طلبہ یونین۔۔۔ آخر ڈر کس بات کا ہے؟۔

299

لاہور میں ایک کالج کے ’’سالانہ عشائیہ ‘‘ میں شرکت کی دعوت ملی، انتظامات اس قدر شاندار تھے گویا کوئی بڑی دعوت ہے، پروگرام کا ہال ، کیٹرنگ کا سامان ، سجاوٹ کے لوازمات اور آخر میں کھانا سب کچھ ہی بہترین تھا۔ منتظمین سے سوال کیا کہ پروگرام تو بہت شاندار ہے، اس کا بجٹ بھی اسی قدر ہوگا تو یہ بجٹ آیا کہاں سے ؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے کالج کو اس پروگرام کا مکمل بجٹ مہیا کیا جاتا ہے ہمیں کالج انتظامیہ وہ پیسے دیتی ہے اور ہم انہی پیسوں سے یہ پروگرام کراتے ہیں۔
حیرت ہوئی کہ یہ روایت اور کسی جگہ تو سنی نہ دیکھی، حکومت صرف اسی کالج پہ مہربان کیوں ہے؟ معلوم ہوا کہ حکومت کی طرف سے تو یہ بجٹ طے ہوتا ہے لیکن طلبہ اس سے ناواقف ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ناواقف رکھا جاتا ہے۔ نتیجتاً طالبعلموں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا آتا ۔ ساتھ ہی کتابوں میں پڑھاگیا طلبہ یونین کا دور یاد آگیا ، یونین کے دور میں جب طلبہ اپنے نمائندے منتخب کرتے تھے اور وہ نمائندے منتخب ہی اس لیے کیے جاتے تھے کہ عام طلبہ کے حقوق لے کردیں۔ طلبہ یونین کے نہ ہونے اور اس پر پابندی لگانے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہو اکہ طلبہ اول تو اپنا حق ہی نہیں جانتے ، دوم اگر ان کو اپنا حق معلوم بھی ہو تو اسے حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
حقوق کی بات سے ذرا ایک قدم آگے نکلیں تو آپ کو ملکی تاریخ کے اہم ترین سیاستدان طالب علمی کے دور میں قیادت کرنے والے لوگ نظر آئیں گے ۔ یہ لوگ عام طالبعلموں کی طرح تھے ، موروثی سیاست کے انعام یافتہ اور اپنے باپ دادا کے بل بوتے پہ سیاست کرنے والوں سے کہیں زیادہ قابل اور تربیت یافتہ یہ سیاستدان عام طالبعلموں میں سے اٹھ کر پہلے انہی کے قائد بنے اور بعد میں ملک کے ہر سیاسی محاذ پر اپنا لوہا منوایا ۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم اور قابل افراد کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، آپکو ان کا تعلق کسی نہ کسی موڑ پہ طلبہ سیاست سے ملے گا۔ اور کیوں نہ ملے ؟ جب کہ یونین کے دور میں قیادت کے امیدوار کے لیے حاضری، تعلیمی قابلیت ، دوران الیکشن کم سے کم پیسے کا استعمال اور کسی غیر اخلاقی ماحول سے اجتناب جیسی شرائط رکھی جاتی تھیں۔
اب جبکہ طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی ہے تو اس قسم کے سیاستدان معاشرے میں آنا بند ہوگئے ہیں اور معاملہ ایک دفعہ پھر موروثی سیاست کے رکھوالوں کے ہاتھ میں جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔
طلبہ یونین کے سیاسی فوائد کا تجزیہ کریں تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اداروں میں عام طور پر اور الیکشن میں خصوصاً بیرونی عناصر کے داخلے اور مداخلت پر مکمل طور پر پابندی تھی جو بد قسمتی سے ہمارے عمومی ملکی سطح کے الیکشن میں بھی ناپید ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے فوری بعد امیدواران کا ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگانا ایک عام چیز ہے ۔ بیرونی عناصر کا یونین الیکشن میں دخل انداز نہ ہونا اس حقیقت کا غماز ہے کہ تعلیمی اداروں میں کس قدر صحت مند سیاسی ماحول تھا۔
یونین معاشرے میں سیاسی شعور پھیلانے میں کس قدراہم کردار ادا کرسکتی ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش بنا تو اپنے تمام تر نظریاتی اور سیاسی اختلافات کے باوجود جمعیت اور این ایس ایف ـ’’بنگلہ دیش نا منظور ‘‘ تحریک میں ایک ساتھ تھیں ۔ (بحوالہ ندیم ایف پراچہ ۔ ڈان ۔ 3جولائی 2014ء )
آج تعلیمی اداروں کی انتظامی صورتحال پر نظرا دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک کلرک سے لے کر پرنسپل اور وی سی تک ہر بندہ عام طالبعلم کے لیے ایک فرعون کا درجہ رکھتا ہے ۔ یونین کا ادارہ اپنے اندر ’’روبرو‘‘ کے عنوان سے ایسی سنہری روایت رکھتا تھا کہ جس میں کالج پرنسپل یا وی سی اپنے ادارے کے طلبہ و طالبات کے سامنے جوابدہ ہوتا تھا ۔ اب اس بات کا تصور ہی محال ہے اور اس کی واحد وجہ یونین کا نہ ہونا ہے۔
قانونی اور آئینی طور پر دیکھا جائے تو 1974ء کا سٹوڈنس آرڈی نینس طلبہ سیاست کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسی طرح آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 17طلبہ کو بلکہ پاکستان کے ہر شہری کو یونین سازی کا حق دیتا ہے۔ یہاں پر ایک مرتبہ پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اس حق کو رکشہ یونین ، نائی یونین، ریڑھی بان یونین ، ٹریکٹر ٹرالی یونین تو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہی ہے لیکن ملک کے مستقبل یعنی طلبہ پر اس کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں۔
افسوس اس بات پر بھی ہے کہ خود طلبہ یونین کا حصہ رہ کر طلبہ سیاست میں نام پیدا کرنے والی کئی نامی اور نامور بھی اب بڑوں کی چاپلوسی کرتے کرتے اپنا دور بھول چکے ہیں ۔ ان سے زیادہ گلہ اس لیے بھی بنتا ہے کہ انہیں بنانے اور اس مقام تک پہنچانے میں طلبہ سیاست کا اہم کردار تھا لیکن آج وہ نئی راہوں کے راہی بن کر اپنے پیچھے آنے والوں کی راستے کے نشانات مٹا گئے ہیں۔
ذرا ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام پر نظر دوڑائیے ، تعلیمی لحاظ سے ان کے اور ہمارے درمیان زمین و آسمان کے فرق کی وجوہات میں سے ایک طلبہ یونین کا ہونا اور نہ ہونا بھی ہے ۔ ’ـ’پلڈاٹ ڈسکشن ستمبر 2008‘‘ کے مطابق کینیڈا اور انڈیا میں طلبہ یونین موجود ہے اور بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔ اسی طرح امریکہ ، برطانیہ اور سائوتھ افریقہ کی جامعات اور کالجز حتیٰ کہ سکولز میں بھی یونین کا ادارہ موجود ہے۔
وطن عزیز میں ضیاء دور میں 9فروری 1984کو طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی گئی ، طلبہ تنظیموں نے اس فیصلے کے خلاف سخت احتجاج کیا ، جمعیت کے ناظم اعلیٰ کو جیل اور کوڑوں کی سزا ہوئی ۔ دسمبر 1988ء میں محترمہ بینظیر بھٹو نے اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں یونین بحال کرنے کا اعلان کیا ، 1989میں مختلف ایکٹس پاس کر کہ مارشل لاء آرڈینیسز کو منسوخ کر کہ آئینی طور پر یونین کا ادارہ بحال کردیا گیا۔90ء، 91ء اور 92 ء میں طلبہ تنظیموں میں جھگڑوں کے باعث ملک کے مختلف حصوں میں یونین انتخابات ملتوی ہوتے رہے۔ 92ء میں سندھ میں آرمی آپریشن کی وجہ سے انتخابات نہ ہوسکے۔ 1جولائی 1992ء کو سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا کہ تعلمی ادارے میں داخلہ لیتے وقت طالب علم سے ’’سیاسی سر گرمیوں میں شرکت نہ کرنے ‘‘ کا حلف نامہ لیا جائے ۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اس فیصلے کو چیلنج کیا ، 10مارچ 1993ء کو سپریم کورٹ کے بنچ نے جمعیت کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل اویس قاسم کی مدعیت میں دائر کردہ پیٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے طلبہ گروپس اور یونین سر گرمیوں کو بحال کردیا البتہ یونین کے ادارے کو اس کی مکمل روح کے ساتھ بحال نہیں کیا ۔ کلا سیکل یونین سر گرمیوں کی اجازت دی گئی لیکن طالب علم نمائندے کی تعلیمی ادارے کی انتظامی امور میں رسائی یا ان میں عمل دخل سے روک دیا۔
29مارچ2008ء کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے یونین پر پابند ی اٹھانے کا اعلان کیا لیکن ان کے پورے دورِ حکومت میں اس پر عمل نہیں ہوسکا ۔ اگلے قومی انتخابات میں سندھ اور آزاد جموں و کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے یونین انتخابات کروانے کا اعلان کیا، اسلامی جمعیت طلبہ نے ہر مرتبہ اعلان کا خیر مقدم کیا ، سندھ کے صوبائی وزراء سے ملاقات کر کہ اس فیصلے کو سراہا گیا ، البتہ تاحال ان اعلانات پر عمل در آمد نہیں ہوا ۔ 2016ء اور 17ء میں ایوان بالا میں یونین بحالی کے حوالے سے بحث ہوئی ، فل ہائوس کمیٹی تشکیل دی گئی ، ہائوس نے متفقہ طور پر یونین کا ادارہ بحال کرنے کی قراداد پاس کی ۔ اس موقع پر بھی جمعیت نے قراداد کا خیر مقدم کیا ، سینٹ یونین کے طریقہ کار اور ایسے اصول و ضوابط پر مبنی تجاویز بھی پیش کی گئیں ، جس کے مطابق الیکشن میں حصہ لینے والے طالب علم کی حاضری کا پورا ہونا ، اس کی تعلیمی کار کردگی کا اچھا ہونا اور اخلاقی اعتبار سے بہتر ہونا لازم قرار دیا جائے ۔ الیکشنزکے دوران جن پر تشددرکاوٹوں یا دھاندلیوں کا خدشہ پیش کیا جاتا ہے ان کی روک تھام کے لیے بھی تجاویز موجود ہیں ؛ امیدوار کو ایک معقول حد سے زیادہ پیشہ خرچ کرنے کی اجازت نہ ہو ، بیرونی عناصر کی مداخلت ممنوع ہونی چاہیے ، اور کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی یا خلافِ اصل سر گرمیوں کی اجازت نہ ہو ۔ مزید یہ کہ ان تمام قواعد میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی کرنے پر اُمیدوار کو نااہل قرار دے دیا جانے کی تجویز پیش کی گئی۔
اگر ان تمام قواعد پر عمل در آمد ہو تو کسی بھی قسم کے خدشات باقی نہیں رہیں گے۔ اور طلبہ یونینز ایک صحت مند ماحول میں طلبہ کو با شعور اور دیانت دارانہ سیاسی سمجھ بوجھ دے سکیں گی۔
اس وقت کے ملکی حالات بھی اس بات کی متقاضی ہیں کہ نوجوانوں کو جو کہ ملک کا ایک بڑا سرمایہ ہیں تعلیم کی طرف لگایا جائے ، تعلیم سے تربیت اور پھر قیادت کا ہنر ان لوگوں کو منتقل کیا جائے تاکہ ملکی ترقی کا عمل جاری رہ سکے۔ طلبہ یونین کی بحالی اس سلسلے میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہوگی۔ طلبہ کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام باشعور طبقات کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ یونین ، جو کہ اصولی طور پر بحال ہے ، اس کی عملی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔

حصہ