سینیٹ الیکشن، سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصروں کی زد میں

344

مسلم لیگ (ن ) نے جس طرح سوشل میڈیا کو اپنے حواس پر طاری کیا ہے اُس کا اندازہ اُن کے تواتر سے سوشل میڈیا کنونشن کو دیکھ کرلگایا جاسکتا ہے ۔سیاسی جلسوںکو سوشل میڈیا کنونشن کیوں کہا جاتا ہے یہ تو سمجھ نہیں آیا لیکن یہ ضرور اندازہ ہوا کہ مریم نواز صاحبہ سوشل میڈیا کی جادوئی اہمیت ضرور جانتی ہیں ۔آفتاب اقبال نے اپنی ٹوئیٹ میں ایک خبر نامہ کے کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کون سا فیس بْک، کیسا ٹوئیٹر ؟ ہمیں نہیں پتا۔ن لیگ کے اپنے ہی کارکنان نے مریم نواز کے ‘‘سوشل میڈیا کنونشن ’’کا بھانڈا پھوڑ دیا۔‘‘اس کے بعد مسلم لیگ کے عوامی مقامات پر جلسوں یا سوشل میڈیا کنونشن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سمٹا نظر آیا جو مختلف شہروں کے معروف ہوٹلوں کے ٹھنڈے ہالوں میں منعقد کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں پی ٹی آئی کے ایک سوشل میڈیا کارکن نے یوں تبصرہ کیا کہ ’’آج پڑھے لکھے پاکستانیوں کا سوشل میڈیا کنونشن ہے ، ہم جاہل پٹواریوں کی طرح گندی زبان نہیں بولیں گے۔‘‘
ویسے اس سب کو دیکھ کر پاکستان میں مجموعی طور پر سیاسی تجزیوں و تبصروں میں اس تیزی سے ترقی ہوئی ہے کہ ان تجزیوں پر ایک مجموعی مثال طارق حبیب اپنی وال پر یوں دیتے ہیںکہ ’’کچھ ٹی وی اینکرز کو تجزیہ نگار کا درجہ ایسے ملا ہے،جیسے گاؤں میں بھینس کو ٹیکہ لگانے والے گوالے کو ڈاکٹر کا درجہ ملتا ہے۔‘‘ویسے اب بات ٹی وی اسکرین سے نکل کر سماجی میڈیا کی وال پر کیچڑ اچھالنے کے بعد ایک بار پھر عملی طور پر سیاہی پھینکنے اور جوتا پھینکنے کی روایت میں داخل ہوئی ہے۔2008کے شروع میں غالباً اپریل کا مہینہ تھا جب ملک میں نگراں حکومت کا راج تھا ،سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے منہ پر جوتا مار کر اس روایت کا آغاز ہوا تھا،اس کے بعد وقفوں وقفوں سے دنیا بھر سے اس طرح کے واقعات نوٹس میں آنا شروع ہوئے ،اس کے کچھ ماہ بعد ایسی ہی ایک خبر بغداد سے آئی جب طاقت کے نشے میں چور امریکی صدر بش پروہاںپریس کانفرنس کے دوران ایک عراقی صحافی نے ہمت کرکے دو بار جوتے پھینکے، گو کہ صدر بش کو وہ جوتے نہیں چھو سکے لیکن عراقی عوام کا پیغام ضرور پہنچ گیا۔اسی طرح بھارت میں 2009میں تین چار واقعات ہوئے جن میں بھارتی نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی پر مدھیہ پردیش میں اُن کی الیکشن مہم کے دوران چپل ماری گئی،اسی طرح اُن ہی دنوں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ پر بھی احمد آباد میں ایک الیکشن ریلی کے دوران جوتا مارا گیا۔اگست2010میں اُس وقت کے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری پر برطانیہ میں جوتے پھینکے گئے ۔اسی سال مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ پر بھی بھارتی یوم آزادی کے دن مقامی پولیس افسر نے جوتا مار کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔2011میں لندن میں سابق پاکستانی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر بھی جوتا مارکر عافیہ صدیقی کے حق میں نعرے بلند کیے گئے ،یہی عمل دو سال بعد پاکستانی عدالت میں دہرایا گیا۔یہ سلسلہ 2016میں ایئر پورٹ پرپاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید پر جوتا پھینکنے اورپچھلے ماہ اپنی ہی پارٹی کے ایک پروگرام میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر جوتا پھینکنے تک جاری رہا۔اس کے بعد تازہ ترین واقعات میں سابق وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف پر جامعہ نعیمیہ میں جبکہ ایک ہی دن کے فرق سے اُن کے اہم ساتھی وفاقی وزیر خواجہ آصف پر کالی سیاہی پھینکنے تک جاری رہا، جس کے بعد عمران خان پر بھی جوتا پھینکنے کی گجرات میں باری آئی ۔اس طرح مارچ کا مہینہ پاکستان میں تین اہم ترین سیاسی شخصیات سے عوامی نفرت کے اظہار کے طور پر جوتا اور سیاہی پھینکنے کے عمل کے ساتھ سامنے آیا۔یہ جوتے اور سیاہی پلانٹڈ تھے یا خالص عوامی جذبات تھے ، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی سماجی میڈیا پر سیاسی تجزیوں اور سیاسی کارکنوں کے مابین مقابلہ بازی کا بھرپور سلسلہ شروع ہو ا۔زاہد علی خان اس عمل کی مخالفت و مذمت کرنے والوں کے نام لکھتے ہیں کہ ’’نا اہلوں کے چہرے سیا ہ ہونے اور جوتے پڑنے پر اخلاقیات کا سبق سکھانے والو !کیا گذشتہ ستر سالوں سے تم انہی سے سو پیاز اور سو جوتے نہیں کھاتے چلے آ رہے؟ یا جوتے کھا کھا کراپنی ذلت کا احساس ہی جاتا رہا؟‘‘ایک اور وال پر کچھ یوں تبصرہ ملا کہ ’’عالمی سطح پر پاپوش زنی کے واقعات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب گھر میں شرارتی بچوں کے ساتھ ساتھ اہم شخصیات کے لئے تقریبات میں بلٹ پروف اور فول پروف انتظامات کے ساتھ ساتھ شو پروف انتظامات بھی کیے جائیں گے۔‘‘سہیل شبیر لکھتے ہیں کہ ’’ اگلا الیکشن جوتا کھانے والوں اور جوتا چاٹنے والوں کے درمیان ہوگا۔‘‘ بی بی سی کی ویب سائٹ پر اس واقعہ کے حوالے سے رپورٹ میں صحافی سہیل وڑائچ (بطور چشم دید گواہ )کی زبانی یہ بات رکھی گئی ہے کہ نواز شریف جیسے ہی تقریر کے لیے مائک کے سامنے کھڑے ہوئے اچانک ایک طرف سے ایک جوتا پھینکا گیا جو نواز شریف کے کاندھے پر لگا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف سے بھی ایک جوتا سٹیج کی طرف پھینکا گیا۔ اس کے بعد کئی اطراف سے یہ کوشش کی گئی۔انھوں نے بتایا کہ جوتا پھینکنے والے طلباء کو جب پکڑا گیا تو انھوں نے لبیک لبیک کے نعرے لگانا شروع کر دیے اور ہال میں موجود دیگر طلبا بھی اس نعرے بازی میں شریک ہو گئے۔‘‘
بہر حال اس سب کا نقطہ آغاز پاکستان میں ہونے والے سینیٹ الیکشن اور اس کے نتائج تھے ۔ ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی یہ واضح طور پر بتا رہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں برتری حاصل کرنے سے روک کر اُن کے گناہوں پر اُنہیں مزید زیر عتاب رکھنے کے لیے ان سینیٹ الیکشن کو کسی بھی طرح رُکوانے یا ملتوی کرانے کا شور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شروع ہو چکا تھا ۔گو کہ میاں نواز شریف کی نا اہلی اور دیگر عدالتی فیصلوں نے بھی اس ہدف پر اثر ڈالا ،بہر حال پیسہ (رشوت) کی بدترین عملی مثالوں کے ساتھ سینیٹ الیکشن ہوئے ۔بھاری رقوم کی لین دین کے الزامات کا سلسلہ خوب جاری رہا اور سوشل میڈیا پر شور برپا رہا۔ڈاکٹر فیاض عالم نے یاد دلاتے ہوئے لکھا کہ ’’سینیٹ کے الیکشن میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درمیان ہونے والی وقتی مفاہمت پر کچھ لوگ حیران ہیں۔ایسے لوگ یا تو واقعی سینیٹ کے گذشتہ کچھ انتخابات میں ہونے والی اس سے بھی زیادہ حیران کن مفاہمتوں سے بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کررہے ہیں۔براہ کرم ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالیے اور اس کے بعد تجزیہ و تبصرہ کیجئے۔‘‘اسی بات کو پی ٹی آئی نے اپنے جوابی بیانیے میں بطور دلیل استعمال کیا جب 2009،2012،2015میں پیپلز پارٹی کے نامزد فاروق نائیک، نیر بخاری اور رضا ربانی ، مسلم لیگ ن کی سپورٹ سے بطور چیئرمین سینیٹ بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔عدنان اقبال نے سوال اٹھایاکہ ،’’سینیٹ الیکشن میں زر اور زرداری کی غیر متوقع اور حیران کن پیش قدمی کے پیچھے کیا راز ہے؟ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا گھوڑا تو نہیں بدل دیا؟‘‘ اسی طرح ایک ٹوئیٹ میں کہا گیاکہ ’’سینیٹ الیکشن نے ثابت کر دیا کہ بھٹو ابھی بھی زندہ ہے ۔‘‘ویسے ایم کیو ایم کے ساتھ اس سینیٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا اس پر بھی خوب تبصرے ہوئے ،بی بی سی نے لکھا ہے کہ ’’خیبر پختوخوا میں حکمران جماعت پی ٹی آئی اور سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی کی اس کامیابی کو ‘ہارس ٹریڈنگ’ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔‘‘صہیب راشد لکھتے ہیں کہ ’’ ایم کیو ایم کے ساتھ سینیٹ الیکشن میں لاہور قلندر والی ہو گئی ‘‘، ’’ کراچی مینڈیٹ ، لندن، پی آئی بی اور بہادر آباد گروپوں میں بہہ گیا ، سندھ کی تمام نشستیں پیپلز پارٹی لے گئی۔‘‘اس سینیٹ الیکشن میں جماعت اسلامی نے سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید ایک سینیٹر کی سیٹ خیبر پختونخواہ سے مشتاق احمد خان نے حاصل کر لی جس پر جماعت اسلامی کے دائرہ میں مبارک باد کا بھر پور سلسلہ جاری رہا۔اسی طرح سینیٹ الیکشن میں جب چیئرمین سینیٹ کے لیے سابق صدر زرداری کی جانب سے بلوچستان کے احساس محرومی کو دور کرنے کے نام پر صادق سنجرانی کا نام سامنے آیا جن کے مقابلے پر مسلم لیگ ن نے راجہ ظفر الحق کوکھڑاکیا ۔پارٹی صورتحال سینیٹ الیکشن کے بعد واضح ہوئی اور چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے دو گھنٹے قبل تک صورتحال یہ بن چکی تھی کہ جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز کے ووٹ فیصلہ کن قرار دیے جا رہے تھے ، مگر جب نتیجہ آیا تو خاصا فرق سوالیہ نشان بن کر سامنے آیا۔ عمران خان کے آصف علی زرداری کے موقف کی حمایت یا یوں کہہ لیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا کارکنان کے مابین ایک بھرپور جنگ شروع ہوئی ۔ساتھ ہی ایک جانب سے فو جی بوٹوں پر مبنی تصاویر کو بھی خوب وائرل کیا گیا۔ایک ٹوئیٹ یہ بھی مقبول رہی ’’بلوچستان میں جلد ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کو تیارمقامی آبادی نے گوالوں سے دوھ لینا بند کر دیا۔‘‘جماعت اسلامی نے مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ ظفر الحق کو ووٹ کیوں دیا کا شور ، کہیں ماضی میں عمران خان اور اسد عمر کے پیپلز پارٹی اور صدر زرداری سے متعلق یادگار جملوںکی تذکیر کی جاتی رہی تو کہیں پر پیپلز پارٹی زندہ ہے بھٹو کے نعرے لگاتی رہی کیونکہ نعمت خان لکھتے ہیں کہ ’’بھائی لوگوں کو چیئرمین ملا،زرداری کو ڈپٹی مگر خان صاحب کو کیا ملا؟‘‘مسعود ابدالی لکھتے ہیں کہ’’محترم عمران خان وقتی ناراضی کے بعد ایک بار پھر جنہیں’’منافقین ‘‘ کہا تھا‘ ان سے راہ و ربط بڑھارہے ہیں۔ سینیٹ کے سربراہ اور نائب سربراہ کے انتخابات میں اپنا سب کچھ زرداری صاحب پر نچھاور کردینے کے بعد خان صاحب کو ’’لٹنے‘‘ کا احساس ہوگیا ہے اور اب وہ بھاگتے چور کی لنگوٹ یا سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ ’’پکڑنے‘‘ کی فکر میں ہیں۔ اس منصب کے لیے تحریک انصاف کے متوقع امیدوار جناب اعظم سواتی نے جس جماعت کو ’’جماعت المنافقین‘‘ کہا تھا اُس کے امیر سے بات کی ہے اور شنید ہے کہ شیری رحمن کے مقابلے میں اعظم سواتی کی حمایت پر راضی بھی ہوگئے ہیں۔ بے چارے ’’منافقین‘ ‘گزشتہ نصف صدی سے فقہی اصولوں کے مطابق بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی برائی کی حمایت کرتے چلے آئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں نواز شریف سے شدید اختلاف کے باوجود ختم نبوت اور ناموس رسالت کے لیے پرعزم راجا ظفرالحق کا ساتھ دیا۔اب قائد حزب اختلاف کے لیے ایک طرف پیپلز پارٹی کی شیری رحمن ہیں جنھوں نے آسیہ بی بی کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد سینیٹ میں ناموس رسالت قانون کی منسوخی کے لیے نجی بل لانے کا اعلان کیا تھا لیکن اتفاق سے اس کے چند ہی دن بعد سلمان تاثیر ہلاک کردیے گئے جس پر دوسرے روشن خیالوں کی طرح محترمہ بھی دبک کر گوشہ گمنامی میں چلی گئیں اور کافی دن بعد میدان سیاست میں دوبارہ وارد ہوئیں۔ ’’منافقین‘‘ کے لیے شیری رحمن کو ووٹ دینا ممکن نہیں چنانچہ خیال ہے کہ ’’امیرالمنافقین‘‘ سمیت ان کے دونوں ووٹ اعظم سواتی کے حق میں استعمال ہوں گے۔‘‘

حصہ