تفریح یا ٹینشن۔۔۔۔

برائی کا اشتہار بنانے سے برائی پھیلتی ہے نہ کہ کم ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سستی تفریح کا ذریعہ ہے۔لیکن یہ سستی تفریح ہے کیا ۔۔۔۔ مارننگ شوز، ڈانس کامپیٹیشن، کیٹ واک، فحش اور نازیبا عشقیہ داستانوں پر مبنی ڈرامے،اور اس پر مزید ہم جنس پرستی  اور  بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی پر بننے والے  ڈرامے اور اس کو ملنے والی عوامی پذیرائی ۔ جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام یہ کچھ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔۔

یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔  پچھلے کچھ عرصے کے دوران Me too# کےہیش ٹیگ کے ساتھ بہت سارے افراد نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات کو شیئر کیا اور اس کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے  پذیرائی بھی ملی۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس کے ذریعے سے کتنے بچوں کے اندر منفی رجحان پیدا ہوا ۔ برائی کا جذبہ پروان چڑھا۔جن کے اپنے بچپن کسی نہ کسی زیادتی کی نظر ہو ئے انھیں موقع دیا گیا کہ وہ اپنا بدلہ پورے معاشرے سے لے لیں۔

برائی کو اشتہار بنانا بلکہ یوں کہا جائے کہ گناہ کا سکھایا جانا دراصل گناہ کی طرف بلانے کے مترادف ہے ۔

یہی کچھ آج کل ٹی وی چینلز پر ہو رہا ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو ٹی وی ڈراموں  کے ذریعے پروموٹ کیا جا رہا ہے نئی نسل کو زنا و زیادتی جیسے جرائم کے آشنا کیا جا رہا ہے انھیں انکا عادی بنایا جا رہا ہے۔

“اڈاری”  “ڈر سی جاتی ہے صلہ” اور ابھی کچھ روز قبل ختم ہونے والا ڈرامہ ” میری گڑیا  “

ڈرامہ میری گڑیا میں اگرچہ دنیاوی  و معاشرتی حقائق واضح کئے گئے کہ معاشرہ کس کسطرح مجرم کو سپورٹ کرتا ہے اور والدین کہاں کہاں کوتاہیاں کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ جرم کرنے کے طریقے بھی سکھائے گئے ۔ڈرامہ ہٹ بھی ہوگیا اور اسکی ریٹنگ بھی بڑھ گئی لیکن ساتھ ہی بہت سے ننھے ذہنوں کی منفی رہنمائی بھی کر گیا ۔

 اگرچہ ڈرامے کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں جیسے انصاف کا بر وقت ملنا ،پولیس افسران کی کارکردگی اور مجرم کو سر عام پھانسی کی سزا دی گئی جو کہ سرا ہے جانے کے قابل ہے ۔لیکن یہ ساری کارکردگی ڈرامے کی حد تک ہے حقیقت اس سے کوسوں دور ہے ۔

ہمارے معاشرے میں نہ ہی انصاف ہے اور نہ ہی بروقت سزا ۔ سینکڑوں بچیوں اور بچوں کے ساتھ  زیادتی کے واقعات ہوئے لیکن نہ ہی  ان مجرموں کے لئے کوئی قانون بنا اور نہ ہی سزا ملی۔

اس ڈرامے کے دکھانے کا صحیح مصرف تو جب ہوتا کہ مجرم کواپنے کیے پر پچھتاوا ہوتا اور ساتھ ہی  رب کے حضور جواب دہی کا احساس۔ لیکن ہمارے ڈرامے تو اس احساس سے خالی ہیں ۔

ایسے ڈرامے معاشرے میں مزید جرائم کے بڑھانے میں مددگار تو ہو سکتے ہیں ٹینشن زدہ معاشرے میں مزید ٹینشن بڑھا سکتے ہیں لیکن اس سےاور کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

سستی تفریح کے نام پر عوام کو تفریح ہی فراہم کی جائے تو  بہتر ہوگا۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں