جمہوری سوشل میڈیا،ایک بے ربط گفتگو

484

سلمان علی
اب آپ اس مسئلے کو کیسے دیکھیں گے؟ آزمائشی معاملہ ہے سمجھ نہیں آ رہا کس پیمانے سے دیکھیں ؟مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیوں دیکھیں ؟ یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔مگربنایا تو جا رہا ہے نا۔کسی کے پیٹ میں تو درد ہو رہا ہے؟ اصل میں بات کرنے والے کا بھی معاملہ ہے ۔نہیں بھائی یہ ضروری نہیں کہ کس نے بات کی اصل تو وہ بات اہم ہوتی ہے ۔لیکن کوئی اصول تو ہونا چاہیے نا۔یار اس میں کیا اصول نکالنا۔اتنی اتنی سی باتوں کو دل پر مت لیا کرو۔معمولی بات؟ تم اس کو کیسے معمولی کہتے ہو؟ایک یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام ہی تبدیل کیا ہے اس پر اتنا شور کیوں اٹھا رہے ہو؟اچھا یہ کوئی آمرانہ فیصلہ نہیں ، بلکہ عین جمہوری رویے کے ساتھ بلکہ مکمل رائج الوقت جمہوری طریقہ کے ساتھ یہ کام کیا گیا ہے ۔پوری قومی اسمبلی میں ملک بھر سے منتخب نمائندوںکے سامنے یہ بل پیش کیا گیا جسے پورے ہوش و حواس میں بغیر کسی اختلاف کے ارکان اسمبلی نے منظور کیاہے۔اب بولو۔اب تم کیا جمہوریت کے خلاف بولو گے۔جمہوریت تو خود تمہارا ہی مسلط کردہ تحفہ ہے۔
ایک نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان کے نام پر رکھے گئے ایک فزکس کے شعبہ کا ہی معاملہ ہے جسے تبدیل کرکے ایک اور ماضی کے معروف مسلمان سائنسدان ابو الفتح الخزینی کے نام پر رکھ دیا گیاہے۔
بھائی بات اتنی سادہ نہیں ،اگر ہوتی تو یہ ٹوئٹر پر ٹرینڈ پاکستانی سائنسدان کے نام پر نہیں بنتا بلکہ الخزیمی کے نام پر بنتا۔
عوام نے رد کر دی ہے یہ قرارداد کی منظوری۔عوام ،تم اسے عوام کہتے ہو۔یہ صرف ایک گروہ ہے ۔باقی سب اندھی تقلید میں کاپی پیسٹ فوبیا کا شکار ہیں ۔
ٹوئٹر ٹرینڈ کوئی حتمی بات نہیں ہوتی ۔میںبھی ہیش ٹیگ عبد السلام کر کے اُس کو گالیاں لکھ دوں تو بھی ٹرینڈ پر وہی اثرات ہونگے جو ابھی تمہیں لگ رہے ہیں۔
لیکن حقیقت تو یہ نہیں ہو گی ۔ایسا نہیں ہوتا ،یہ سب سازش ہے۔سازش ! مگرکس کے خلاف۔پروفیسر عبد السلام کے خلاف ؟حکومت کے خلاف جو چند دن کی مہمان ہے ؟
نہیں نہیں تم سب سمجھتے ہو ۔بول نہیں رہے ۔
بھائی آخر مسئلہ ہے کیا تم بتا دو۔
دیکھو بات یہ ہے کہ عبد السلام کو اقلیت ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیاہے۔
حیرت ہے تمہاری دلیل پر ،تمہیں معلوم ہے کہ پوری قومی اسمبلی نے اس کو منظور کر لیا ہے کسی نے مخالفت نہیں کی۔
ایسا کچھ نہیں لکھا تھا قرارداد پر میں نے خود دیکھی ہے ۔
تمہیں پتہ ہے اسمبلی میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو کسی وجہ کے بغیر بھی صرف ن لیگ کی وجہ سے یا قرارداد پیش کرنے والے کی مخالفت کر سکتے تھے مگر انہوں نے نہیں کیا۔
اس قرارداد کو پیش کرنے والے حکمران جماعت کے ایک اہم رکن اسمبلی اور قریبی رشتہ دارتھے ۔
تم کہہ رہے ہو ساز ش ہے جبکہ قرارداد پیش کرنے والے کے سسر اور حکمران جماعت ہی کے سابق وزیر اعظم نے دو سال قبل ہی اس نام سے نوازا تھا۔
بھائی اسے تنگ نظری کہتے ہیں ، پہلے ہی وہ اقلیت میں ہیں اور اگر پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کسی نے علمی و تحقیقی کام کیا ہے تو اُس کو اس طرح سے سائڈ لگا دینے پر لوگ کیا کہیں گے ۔یار یہ لوگ کیا کہیں گے کا فلسفہ مجھے نہیں سمجھاؤ۔ کون لوگ کہیں گے ؟کیوں کہیں گے ؟کیا تم طریقہ کار کو نہیں دیکھو گے ، پوری اسمبلی منظور کر رہی ہے نا ،آپ ہی کے بھیجے نمائندے ہیں نا ۔اگراسی اسمبلی سے شراب پر پابندی ختم ہوتی یا خواتین کی آزادی کا کوئی غیر اسلامی بل منظور ہوتا توپھر آپ کا موقف کچھ اور ہوتا؟یہ کیوںلوگ ٹوئٹر پر عبد السلام کے ہیش ٹیگ کے ساتھ جبران ناصر، بشریٰ گوہر و دیگر ان جیسوں کو ٹیگ کر رہے ہیں۔یہ کیوں
عجیب موضوعات کے کارٹون شیئر ہو رہے ہیں ؟مبشر زیدی کی ٹوئیٹ میں کیپٹن صفدر ،پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم والے ارکان اسمبلی کو شرم کرنے کا کہا جا رہا ہے ؟یہ کیوں ایک ہی ٹوئیٹ سب کاپی پیسٹ کر رہے ہیں ۔چکر کیا چل رہا ہے ؟یہ کیابیانیہ ہے:’’کوئی سیاست دان یا لیڈر اتنا تو کہہ سکتا ہے کہ ڈاکٹر عبد السلام کے مذہب سے ہمیں کوئی سروکار نہیں یہ انکی ذاتی عقیدہ تھا ،مگر بطور پاکستانی سائنسدان اور نوبل انعام یافتہ کہ وہ ہمارے قومی ہیرو ہیں اورہم انکی قدر کرتے ہیں، یہ کہنے میں کون سی بلاسفی ہو جائے گی؟‘‘یہ کیسی طنز یہ ٹوئیٹ ہے کہ ’’ہم غوری، غزنوی، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی جیسے عربوں، افغانیوںکو قبول کر لیتے ہیں مگر اپنے عبد السلام اور ملالہ کو نہیںاپناتے ؟‘‘کچھ لوگ یہ جواب بھی دے رہے ہیں ،’’ہم مسلمان ہیں اور اس شعبہ تعلیم میں اولین کام کرنے والے اور آج کے مغرب کو آگے کا راستہ دینے والے ہیں ، اسلیے ماضی کے اپنے اسلا ف کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا ‘‘۔یہ کونسا بیانیہ ہے کہ ’’جب آپ ایک نوبل انعام یافتہ ایک سائنسدان بندے کے نام کو صرف اس وجہ سے برداشت نہیں کرسکتے کہ اُس کا تعلق اقلیت سے تھا۔ تو آپ اقلیتی برادری کو کیسے مطمن کر سکتے ہو کہ آپ اس ملک کے برابر کے شہری ہو۔ ‘‘ دوسری جانب یہ پوسٹ کیا پس منظر بتا رہی ہے :’’قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا انتساب عبد السلام قادیانی سے ہٹایا گیا-آج قومی اسمبلی میں اکثریت نے قرارداد پاس کرکے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کے نام سے ہٹا کر الخزیمی کے نام سے منسوب کیاگیاہے۔قرارداد قومی اسمبلی میں جناب کیپٹن صفدر نے پیش کیا، جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں-افسوس کہ آج صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، لیکن یہاں صحافت کے جامہ میں بیٹھے ہوئے کچھ متعصب مبغضین بے حیائوں کے منہ سے ایک لفظ بھی قرارداد کے حق میں نہیں نکلا؛ جبکہ کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی میں ختم نبوت ترمیم پر تنقید کرنے والے شیخ رشید کے وصف میں آسمانوں کے قلابے ملا دئے جاتے تھے-!کیا کیپٹن صفدر کا یہ کارنامہ نہیں جس پر آج آپکے منہ پر تالہ لگا ہوا ہے یا وہ نون لیگ کا ہے اسلئے آپ کے تشریف پر تعریفی کلمات کہنا بوجھ ہے؟ختم نبوت دراصل مسلمانوں کے ایمان کا محور ہے، جب اس محور میں سیاسی پسند اور ناپسند خلل ڈالنا شروع کریں تو انسان کی ایمان کی حالت کیا ہوگی اسکا اندازہ آپ خود لگائیں!میں کپٹن صاحب کو اس عملی ختم نبوت کی خدمت پر سلام پیش کرتے ہوئے ان لوگوں کو شرم دلاتا ہوں جو آج اس قرارداد کے بارے میں دو تعریفی کلمات صرف اسلئے نہیں کہہ سکتے کہ قرارداد پیش کرنے والا ان سے سیاسی اختلاف رکھتے ہیں!‘‘۔اسی طرح ڈاکٹر عبد السلام کی تصویر کے ساتھ یہ کیپشن کہ ’’اگر میرا نام نہیں پسند تو بہتر ہے کہ جھنگوی انسٹیٹیوٹ آف فزکس رکھ لو‘‘۔ ارے بھائی ، معاملہ یہ ہے کہ گوگل کے اسکرین شارٹ ڈالے جا رہے ہیں عبد السلام کے سرچ نتائج اور الخزیمی کے سرچ نتائج کے ساتھ جس میں دکھایا گیا کہ اس نام کو2014کے بعد سے کسی نے سرچ ہی نہیں کیا۔اسماء شیرازی نے اس حوالے سے لکھا کہ ’’قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس سے ڈاکٹر عبد السلام کا نام بدل کر ن لیگ ثابت کرے گی کہ ان کی جماعت میں نظریاتی لفظ ن ہی ہے اور کچھ نہیں ۔الیکشن سے پہلے مخصوص ووٹ بنک کے لیے نظریہ بدلنا محض دوغلا پن ہے۔
وائس آف امریکہ اور بی بی سی نے اس موضوع پر فوری اسٹوری کیوں کر دی ؟کیا قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد اس حد تک اہم تھی ؟
ارے چھوڑو بھی کیا بیکار قصہ لے کر بیٹھ گئے ہو ، تمہارا موضوع تو سوشل میڈیا ہے بات کر رہے ہو سائنسدانوں کی ۔فکر ہے ٹنکی کی ؟ ٹنکی کی ؟ کونسی ٹنکی؟ ارے بھائی ٹنکی گراؤنڈ کی ۔کیوں کیا ہواوہاں۔ ارے ابھی تو ایک جلسہ ہوا ہے اُس کی گرما گرمی ختم نہیں ہوئی کہ دوسرا ہو رہا ہے ۔اوہو ، تو بھائی الیکشن کا موسم شروع ہے سیاسی جلسہ تو ہونگے۔خاص بات کیا ہے ؟کچھ پتہ بھی ہے کہ کونسی پارٹی نے انقلابی کار کردگی دکھائی ہے سوشل میڈیا پراس ہفتہ بلکہ پورے مہینے کہہ لو؟انصافیو کی ٹکر پر کام کیا ہے پیپلز پارٹی نے۔ٹنکی گراؤنڈ کراچی میں جلسہ کے بعد سے تو روزانہ ہی ایک سے دو ٹرینڈ ٹوئٹر پر لازمی نظر آ رہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے پی ٹی آئی کے عموماً لسٹ میں دو ٹرینڈ نظر آجاتے ہیں۔ہاں واقعی یہ بات تو میں نے بھی نوٹ کی کہ ’’کوئٹہ میں تیر چلے گا‘‘، چیئرمین پی پی پی، جیسے دیگر کئی ٹرینڈ کو پیپلز پارٹی کے جیالے سوشل میڈیا کے مقبول ترین پلیٹ فارم پر کامیابی سے قابل ذکر بنانے میں کامیاب رہے۔یہ وہی پریکٹس ہے جو تحریک انصاف کے کارکنان عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔بہر حال بات ٹنکی گراؤنڈ کے تناظر میں کی جا رہی تھی ، وہ جگہ جو مہاجروں کا گڑھ کہی جاتی تھی وہاں پیپلز پارٹی نے ایک کامیاب جلسہ کیا ۔ اس جلسہ پر خاصی بات کی گئی ۔ ایم کیو ایم کو بھی اپنی بقاء کے لیے باہمی اختلاف کو سائڈ رکھ کر سیاسی میدان میں کودنا پڑا اور جوابی جلسہ کا اعلان کیا گیا ۔ پیپلز پارٹی جلسہ کی کوریج پر حقائق پر مبنی ایک خوبصورت تبصرہ معروف صحافی احسان کوہاٹی نے یوں کیا:’’پیارے بلاول ! لیاقت آباد ٹنکی گراونڈ میں آپکو انگریزی رسم الخط میں لکھی ہوئی اردو تقریر کرتے دیکھا خوشی ہوئی آپ کو ایک عام کارکن کی طرح گلا پھاڑ کر نعرے لگاتا سنا،سچی متاثر ہوا،آپ نے لیاقت آباد میں پارٹی کے لگ بھگ 44 سال بعد ہونے والے جلسے میں لیاقت آباد والوں سے شکوہ کیا کہ ہم بارہا آتے رہے لیکن آپ نے لفٹ نہیں کرائی پھر امید کی پھلجڑی تھماتے ہوئے کہا کہ میں آپکی پیاس بجھاوں گا۔کراچی کو اس کی روشنیاں واپس لوٹاؤں گا۔دل خوش ہوا لیکن دفعتاً یاد آیا کہ سندھ میں آپکے جیالے اقتدار کو خیر سے دس برس ہو رہے ہیں آپ کو کس کھوتے کے پتر نے پیاس بجھانے سے روکا تھا۔وہ شب دیجور کے جنے ہوئے کانام بتائیں جس نے کراچی میں روشنیاں کرنے سے منع کیا۔ایک بات اور سمجھ سے باہر کھڑی لنگڑی پالا کھیل رہی ہے کہ جس نے کراچی کو اس حال تک پہنچایا وہ تو ہم نوالہ ،ہم پیالہ تھے روٹھتے تو رحمان ملک ڈائپر باندھ کر 90 پہنچ جاتے تھے اس خاکسار نے 90 پر کئی جیالی آنیوں جانیوں کی کوریج کی ہے۔‘‘اسی طرح ایم کیو ایم کے جلسہ کے اعلان کے تناظر میں ایک دلچسپ ٹوئیٹ یہ بھی تھی کہ ’’ایم کیو ایم کا 5 مئی کو ٹنکی گراونڈ پر جلسے کا اعلان کرتے ہی کراچی کے تاجروں کو ساوتھ افریقہ اور دبئی سے بھتے کے فون آنا شروع ہو گئے ۔حیرت ہے بھائی حیرت ہے۔‘‘ایم کیو ایم کارکنان کی جانب سے بھی کوشش جاری رہی ایک ہیش ٹیگ کراچی دشمن پی پی پی کے نام سے لانچ کیا گیا تاہم ٹرینڈ لسٹ تک نہیں پہنچ سکا ،’’پیپلز پارٹی نے ٹنکی گراونڈ میں نو ٹنکی کرنے کی لا حاصل کوشش کی۔جلسہ ایم کیو ایم کرے گی۔‘‘اس کے جواب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ عندیہ آیاکہ ،’’پی پی پی کے ایک جلسے نے مستقل قومی مصیبت (MQM) کی نیندیں اڑا دی ہیں دونوں گروپوں نے ٹنکی گراونڈ میں جلسے کا اعلان کیا ہے لیکن اب کراچی انکے خوف سے آزاد ہوچکا ہے یہ ہانپتے کانپتے رہیں اور ہم انہیں دوڑاتے رہیں گے۔کراچی والو تیاری کرلو جلد ہی بلاول آرہا ہے ایک اور جلسہ کرنے۔‘‘بہر حال پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کارکنان سوشل میڈیا میں لہو گرماتے نظر آئے ۔ ساتھ ہی جماعت اسلامی نے بھی ہڑتال کے بعد باغ جناح میں کراچی یوتھ کنونشن کا اعلان کر کے فل ٹائم سیاسی ماحول بنادیا۔دوسری جانب آزادی اظہار رائے world Press freedon Day اور ’زنجیروں میں جکڑا میڈیا‘کے عنوان سے بھی بھی دو ٹرینڈ نمایاں رہے۔

حصہ