کراچی کے مسائل

1040

عثمان الدین
کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے،اس کی آبادی محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ سے دو کروڑ کے لگ بھگ ہے ، شہر قائد وسیع رقبہ اور کثیر آبادی کی وجہ سے پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو ،زر مبادلہ اور ملازمتیں دینے والا شہر ہے ،البتہ اس کے باوجود یہ شہرہمیشہ سے مختلف نوعیت کے سنگین مسائل کا شکار رہا ہے، یہ تو ایک حقیقت ہے کہ جب کسی شہر کا رقبہ اس قدر بڑا ہوتا ہے اس کی آبادی اتنی زیادہ ہوتی ہے تو وہاں مسائل پیش آتے ہی رہتے ہیں لیکن ان مسائل کو حل کرنا ارباب اختیار کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ مسائل جس قدر بھی زیادہ اور گھمبیر ہوں وہ حل کرنے سے ہی ختم ہوتے ہیں ، شہرقائد کا المیہ یہ ہے کہ وہ مختلف مسائل کے شکار ہونے کے باوجود ارباب اختیا ر کی جس قدر توجہ کا مستحق ہے اس سے محروم ہے، ،یہی وجہ ہے کہ یہاں کے مسائل سالہا سال گزرنے کے باوجود بھی حل ہونے کا نام نہیں لے رہے بلکہ ان میں اضافہ ہی ہورہا ہے اور عوام ان سے پریشان ہیں۔
آئندہ عام انتخابات کا وقت قریب ہے اور ایم کیو ایم میں مائنس الطاف ہوجانے کے بعد سیاسی جماعتوں کی نظریں کراچی پر مرکوز ہیں،سندھ میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی آئندہ الیکشن میں کراچی سے جیتنے کے دعوے کررہی ہے ،اس لیے اس مناسبت سے شہر کے بعض اہم اور فوری حل طلب مسائل کو ذکر کیا جارہا ہے تاکہ حکمراں جماعت اور دیگر سیاسی جماعتیں ان کی طرف متوجہ ہوں اور ان کے حل کے لیے فوری اور عملی اقدامات اٹھائیں جائیں کیونکہ شہری ان کی وجہ سے پریشانی کے شکار ہیں :
1۔کراچی کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ جو کہ ہر پاکستانی کو معلوم ہے ،وہ بد امنی رہا ہے ۔اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت اور سیکورٹی اداروں کی کوششوں کے نتیجہ میں قتل و غارت گری کے حوالہ سے کراچی کے حالات اب بہت بہتر ہوچکے ہیں اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے ، امن و امان کی اس صورت حال کو مستقل قائم رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ کراچی کے عوام مستقبل میں دوبارہ کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی مصلحت کے پیش نظر پہلے جیسے حالات کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ البتہ اسٹریٹ کرائمز، لوٹ مار اور ڈاکے کے واقعات نے بدستور شہریوں کو پریشان رکھا ہوا ہے ،مکمل امن و امان کے لیے ان واقعات کی روک تھام بھی ضروری ہے ۔
2۔اس وقت شہر کا ایک اہم مسئلہ پانی کا ہے ،صاف پانی جو کہ انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے ،کراچی کے عوام اس سے محروم ہیں اور بعض علاقوں میں تو عوام پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں اورعوام غربت کے اس عالم میں مہنگے داموں ٹینکرز ڈلوانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسیوں کا پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہونا ارباب اختیار کے لیے یقیناًلمحہ فکر ہے ۔
3۔بجلی کے حوالے سے ویسے تو پورا ملک مسائل کا شکار ہے لیکن کراچی کے عوام کے الیکٹرک کی وجہ سے اضافی اذیت کے شکار ہیں ،لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی اوور بلنگ نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ ایک جانب وفاقی حکومت ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا دعوی کررہی ہے اور دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسی بجلی کو ترس رہے ہیں ۔
4۔ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بھی کراچی کے عوام مسائل کے شکار ہیں ،عوام کو ضرورت کے مطابق اور آرام دہ ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے ،عوام جس طرح خطرناک انداز میں لٹک کر اور چھتوں کے اوپر سفر کرتے نظر آتے ہیں وہ اس پریشانی کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہے ۔اس سلسلہ میں وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے لیے گرین لائن بس کا منصوبہ اس مسئلہ کے حل کی جانب ایک اچھا قدم ہے ۔
5۔کراچی کا ایک مسئلہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے شہر میں شروع کیے گئے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہے ،گرین لائن بس کے منصوبہ کو ہی لے لیں جو کہ انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے ، ان منصوبوں کی وجہ سے شہرکھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے ، جگہ جگہ شہر کی اہم سڑکیں کھدائی کی وجہ سے بند ہیں ،ان منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر سے جہاں شہری ٹریفک کے حوالہ سے سخت مشکلات کے شکار ہیں وہیں شہر میں مٹی کی فضائی آلودگی بھی بہت حد تک بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے ان سڑکوں کے اطراف میں موجود تاجروں اور عوام کے لیے وقت گزارنا ہی مشکل ہوچکا ہے۔ دوسری جانب حکومت ہے جو شاید ان منصوبوں کو شروع کرکے بھول چکی ہے، اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ شہر میں جاری مختلف منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرے تاکہ عوام کو اس مشکل سے نجات حاصل ہو ۔
6۔ٹوٹ پھوٹ کی شکار سڑکیں بھی کراچی کا ایک بڑا مسئلہ ہے ،شہر کے پسماندہ علاقوں کی سڑکوں کا تو خیرکیا کہنا ،ان کی حالت دیکھ کر تو اندازہ یہ ہوتا ہے کہ شاید حکومت کی نظر میں وہ کسی توجہ کی مستحق ہی نہیں ہیں لیکن اچھے اچھے علاقوں کی سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کی شکار نظر آتی ہیں ،بعض اہم ترین شاہراہوں پر ایسی خطرناک جگہوں میں کھڈے موجود ہیں جو کہ موٹر سائیکل سواروں کے لیے بلا مبالغہ جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں ،لیکن حکومت اور بلدیاتی نمائندوں کی ان کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔
7۔کراچی کی چھوٹے بڑے چوراہوں پر بسا اوقات سیلاب کی مانند جس طرح گٹر کا گندا پانی بہ رہا ہوتا ہے اور گاڑیاں اس میں تیر رہی ہوتی ہیں اس سے بھی عوام تنگ آچکی ہے ،گندے پانی کی نکاسی کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ کی ذمہ داری ہے لیکن وہ اس کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے ۔
8۔ صفائی ستھرائی کے حوالہ سے ناقص صورتحال اس وقت شہر کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے ،جگہ جگہ گندگی اور کچھرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں ۔ کچھرا اٹھا نا بلدیہ کی ذمہ داری ہے لیکن وہ اختیارات کے نہ ہونے کا رونا روکر اپنے آپ کو بری الذمہ کردیتی ہے اور حکومت سندھ ان پر الزام لگاتی ہے کہ وہ کام کرنا نہیں چاہتی ہے۔رہی بیچاری عوام تو ان کوبس دونوں جانب کے بیانات ہی سننے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے ۔
مذکورہ تمام مسائل شہر قائد کے اس وقت اہم اور فوری حل طلب مسائل ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے شہری سخت اذیت میں مبتلا ہیں اور ان کو حل کرنا حکومت اور بلدیاتی اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کوئی ان سے بری الذمہ نہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مسائل کی طرف توجہ دی جائے اور ان کو ہنگامی بنیاد پر حل کیا جائے تاکہ شہریوں کو اس اذیت سے نجات حاصل ہوسکے ۔

رنگ ونسل اور ذات پات کی وبا

بنت شفیق
معاشرہ افراد کے میل ملاپ سے تشکیل پاتا ہے۔ معاشرے میں ہمیں اچھے یا برے ہر طرح کے افراد ملتے ہیں جو اپنا مثبت یا منفی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں مگر ایک اچھے معاشرے کی بنیاد اچھے افراد پر مشتمل افراد سے ہی رکھی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آدم علیہ السلام سے پیدا فرمایا اس لحاظ سے ہم سب کا حسب و نسب اور خاندان آدمیت ہے مگر پھر ہمیں مختلف گروہوں اور نسلوں میں شامل کردیا تاکہ پہچان ممکن ہوسکے۔ جس کا جو پیشہ تھا وہ اسی مناسبت سے جانا جانے لگا ۔ لوگ مختلف قوموں اور قبیلوں میں بٹ گے۔
یوں یہ قومیں اور قبیلے ہی افراد کی پہچان اور تعارف کا ذریعہ بنتے چلے گئے مگر یہ معاملہ فقط پہچان اور تعارف تک رہتا تو درست تھا لوگوں نے اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں کو حقیر قوم اور قبیلہ سمجھ کر ان سے نسلی امتیاز برتنا شروع کردیا۔ یہ قومیں اور قبیلے آہستہ آہستہ تذلیل اور تحقیر کا باعث بنتے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد مایا کہ ’’یہ قومیں اور قبیلے اللہ نے پہچان کے لیے بنائے ہیں نہ کہ ایک دوسرے پر تفاخر اور غرور وتکبر کے لیے‘‘۔
اللہ کے نزدیک معیار رنگ ونسل ذات پات نہیں بلکہ تقویٰ ہے۔ اگر وہ عزتیں دینے پہ آئے تو ایک حبشی غلام کے زمین پر چلنے کی آواز عرش پر سنوا دے اور اگر ذلیل کرنے پہ آئے تو ابو جہل ابو لہب جیسے نسلی تفاخر کرنے والوں کو قیامت تک کے لیے نشان عبرت بنا دے۔ تقویٰ ہی انسان کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا ’’اصل معیار تقویٰ ہے‘‘۔
موجودہ معاشرے میں ہمارے اردگرد بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں زیادہ تر جھگڑوں کی بنیاد ذات پات ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو بہتر اور اعلیٰ سمجھتا ہے صورتحال یہ ہے کہ اچھے خاصے دین دار لوگ بھی اس تفرقے بازی اور نسلی امتیاز کا شکار ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بیٹی یا بیٹے کا رشتہ کرنا ہو تب بھی دین کے بجائے ذات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بطور مسلمان ہمیں تمام معاملات میں ذات پات اور رنگ نسل کو بالائے طاق رکھنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اگر رشتہ داری کے شرعی اصول دیکھے جائیں تو واضح معلوم ہوتا ہے وہاں پر بھی تقویٰ سب سے مقدم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک آدمی چار باتوں کی بنا پر عورت سے نکاح کرتا ہے حسب ونسب، مالداری، خوبصورتی اور دینداری، تو تم دین دار عورت کو ہی معیار بناؤ‘‘۔
اصل معیار ہے تو دین اور تقویٰ ہے۔ مومن کا اصل معیار رنگ نسل کی بجائے تقویٰ ہی ہونا چاہیے ۔ہم نے معیار حسب ونسب مالداری اور خوبصورتی کو بنا لیا ہے جبکہ دین کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اسی وجہ سے مسائل جنم لیتے ہیں ہر گھر لڑائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ اس سب کی وجہ دین سے دوری، فضول رسم رواج اور ذات پات کی جکڑ بندیاں ہیں۔ والدین ایسی چاند سی بہو لانا چاہتے ہیں جو اپنے ساتھ جہیز بھی خوب لائے۔ لڑکے بھی خوبصورت بیوی کے چکر میں دین کو بھول جاتے ہیں پھر شکوے شکایتیں کرتے ہیں۔ جب دین کے بجائے اپنی من مانیاں کی جائیں گی پھر پریشانیاں تو مسلط ہوں گی لیکن اگر تمام معاملات اللہ کے احکامات کے مطابق ہوں گے تو پھر زندگیوں میں بھی سکون آ جائے گا۔ ہمارے خاندانی اور سماجی رویے بھی بہترین ہوجائیں گے اور یقیناًہماری آخرت بھی بہتر ہوجائے گی۔

حصہ