پاکستان، صحافت اور صحافی

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہردور میں زرد صحافت ہوتی رہی ہے لیکن ماضی میں ایسے صحافی جن کو آج کل کی جدید زبان میں “لفافہ” کہاجاتا ہے، ان کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی۔ صحافی اپنے پیشے کی اہمیت کو سمجھتے بھی تھے اور ان کے نزدیک عوام تک حقائق پہنچانا جان سے بھی زیادہ عزیز تھا یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ایسے تمام صحافی اور اخبارات سے وابستہ دیگر افراد جن میں فوٹو گرافر اور رپورٹر حضرات شامل تھے وہ حکومت کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر قید و بند کی سختیاں برداشت کرتے اور اکثر اوقات جان سے ہاتھ دھوتے بھی نظر آتے تھے۔ فی زمانہ ایسا نہیں ہے۔ کہنے کو تو اس وقت بھی صحافیوں کو کافی سختیوں کا سامنا بھی ہے اور اکثر کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں لیکن ان کیلئے اس قسم کے خطرات حکومتوں کی جانب سے کم اور عوام کی جانب سے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ ماضی کبھی کسی صحافی کو عوام کی جانب سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوا۔ کیوں؟، اس لئے کہ وہ ہر خبر بلا خوف و خطر عوام کے سامنے لایا کرتے تھے۔ وہ پارٹی نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ ایسا آئینہ ہوتے تھے جس میں وہی کچھ نظر آتا تھا جو آئینے کے سامنے ہوتا تھا۔

بے شک اب پہلے جیسے نہ تو حالات رہے ہیں اور نہ پہلے جیسے صحافی پھر بھی یہ نہ سمجھا جائے کہ صحافیوں کو اپنے پیشے کی حرمت اور عزت کا بالکل پاس نہیں رہا۔

پاکستان میں حکومت اور صحافیوں کے درمیان حالات اب بھی کشیدہ ہی نظر آتے ہیں البتہ اب وہ پہلے جیسی جارحیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جونہی انھیں موقع ملتا ہے وہ اظہار خیال کرنے سے نہیں چوکتے۔

آزادی اظہار پر قدغن کی وجہ سے آج بھی صحافیوں اور حکومت کے درمیان کشید گی موجود ہے اور اس میں  25 جولائی 2018 کے عام انتخابات سے قبل خاص طور سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔  بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق زیر عتاب صحافیوں کو نشانہ بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ سرکاری بیانیے کی مخالفت کرتے نیوز چینلز کو کیبل پر آگے پیچھے کر کے اور اخبارات کی ترسیل اور اشتہارات کی تقسیم پر اثرانداز ہو کر مخالف سمجھی جانے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بی بی سی اردو نے اپنی اس سیریز میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں سینسرشپ کی صورتحال کیا ہے۔

شاہ زیب جیلانی جو پاکستانی میڈیا میں آنے سے قبل بین الاقوامی میڈیا سے بھی وابستہ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ” چند دن پہلے خبر آئی کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی کی گئی کہ میڈیا آزاد ہونے کی بجائے مقتدر ادارے کے دباؤ کے تحت مزید سیلف سینسرشپ کا شکار ہو گیا ہے۔ میڈیا کو خاموشی سے لگام دینے کا یہ طریقہ کتنا مؤثر ثابت ہو رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اس معاملے پر اپنی جامع رپورٹ جاری کی، پاکستان کے اکثر چینلوں اور اخبارات نے یہ خبر چلانے سے یا تو پوری طرح گریز کیا یا پھر نیچے کہیں دفن کر دیا” وہ مزید کہتے ہیں کہ “۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں خود ساختہ پابندیاں کوئی بریکنگ نیوز نہیں، روزمرہ کی ایک حقیقت ہے۔ ہر جمہوری یا نیم جمہوری دور میں سیلف سینسر شپ کسی نہ کسی روپ میں ہمارے ساتھ رہی ہے۔ کراچی میں جب تک الطاف حسین کا حکم چلتا تھا، میڈیا والے ان سے بچ کر چلنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ جن دنوں طالبان کی خونریزی عروج پر تھی، ہم ان کی دہشت گردی کی کھل کر مذمت کرنے سے گریز کرتے تھے۔ مذہبی نفرت اور فرقہ واریت پھیلانے والوں سے ہم آج بھی نہایت ہی ادب و احترام سے پیش آتے ہیں کہ کہیں ناراض ہو گئے تو جان کے لالے پڑ جائیں گے”۔

ایک زمانے میں طالبان یا شدت پسند اسلامی گروپوں کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ اگر ملک میں بڑی سے بڑی تخریب کاری ہوجایا کرتی تھی تو اکثر رہبران قوم اس کی مذمت کرتے ہوئے بھی گھبرایا کرتے تھے اور اگر کہیں ان سے کسی ٹی وی چینل پر مذمت کیلئے کہاجاتا تھا تو وہ بات کو کافی دور کی سیر کرانے کے بعد چند جملے ادا کر دیا کرتے تھے وہ بھی کچھ اس طرح کہ یہ انداہ لگانا مشکل ہوجاتا تھا کہ مذمت کی چند جملے مخالفت میں ہیں یا تائید میں۔

یہ صورتحال کسی بھی لحاظ سے صحافیوں کیلئے نہ تو ماضی میں اچھی رہی ہے اور نہ ہی فی زمانہ ان کیلئے ساز گار ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اب جو طریقہ صحافی حضرات نے اختیار کیا ہے وہ ٹھیک ہی لگتا ہے۔ وہ ماضی کے صحافیوں کی طرح جارحیت پر اتر نے کی بجائے مصلحت اندیش ہو گئے ہیں کیونکہ انھوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ زندگی ہے تو صحافت بھی ہے اگر مارے گئے یا حکومتی تشدد کا نشانہ بن کر ساری عمر جیل یا معذوری میں گزر گئی تو صحافت کیا خاک سلامت رہے گی۔

اسی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے شاہ زیب جیلانے رپورٹ کرتے ہیں کہ ” کچھ عرصہ پہلے تک اگر آپ کسی صحافی سے پوچھتے کہ آپ کے یہاں ریڈ لائن کیا ہے تو وہ دیگر باتوں کے ساتھ پاکستان کے ایک مقتدر ادارے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کا ضرور ذکر کرتا۔ پچھلے سوا سال کے دوران یہ ریڈ لائن مسلسل کھسکتی اور شکنجہ کستا چلا گیا ہے”۔

بات یہ ہے کہ کسی حقیقت کو چھپایا جائے یا کسی خبر کو دبا یا جائے تواس سے حالات بہتری کی جانب نہیں جایا کرتے بلکہ شکوک و شبہات اور ڈر اور خوف بڑھ جایا کرتا ہے جس سے عوام میں بیچینی بڑھنے لگتی ہے اور کسی نہ کسی موقع پر عوام پھٹ پڑتے ہیں۔ اگر حالات خراب بھی ہوں تب بھی بجائے کسی خبر کو چھپانے اور حقیقت کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے بلکہ اس کے برعکس عوام کو ہر قسم کے حالات سے باخبر رکھتے ہوئے ان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔

شاید اسی مقام اور حالات کیلئے کسی شاعر کا کہنا ہے

خامشی بھی صدا ٹھہرتی ہے

ہو نہ جب کوئی صورت ابلاغ

ہوتا یہ ہے ایسے حبس کے عالم میں جب سانس پھرنا بھی آزار جان بن جائے تو لوگ اندازوں اور گمانوں کا سہارا لینا شروع کر دیتے ہیں اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اندازے، گمان، قیاس اور بد ظنی حالات میں بگاڑ تو لا سکتی ہے، سدھار کبھی نہیں لا سکتی۔

شاہ زیب جیلانی ایک اور جگہ رپورٹ کرتے ہیں کہ “ملک کے تین بڑے اور پرانے میڈیا گروپس کو ہی لیجیے: پچھلے ایک عرصے کے دوران ان پر جو گزری ہے، وہ انڈسٹری میں سب جانتے بھی ہیں لیکن کوئی بولنے کو تیار بھی نہیں۔ ان اداروں کا بظاہر قصور ریاست کے طاقتور اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے میں ابتدائی ہچکچاہٹ ہے۔ یہ شاید آزاد صحافت کی سزا ہی ہے کہ ملک کے کچھ طاقتور حلقے چینلوں کو گرانے پر لگ جائیں۔ شہر، شہر، کنٹونمنٹ والے علاقوں میں کسی اخبار کی سرکولیشن رکوا دیں، اشتہارات بند کرا دیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کا ماضی میں کیا کردار رہا اور وہ کتنا پیسہ بناتے رہے، آج ان کے اندرونی حالات اتنے گمبھیر بتائے جاتے ہیں کہ ملازمین کو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں دی جاتیں، عملے کے لوگ نکالے جا رہے ہیں یا تنگ آکر خود ہی چھوڑ کر جا رہے ہیں”۔

پاکستان میں یہ عجیب و غریب کھیل ایک عرصہ دراز سے جاری ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ پارٹیوں اور ان کے سربراہوں کو اپنی مقصد براری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور مقصد براری کے بعد ان کو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جس کی سزا پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو آج تک مل رہی ہے۔ پی پی، ن لیگ، قاف لیگ، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم یہاں تک کے القائدہ اور طالبان تک تصرف میں لائے گئے اور اس پاداش میں کسی نہ کسی سزا کو پہنچتے رہے۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اکثر پستہ قد جماعتوں کی قد و قامت کو بلند و بالا کیا جاتا ہے، غباروں میں ہوابھری جاتی ہے اور پھر ہوا خارج کردی جاتی ہے۔

ان سب باتوں کو کیا نتیجہ نکلے گا، یہی کہ آہستہ آہستہ ہر سیاسی جماعت اور ان کے رہنماؤں سے قوم مایوس ہو جائے گی اور مستقبل میں یہی ہوگا کہ وہ ایک ہی ادارے کو مالک کل مان لیں گے اور جمہوریت اور اس کی ثمرات کو اپنے لئے زہر قاتل تصور کرکے صرف اور صرف اپنی ذات کے گرد گردش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اس صورت حال سے پاکستان کے عوام کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے، ان کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے اور اس سب کیلئے آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ ان کے حق رائے دہی کو ان کی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق استعمال کرنے کی آزادی دینے کی ضرورت ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں