سوچ سکو تو سوچ لو

عام طور پر دیکھا یہی گیا ہے ضمنی الیکشن میں وہی جماعت کامیاب ہوتی ہے جو حکومت میں ہو۔ اس کی ایک وجہ تو اس کی مقبولیت ہوتی ہے اور عوام سوچتے ہیں کہ ضمنی الیکشن کی صورت میں جو ایک اور موقع ان کو ملا ہے اس میں اپنے علاقے سے ایسے فرد کو کامیاب بنایا جائے جو منتخب ہونے کے بعد ان کے مسائل پر توجہ دے سکے۔ یہ سوچ ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت کے حق میں چلی جاتی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض اوقات مقابلہ کانٹے دار بھی ہوتا ہے اور وہ تھوڑا بہت فرق جو ہار کا سبب بنا ہوتا ہے اسے دور کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اس میں ایک اہم فیکٹر یہ بھی ہوتا ہے کہ عام طور پر وہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں یا آزاد امید وار جو اپنے تعلقات کی بنیاد پر کچھ ووٹ کھینچ لیتے ہیں، حکومتی جماعت کو ان سے بات چیت کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ ہارجانے والی جماعتوں یا آزاد امید واروں کو بھی اپنا قد کاٹھ نکالنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ یہ سارے جواز حکمران جماعت کے حق میں جاتے ہیں اور اس طرح وہ ایسی نشستیں بھی اڑا لیجانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جن کو وہ ہار چکی ہوتی ہے۔

پاکستان میں جب بھی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں اس میں جو صورتحال رہی ہے اس کی تاریخ تو ایسی ہی رہی ہے لیکن 14 اکتوبر 2018 کو ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج نے کئی سوالات کو اٹھا دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ وہ جماعت جو نہ صرف مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، دو صوبوں، پنجاب اور سرحد میں مکمل طور پر اور بلوچستان میں اتحادیوں کو ساتھ ملا کر بہت ہی شاندار طریقے سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ بھی ہوئی کہ مرکز ہو یا صوبہ پنجاب، دونوں جگہ اپوزیشن اتنی کمزور نہیں تھی کہ کوشش کرکے حکومت نہ بنا سکے لیکن دونوں مقامات پر کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دی۔ گویا پرانے لوگوں نے نئے آنے والوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ حکومتی معاملات کو آگے بڑھائیں اور ملک کیلئے اپنے دعوں اور وعدوں کے مطابق کچھ نیا کرکے دکھائیں۔ سب سے حیران کن بات صدارت کیلئے الیکشن میں سامنے آئی۔ صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینٹ کے ووٹوں کے اعداد شمار اگر سامنے رکھے جائیں تو صدر کا الیکشن اپوزیشن بآسانی جیت سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اس طرح سارے کے سارے اہم حکومتی عہدے پی ٹی آئی کے پاس ہی چلے گئے۔

ایک ایسی جماعت جس کی عوامی مقبولیت کو بھی چیلنج نہ کیا جا سکتا ہو، جس کے پاس مرکز کے ساتھ ساتھ تین صوبے بھی ہوں اور اس کو صرف دو ماہ ہی گزرے ہوں اس کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ وہ ضمنی الیکشن میں شکست کا سامنا کرے گی اور اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشستوں پر اسے ہاتھ ملنا پڑ جائیں گے۔

 جنرل الیکشن اور ضمنی الیکشن کے بیچ ہر ضابطہ، اصول اور طریقہ کار بھی ویسا ہی تھا، نگراں بھی فوج ہی تھی جو باہر بھی تھی اور اندر بھی تھی۔ اگر فرق تھا تو فقط یہی کہ الیکشن کے لئے جو نیا سسٹم بنایا گیا تھا وہ آخر تک کھڑا رہا جبکہ جنرل الیکشن میں وہ تھک کر بیٹھ گیا تھا۔

                جسارت اخبار رپورٹ کرتا ہے کہ ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو بڑادھچکا لگ گیا۔ اہم نشستوں پر ن لیگ کامیاب ہوگئی جب کہ جہلم ، ڈیرہ غازی خان ، سوات اوربنوں میں بھی پی ٹی آئی کو غیرمعمولی شکست کاسامنا کرناپڑگیا۔ غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی 11 نشستوں میں سے تحریک انصاف صرف 4 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ تحریک انساف کی حمایتی جماعت کو اگر شامل کر لیا جائے تو مسلم لیگ ق کو 2 نشستیں ملیں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو 6 سیٹیں ملیں جبکہ مسلم لیگ ن کو 4 اور ایم ایم اے جوکہ ن لیگ کی اتحادی ہے اسے ایک نشست ملی۔ گویا 11 میں سے 5 نشستیں پی ٹی آئی نے گنوا دیں جو کہ ایک بہت بڑا دھچکا ہے اس لئے کہ اس میں سے بیشتر نشستیں خود پی ٹی آئی کی خالی کردہ تھیں جس میں عمران خان کی خالی کی ہوئی نشستیں بھی شامل تھیں۔

                نیشنل اسمبلیوں کی صورت حال تو خراب ہی رہی لیکن صوبائی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کو بہت کچھ ہارنا پڑا جو اس سے بھی کہیں زیادہ غور طلب بات ہے۔

                یہاں ایک بات اور بھی غور طلب ہے کہ بیشتر صوبائی نشستوں پر پی ٹی آئی کے امید واروں کی کامیابی بہت ہی قلیل مارجن سے ہوئی۔ کہیں ایسا بھی ہوا ہے فرق 20 تیس ووٹوں کا ہی رہ گیا اور کہیں چند سو کا۔

                قومی اسمبلی کی وہ نشست جس پر کراچی سے عمران خان کامیاب ہوئے تھے اس کو پی ٹی آئی واپس لینے میں کامیاب تو ہو گئی لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں سے عمران خان (پی ٹی آئی) نے 95 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے لیکن ضمنی الیکشن میں جیتنے والا امید وار صرف 33 ہزار ووٹ ہی لے سکا۔ 62 ہزار ووٹ کیا ہوئے؟، اس کا جواب پی ٹی آئی ہی دے سکتی ہے۔ پھر یہ کہ تقریباً 5 لاکھ ووٹرز کے اس حلقے میں کل کاسٹ ہونے والے ووٹ بصد مشکل 45 ہزار تھے۔ کیوں؟، اس کی وجوہات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے اور اس بیزاری کے سبب کو آپریشن کے حوالے سے بھی جانچا جاسکتا ہے۔

                میرے پاس ہر ہر نشست پر ڈالے جانے والے ووٹوں اور کس کس ممبر کو کتنے کتنے ووٹ پڑے، کی مکمل تفصیل ہے لیکن یہاں ان کا ذکر کچھ غیر ضروری ہے۔ اگر ان کی تفصیل پر غور کیا جائے تو صرف پنجاب میں ایسا لگا کہ لوگ ووٹ ڈالنے باہر نکلے باقی صوبوں میں بیزاری دیکھی گئی۔ بلوچستان میں تو ویسے بھی ڈالے جانے والے ووٹوں کی اوسط کم ہی ہوا کرتی ہے لیکن سندھ اور خصوصاً کراچی میں اس بیزاری کو بہت زیادہ محسوس کیا جاسکتا تھا۔

                ضمنی الیکشن میں ہار کے اسباب پر شاید پی ٹی آئی والے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کریں لیکن ایمانداری سے دیکھا جائے تو صرف 2 ماہ میں اتنی زیادہ غیر مقبولیت کی وجہ خود پی ٹی آئی کا کردار رہا ہے۔ عام طور پر آنے والی نئی حکومتیں فوری طور پر عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے انھیں کچھ سہولیات نہیں بھی دے پاتیں تو ایسا ضرور کرتی ہیں کہ چند مہینے حالات کو حالات کے دھارے پر ہی چھوڑ دیتی ہیں لیکن پی ٹی آئی نے آتے ہی عوام پر بہت زیادہ بوجھ ڈال دیا۔ وہ عوام جن کو خواب سبز موسم کے دکھائے گئے تھے وہ پت جھڑ کہاں برداشت کرسکتے تھے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ منتخب ہوجانے والے نمائندوں کے رویے محکموں اور عوام کے ساتھ بھی نہ مناسب رہے خصوصاً بیروکریٹس کے ساتھ تو محاذ آرائی کی کیفیت برپا ہو گئی۔ ہر عوامی نمائندے کو اور آنے والی نئی حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان میں ہر شعبے میں خرابی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اسے جادو کی چھڑی گھماکر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سارے اداروں کو مضبوط ضرور کرنا ہے لیکن مضبوط کرنے کیلئے نہایت صبر و تحمل کے ساتھ اور نہایت حکمت کے ساتھ چلنا ہوگا۔

                ایک سبب آئی ایم ایف کی جانب کاسہ گدائی پھیلانا بھی رہا ہے۔ وہی بنیادی چیز جس کو 5 سال ہدف تنقید بنا کر مسلم لیگ ن کوبرابنایا گیا اسی عمل کو بہت ہی جلدی اپنے لئے نہ صرف جائز قرار دینا بلکہ اسے درست ثابت کرنے کیلئے دلائل دینا اور جواز تلاش کرنا یقیناً پی ٹی آئی کے خلاف گیا ہوگا جس کا ثمرہ ہار کی صورت میں اور ووٹرز کی دلچسپی کم ہونے کی شکل میں سامنے آناہے۔

                میرے نزدیک ان سب باتوں سے ہٹ کر تجاوزات کے خلاف فوری اور بے رحمانہ ایکشن بہت بڑا سبب ہے جو پارٹی کی غیر مقبولیت کا باعث بن رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتی حکم سر آنکھوں پر لیکن برس ہا برس سے آباد لوگوں کو بے رحمی کے ساتھ بے چھت کردینا ایک غیر انسانی عمل ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ پہلے تو جن جن محکموں کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ برس ہا برس سے ہوتا رہا تھا ان سب کے خلاف اس سے بھی بے رحمی کا سلوک کیا جاتا اور دوئم یہ کہ عدالتی حکم کا اطلاق پہلے بااثر لوگوں پر کیا جاتا جس میں خود وزیر اعظم بھی شامل ہیں بعد میں اس عمل کو غریبوں پر دہرایا جاتا۔ کہتے ہیں کہ مظلوموں کی آہیں عرش ہلادیا کرتی ہیں یہاں تو صرف چند نشستیں ہی ہلی ہیں۔

                ابھی 4 سال 10 ماہ باقی ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ مہلت کا وقت اب بھی بہت ہے۔ یہ وقت اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ جو پانی پلوں پر سے گزر چکا ہے اس کو بھول کر اس بات کی منصوبہ بندی کر لی جائے کہ اب بے چینی اور لوگوں کے عدم اعتماد کی کوئی ایک لہر بھی نہیں اٹھنے نہیں دی جائے گی۔ جو جو توقع عوام کو دلائی گئی ہے اس پر پورا اترنے کی کوشش کی جائے گی۔ سڑکیں کسی بھی وی آئی پی کی موومنٹ پر بند نہیں کی جائیں گی۔ ویسے بھی ہر وی آئی کے پاس بم پروف گاڑیاں ہیں تو ان کو ٹریفک کے درمیان سفر کرتے ہوئے موت کے فرشتے کیوں نظر آتے ہیں۔ جلد سے جلد ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، وزرائے اعلی کی رہائش گاہیں، گورنرز کے محلات یا تو نیلام کئے جائیں گے یا حسب وعدہ درگاہوں میں تبدیل کر دیئے جائیں گے۔ ڈالر 100 روپے پر اور پٹرول 45 روپے پر آجائے گا۔ گیس کی قیمتیں نہ صرف واپس لی جائیں گی بلکہ اس کو مزید سستا کیا جائے گا۔ 50 لاکھ گھر کی تعمیر اور 1 کروڑ نوکریوں کے وعدوں کی جانب برق رفتاری سے بڑھا جائے گا۔ یہ پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کا قوم سے وعدہ تھا جس کو پورا کیا جائے گا تو عوام میں تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کی اسٹاک مارکٹ کو اٹھایا جاسکتا ہے ورنہ بگل تو ضمنی الیکشن نے بجا ہی دیا ہے۔ اسی لئے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ سوچ سکو تو سوچ لو ورنہ وہ سونامی جس کا ذکر وزیر اعظم کیا کرتے تھے اس کے برپا ہونے میں کوئی دیر نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اس کی لپیٹ میں وہی آئیں گے جو خود کسی کے خلاف سونامی برپا کرنا چاہتے تھے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں