی کو خود سے دور کردیا جائے تو پھر اختلافات کی بات طشت از بام ہوجاتی ہے اور ہر آنے والے دنوں میں اس میں نئے نئے ابال آتے رہتے ہیں، اس طرح دوریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں، اور آخرکار دلوں کا یہ بُعد میاں بیوی کی علیحدگی پر ہی منتج ہے۔ آیات سے جو بات سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت کو گھر سے باہر نہ نکالا جائے بلکہ گھر میں ہی رکھا جائے۔ تین ماہ کا عرصہ کوئی کم نہیں ہوتا۔ میاں بیوی گھر میں بھی ہوں اور ایک دوسرے سے کسی بھی لمحے قربت محسوس نہ کریں؟ اس کا امکان ذرا کم ہی ہے۔ ممکن ہے ایک عورت کو اپنی اُس غلطی کا احساس ہوجائے جس کی وجہ سے نوبت انتہائی حدوں کو پہنچی، یا مرد کو احساس ہوجائے کہ وہ غلطی پر ہے۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد کا یہ عرصہ ایک جانب تو دونوں میں کسی صلح پر منتج ہوسکتا ہے، اور دوسری جانب آپس کی تلخیاں دوسروں تک پہنچ نہیں پاتیں اور اس طرح یہ اختلافات تماشا بننے سے رہ جاتے ہیں۔ بے شک اللہ کا کوئی بھی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
حیا کے بے شمار تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ کسی بھی شے کو مشکوک نہ کیا جائے۔ اگر محض انسان کی افزائشِ نسل ہی مقصود ہوتی تو دیگر مخلوق کی طرح انسانوں کو بھی جنسی آزادی ہوتی اور وہ جہاں چاہتے منہ مارتے پھرتے۔ نکاح و شادی کا پابند بناکر ایک جانب انسان کو ذمے دار بنایا گیا کہ وہ اپنی نسل کی بہترین پرورش کرے، اور دوسری جانب آنے والی نسلوں کو پاکیزگی کا ایک سلیقہ سکھایا گیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی اولاد کے علاوہ بھی کسی کو پال سکیں؟ بے شک یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غیروں کی اولادوں کو بھی پال لیا جاتا ہے لیکن اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسی اولادیں جن کو پال لیا جاتا ہے اُن کے دل و دماغ میں اِن ماں باپ کا وہ مقام نہیں بن پاتا جو شاید سگے والدین کا ہوتا۔ یہی وہ بات ہے جس کو اللہ تعالیٰ ان آیات میں بیان کر رہا ہے:
’’اور جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھے ہیں اُن کے لیے چار مہینوں کی مہلت ہے، اگر انھوں نے رجوع کرلیا تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے، اور اگر انھوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو جان لیں اللہ سب سنتا اور جانتا ہے۔ جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں، اور ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہے اسے چھپائیں۔ انھیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر تعلقات درست کرلینے پر آمادہ ہوں تو اس مدت کے دوران انھیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے حق دار ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت دی گئی ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔‘‘ (البقرۃ، آیات 226،227،228)
خود ہی اندازہ لگائیں یہ کتنی بے حیائی کی بات ہوگی کہ بچے کی ’’اصل‘‘ کو چھپایا جائے۔ زندگی کے کسی بھی مقام پر کسی بھی وجہ سے یہ راز کھل گیا تو اس کے کتنے برے اثرات نمایاں ہوں گے، اس کا اندازہ خوب اچھے طریقے سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں۔ پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو انھیں اختیار ہے، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں کریں۔ تم پر اس کی کوئی ذمے داری نہیں۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ زمانۂ عدت میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنائے میں ظاہر کرو خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ (البقرۃ، آیت 234)
اس آیت میں بھی اسی بات کی جانب اشارہ ہے۔ عدت کی مدت کا تعین اسی لیے کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی قسم کے شک کی کوئی گنجائش ہی نہ رہے، اور دنیا اور آنے والے کو اپنی ’’اصل‘‘ کا علم ہو اور وہ معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکے۔
مغربی دنیا ہی کیا، اب تو ساری دنیا ہی ایک بڑی تباہی کی لپیٹ میں آتی جارہی ہے۔ دنیا میں لاکھوں نہیں کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ ان کے والدکون ہیں، اور کچھ کے ساتھ تو یہ بھی المیہ ہے کہ ان کو دونوں کی ہی خبر نہیں۔ وہ لوگ جن کو یہ بھی معلوم ہے کہ حقیقتاً وہ کن کی اولاد ہیں وہ اس بات کو ذرا احاطۂ تصور میں لائیں کہ ایسے افراد جن کو اپنے والد یا ماں، یا دونوں کا ہی علم نہ ہو، کیا معاشرے میں ان لوگوں جیسا مقام حاصل کرسکتے ہیں جن کو اپنے والد و والدہ کا علم ہو؟ کیا وہ اسی طرح سر اٹھا کر چل سکتے ہیں جیسے وہ چلتے ہیں؟ کیا دنیا ان کو اسی نظر سے دیکھے گی اور سلوک کرے گی جو سلوک وہ ’’اصیلوں‘‘ سے کرتی ہے؟ یقینا ایسا کسی طور نہیں ہوسکتا۔ اب ذرا ان افراد کی نفسیات کے بارے میں سوچیں کہ وہ بظاہر پُرسکون نظر آنے کے باوجود اپنے اندر کتنے طوفانوں سے لڑرہے ہوں گے! کیا ان کی نفسیات وہی ہوگی جو اصیلوں کی ہوتی ہے؟ پھر اس بات پر بھی غور کریں کہ جب وہ اپنے بچپن سے لے کر اپنی جوانی اور بڑھاپے تک معاشرے کے رویوں کے تیکھے پن کو محسوس کررہے ہوں گے تو ان کی شخصیت کتنی متاثر ہوئی ہوگی۔ اس قسم کے افراد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ معاشرے میں فعال کردار ادا کر نے کے قابل ہوں گے، ایک لغو اور فضول بات ہے۔ ایسے افراد اگر اپنے آپ کو ہی دنیا کی ہر خرافات سے بچا کر گزر جائیں تو میری سوچ کے مطابق وہ ولی کہلانے کے مستحق ہیں۔ معاشرہ اتنے بگاڑ کی جانب چل نکلا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ جگہ جگہ پڑے ’’جھولے‘‘ جو کہانیاں سنا رہے ہیں وہ مستقبل کی ہولناکی کی نشان دہی کرتی ہیں۔
ایک باحیا معاشرے اور ایک بے حیا معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ باحیا معاشرے کے امن و سکون اور ایک بے حیا معاشرے کے مصنوعی امن و سکون میں اتنا ہی فرق ہے جو ایک صحت مند انسان کے سانس لینے اور اُس فرد کے سانس لینے میں ہے جو ’’وینٹی لیٹر‘‘ کی مدد سے سانس لے رہا ہو۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ وہ عورت جو ’’خلق‘‘ کی ہوئی چیز کو چھپائے اور وہ بچہ جو کسی اور کے بستر پر جنم لے، اس میں اور وہ عورت جو ’’تخلیق‘‘ کی محافظت کرے اور وہ بچہ جو اپنے باپ کے نام سے پکارا جائے، دونوں میں کتنا واضح فرق ہوگا۔ دونوں کی پاکیزگی اور ناپاکی میں کتنا فاصلہ ہوگا؟
زندگی کا ہر وہ پہلو اور ہر وہ فعل جو حکمِ خداوندی کے مطابق ہے وہی حیا والا پہلو اور فعل ہے، اور جو پہلو اور فعل اس کے برعکس ہے وہی بے حیائی ہے۔ سچ حیا ہے اور جھوٹ بے حیائی۔ پورا تولنا حیا ہے اور ڈنڈی مارنا بے حیائی۔ حُسنِ سلوک حیا ہے اور بدسلوکی بے حیائی۔ میدان میں ڈٹ کر کھڑے رہنا حیا ہے اور منہ موڑ کر بھاگ جانا بے حیائی۔ مختصر یہ کہ ہر وہ کام جو ’’معروف‘‘ کے زمرے میں آتا ہے وہ سب کا سب حیا ہے، اور وہ فعل جو ’’منکر‘‘ میں شامل ہے وہ بے حیائی کے سوا کچھ نہیں۔
کہا جارہا ہے کہ روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے کہ تم ’’متقی‘‘ بن جاؤ، تو دراصل تقویٰ ہی اصل حیا ہے، اور جو افراد اللہ کے خوف سے آزاد ہیں وہ سارے کے سارے بے حیا و بے شرم ہیں۔
ذرا دیکھیں کہ اگر کسی کے فرائض میں یہ بات شامل ہو کہ وہ آپ کا فلاں فلاں کام کرے لیکن وہ فرد اپنے اوپر فرض کیے ہوئے کام کے عوض بھی ’’رشوت‘‘ طلب کرے تو یہ سراسر بے حیائی کی بات ہوئی یا نہیں! یہ رشوت، بھتہ خوری اب اس قدر عام ہوتی جارہی ہے کہ اس کو کوئی گناہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ جہاں یہ عالم ہو کہ کام نہ کرنے کے عوض تنخواہیں لی جاتی ہوں اور کام کرنے پر رشوت طلب کی جاتی ہو اُس معاشرے کے انحطاط کا کیا عالم ہوگا! کیا یہ سب بے حیائی نہیں؟ (جاری ہے)

حصہ