ہاں! یہ کھیل ہی ہیں، جو تعلیم کو جلا بخشتے ہیں

مثل مشہور ہے کہ ایک صحت مند جسم میں صحت مند دماغ پایا جاتا ہے اور ایک کمزور جسم کمزور دماغ کا مالک ہوتا ہے۔صحت مند جسم کے لئے ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔بغیر ورزش اور کثرت کے ہمارا جسم کسل مندی ،سستی کاہلی اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔تعلیم کا مقصد ایک ہمہ جہت شخصیت کی تیاری ہوتا ہے۔ تعلیم میں جسمانی تعلیم کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔معیاری تعلیم کے لئے جسم اور دماغ کی نشوو نماکو لازمی تصور کیاگیا ہے۔جسمانی ورزش اور کھیل کو د سے احتراز کی وجہ سے کئی جسمانی اور ذہنی عوارض جنم لینے لگتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف دانشمندی کا حصول نہیں ہے بلکہ زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کے لئے اچھی صحت اور تندرست جسم کی تیار ی بھی مقصود ہے۔اسی لئے جسمانی تعلیم اور کھیل کود تعلیمی نصاب کا ایک جزو لاینفک قرار دیا گیا ہے۔جسمانی تعلیم (کھیل کود ) کے بغیر تعلیمی نصاب کوو ادھورا کہاجاتا ہے۔جسمانی تعلیم (Physical Education)اور مختلف قسم کے کھیل (Sports and Games)طلباء کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما کے لئے بے حد ضروری ہیں۔کھیل بچوں کے جسمانی اعضاء کو ورزش فراہم کرتے ہیں جو بچوں میں جسمانی نشوونما کا ایک اہم وسیلہ ہے۔کھیل بچوں کی جسمانی نشوونما کے علاوہ کردار سازی اور نفسیاتی تربیت میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔کھیل صحت مند زندگی کی علامت ،صحت و عافیت کے ضامن ،نشوونما میں معاون اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔بچے ایک ہی جگہ ساکت و جامد بیٹھے رہنے سے ذہنی طور پر تھک جا تے ہیں اور ان کا تعلیمی مظاہرہ بھی متا ثر ہوتا ہے۔کھیل کھیل میں تعلیم کے ذریعہ نہ صرف بچوں میں تعلیمی رغبت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے بلکہ اسپورٹ مین اسپرٹ کے فروغ کے ذریعہ ان میں صبر و تحمل جیسی کیفیت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔تعلیمی کھیلوں کے استعمال سے نہ صرف بچے کھیل کھیل میں سیکھ لیتے ہیں بلکہ وہ درس و تدریس اور کھیل دونوں کی لذت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آج کے جد ید تعلیم ماحول میں کھیل کھیل میں تعلیم کا نظریہ موثر تدریس کے طور پر شرف قبولیت حا صل کرچکا ہے۔کھیلوں سے بچے نہ صرف چاق و چوبند اور صحت مند رہتے ہیں بلکہ کھیلوں سے و ہ محظوظ ا ور لطف اندوز ہوتے ہیں۔حقیقی مسرت کے حصول سے پڑھائی کا دباؤ بھی کم ہوجاتا ہے۔منفی رجحانات کا تدراک ہوتا ہے۔مایوسی کا سدباب اور غم غلط ہوجاتے ہیں۔بچوں کی الجھنیں اور پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔چہرے ترو تازہ ،شگفتہ اور خوشی سے سرشار نظر آتے ہیں۔کھیل کے ذریعہ بچے اپنے جذبات کی تسکین اور آسودگی کو یقینی بناتے ہیں۔کھیلوں سے بچوں کی شخصیت میں ہم آہنگی اور توازن پیدا ہوتا ہے۔بڑی جماعتوں کے بچوں میں صحت کی برقراری اور بہتری کے لئے کھیلوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔کھیل بچوں میں مسابقتی جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔بچوں میں پائے جانے والی توانائیوں کو صحیح سمت موڑا جا سکتا ہے۔اس نو خیز عمر میں بچوں کی توانائیوں کو اگر صحیح رخ نہیں دیا جاتا ہے تب وہ بے راہ روی کا شکا ر ہوکر اپنی صلاحیتوں کو تبا ہ و برباد کرلیتے ہیں۔ماہرین تعلیمات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کھیل بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔کھیل بچوں کو صحت مند ،تندرست،توانا اور چست رکھنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوئے ہیں۔بچوں میں دوستی کرنے کی صلاحیت کھیلوں کے ذریعہ فروغ پاتی ہے۔کھیل ان میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔کھیل بچوں کو ایک گوناں گو مسرت فراہم کرتے ہیں۔کھیل حصول علم میں لگن و رغبت پیدا کرتے ہیں۔بچوں میں جوش و جذبہ اور ولولہ کھیلوں کے ذریعہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔بچوں میں جوش و ولولہ کو مہمیز کرتے ہوئے ان کے تعلیمی سفر میں آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ماہرین تعلیم،نفسیات ومعالجین کے مطابق کھیل بچوں کے مدافعتی نظام کو مضبوط اور طاقتور بناتے ہیں۔کھیل بچوں کو جسمانی تفریح کے علاوہ ذہنی سکون اور مسرت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔کھیل بچوں میں پڑھائی کے دباؤ کو ختم کرنے میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔کھیلوں سے بچوں میں مختلف الجھنوں اور پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اورمشکل سے مشکل حالات میں بھی ذہنی طو ر پر مفلوج نہیں ہو نے پاتے ۔تجربہ کار اساتذہ اور ماہرین تعلیم کھیل کو صرف کھیل کے نظریے سے نہیں دیکھتے ہیں بلکہ کھیل کو ایک مفید مصروفیت اور اہم سرگرمی کے درجے میں رکھتے ہیں۔بچوں کے ہاتھ پیر اور دماغ کے تمام افعال و سرگرمیاں کھیل کی وجہ سے مصروف عمل رہتی ہیں۔کھیل کے دوران بچوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی اصلاح کے ذریعہ بچوں میں اغلاط کی اصلاح کا جذبہ اور سیکھنے کا عمل فروغ پذیر رہتا ہے۔دوران کھیل حاصل ہونے والی کامیابیاں بچوں میں خوداعتمادی اور قلبی مسرت کے فروغ کا باعث ہوتی ہیں۔کھیل میں ناکامی بچوں میں صبر و تحمل اور قوت برداشت کو پروان چڑھاتی ہیں۔مشکل سے مشکل حالات میں بھی حوصلہ نہ ہارنے کی تعلیم کھیلوں کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے۔انفرادی کھیلوں کی بہ نسبت اجتماعی کھیلوں سے بچوں میں رغبت پیدا کرنا اہم ہوتا ہے۔اجتماعی کھیلوں کے ذریعہ بچوں میں سماجی تعلقات کو نبھانے اور معاشرتی زندگی کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ اجتماعی کھیل بچوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے سے صلاح مشورے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ان جذبات کے زیر سایہ بچے اپنی آنیوالی زندگی کے مسائل کو بڑی حد تک کامیابی سے حل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔کھیل کو د کے دوران فروغ پانے والے تعلقات اور بچپن کا یہ میل جول بچوں کو ایک ذمہ دار شہری اور اعلی اوصاف کا حامل انسان بنادیتے ہیں۔ان اوصاف کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنی ذات کو مستفیض کر تا ہے بلکہ ہر گھڑی دوسروں کی مدد کے لئے بھی تیار رہتا ہے۔کھیلوں کی نگرانی کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اس احساس کو جا گزیں کریں کہ وہ جن کے ساتھ کھیل میں حصہ لے رہے ہیں وہ ان کے ساتھی اور دوست ہیں تاکہ ان میں حسد ،عداوت ،نفرت اور جلن کے جذبات نہ سراٹھا سکیں اور صحت مند مقابلہ کا جذبہ ان میں پروان چڑھیں۔کھیلوں کے ذریعہ بچوں کی قوت تحیل کو بال و پر دینے کے علاوہ اساتذہ ان میں نظم و ضبط کو بھی فروغ دیں۔کھیل بچوں کے احساس اذیت ،غم و اندوہ اور احساس محرومی کو دور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔بچوں میں پائی جانے والی ناامیدی کو کھیلوں کے ذریعہ جوش و ولولے میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔کھیل بچوں میں مجروح جذبات اور منفی جذبات و رویوں کے اندمال کا سامان فراہم کرتے ہیں۔مغربی معاشرے میں احساس محرومی اور کمتری کے حامل طلباء کے لئے ماہرین تعلیمات و معالجین نے کھیل کو ایک بہترین مثبت اور محفوظ علاج کے طور پر تجویز کیا ہے۔جو بچوں میں نئی زندگی اور ولولہ پیدا کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔کھیل مجروح جذبات و ذہن کے لئے مرہم کا کام انجام دیتے ہیں۔جدید آلات (Modern Gadgets)کی وجہ سے بچوں کی جسمانی صحت کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ متعدد بیماریوں کے علاوہ موٹاپہ ،سستی ،کاہلی اور دیگر مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔کمپیو ٹر ،موبائیل اور آئپیڈ سے ان کی دلچسپی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔بچے ان آلات کو اپنے سامنے سے بٹانا بھی گوارہ نہیں کر رہے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ کسی دوسری جسمانی سرگرمی (کھیل کود) میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور خود کو چاردیورای تک محدود کر رہے ہیں۔یہ رجحان بچوں کی صحت کے لئے بہت ہی خطرناک ،مضر، اور نقصان دہ ثابت ہوگا۔ہماری نسل نو مختلف جسمانی عوارض و معذوریوں کا شکار ہوجائے گی ۔یہ ملک و قوم کی بہترین صلاحیتوں اور سرمایے کا اتلاف ہوگا۔تعلیم قوم کی تعمیر کا ایک اہم وسیلہ ہے اسی وجہ سے اساتذہ کو معماران قوم کہا جاتا ہے۔قوم و ملت کی تعمیر تعلیم ہی کے مرہون منت ہوتی ہے۔ قوم کو خوشحال ،طاقتور اور مہذب بنانے کے لئے جن عوامل کی ضرورت ہوتی ہے وہ تعلیم ہی فراہم کرتی ہے۔ہماری نسل نو جنھیں ہم آج بچوں سے تعبیر کررہے ہیں وہی کل معلم،مفکر ،سائنسدان ،سیاستدان،قانودان،ڈاکٹر،انجینئر اور دیگر فرائض کو انجام دیں گے۔قوم کو ہمیشہ اچھے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو حق پرست،حق کے دائی،ذمہ دار قابل بھروسہ و لائق اعتبار ،جذبہ انسانی رحمدلی و مروت اور خدمت خلق سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔کھیل انسان میں یہ اوصاف پیداکرنے میں نمایا ں کردار انجام دیتا ہے۔تعلیم کا مقصد جہاں نظام کائنات کو بہتر بنانا اور بہتر انسانوں کی کھیپ تیار کر نا ہے وہیں کھیل کے مقاصد بھی کم و بیش انہی اغراض و مقاصد کی غمازی کرتے ہیں۔ تعلیم میں کھیل کی اہمیت و افادیت کے تمام مغربی و مشرقی ماہرین تعلیم موئید نظر آتے ہیں۔امام غزالی کا قول ہے کہ ہر وقت پڑھائی بچوں کو کند ذہن بناتی ہے، دلچسپی و توجہ کو ؂؂؂؂کم کرتی ہے،بیزاری اور اکتاہٹ پیدا کرتی ہے۔جس سے بچے تعلیم سے باغی بھی ہوسکتے ہیں۔بچوں کی تعلیم میں دلچسپی اوررغبت کی برقراری کے لئے پڑھائی کے دوران کھیلنے کودنے کے مواقع بھی فراہم کیئے جانے چاہئیے جس سے وہ اپنے آپ کو تازہ دم اور خوش گوار محسوس کر سکیں اور خوش دلی اور غایت درجہ کی دلچسپی سے اپنے تعلیمی مصروفیات کی تکمیل کر سکیں۔ماہرین تعلیمات کے عمیق تجربہ سے معلو م ہوتا ہے کہ پڑھائی کے بعد یا پڑھائی کے دوران کھیل بچوں میں فرحت و راحت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔فٹبال ،والی بال، ہاکی یا بیڈمینٹن کے کھیل طلباء میں ذہنی، جسمانی توانائی اور چستی کو بحال کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔جسمانی کھیل آکسیجن کے وافر حصول ،خون کے دوران اور ہاضمہ کو بہتر بناتے ہیں۔ کھیل کے میدان تازہ ہوا اور مظاہر قدرت کے ذریعہ طلباء کے ذہن وقلب اور جسم کو راحت حاصل ہوتی ہے۔دوڑنا،بھاگنا،کودنا،پیراکی وغیرہ کا طلباء کی صحت پراچھا اثر ہوتا ہے۔ اس سے ہاتھ پیر اور دیگر اعضائے جسمانی کی نہ صرف ورزش ہوتی ہے بلکہ ان کو توانائی اور مضبوطی بھی حا صل ہوتی ہے۔کھیل کو د سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ کھیل کودبچوں میں صبر و تحمل ،قوت برداشت ،آپسی تال میل اور اجتماعیت(Team Spirit) پیدا کرنے میں نہایت ممد و معاون ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کھلاڑی بہت زیادہ چاق و چوبند اور نظم و ضبط(ڈسپلن) کے پابند ہوتے ہیں۔ کھلاڑیوں میں یہ نظم و ضبط اور چستی کھیل کو د کے مرہون منت ہوتی ہے۔ تعلیم اور کھیل کود بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے علاوہ زندگی کے مسائل کا پامردی سے مقابلہ کرنے کی جرات و ہمت عطا کرتے ہیں۔ کھیل کودایک بہترین طریقہ تعلیم ہے جوطلباء کی صلاحیتوں، ہنر اور مہارتوں کے فروغ میں نمایا ں کردار انجام دیتے ہیں۔کھیل کود کے اصول قواعد اور ضابطے بچوں میں اصول اور قوانین کے احترام کا جذبہ پیدا کر تے ہیں ۔ کھیل کود قانون کا احترام کرنے والے بہترین شہریوں کی تیاری میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔کھیل کے میدان طلباء میں انفرادیت پر اجتماعیت کو فوقیت دینے کی تعلیم دیتے ہیں ایثار و قربانی کا یہ جذبہ ملک و قوم کی ترقی کے لئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ہار جیت کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا کھیل کو د کی تعلیم کے ذریعہ ہی بچوں کو سکھایا جاسکتا ہے۔کھیل کو د ہی بچوں کو ناکامی اور ہا ر پر نا امیدی ،مایوسی اور ذہنی و قلبی خلفشار سے محفوظ رکھتے ہیں۔کھیل بچوں کی کچلی ہوئی اور پامال توانائی کی بازیابی میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔کھیل جہاں بچو ں میں اطمینان ،سکون اور راحت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں وہیں تشدد ،تنفر جیسے منفی اور غیر پسندیدہ جذبات کو کچل دیتے ہیں۔بچوں کی توانائیوں کو جب کچلاجاتا ہے یا نظر انداز کردیا جاتا ہے تو وہ چڑچڑے پن ،عدم تحمل،غنڈا گردی اور عدم فرمانبرداری کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔کھیل کے میدان اور جسمانی سرگرمیوں ان منفی جذبات کو مثبت سمت عطا کرنے میں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔کھیل کے میدانوں میں زندگی رواں دواں نظر آتی ہے۔کھیل کے میدان زندگی کے پرتو ہوتے ہیں جہاں بچے ہنر و مہارت ،تیزی چستی ،محنت و کوشش ،لیڈر شپ ،قوانین کا احترام ،صبر و تحمل ،اپنے حریفوں اور تماشہ بینوں کا احترام سیکھتے ہیں ۔کسی بھی فرد کے لئے یہ جذبات معاشرتی زندگی کے اساس ہوتے ہیں۔جس کے بل بوتے وہ ایک کامیاب اور مطمئین زندگی گزار سکتے ہیں۔ماہر تعلیم کے مطابق جس ملک کے پارک اور کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں اس ملک کے دواخانے ویران ہوتے ہیں۔اسی لئے جسمانی تعلیم کھیل کود کو اسکولوں میں ایک لازمی مضمون کا درجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں