اشتہار

اشتہار سے مراد کسی چیز کی تشہیر کرنا ہے، چاہے وہ چیز / پروڈکٹ کچھ بھی ہو فرد، گروپ، ووٹ، پارٹی، دکان، نظریہ یا واش روم دھونے کا ڈجرجنڈ! لیکن کیا اس سے مشتہر کو کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے؟ اور کس قسم کے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں؟ اس سے قطع نظر اس پر بات کی جائے گی کہ اشتہارات ہماری زندگی پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں.
ایک اشتہار ایک مکمل پیغام پہنچا رہا ہوتا ہے. پانچ سے ساٹھ سیکنڈز کے درمیان ہر وہ بات کہہ، دکھا اور سنا دی جاتی ہے جس سے کچھ نہیں تو ناظر، سامع اس چیز بات کو سن، دیکھ کر ایک لمحہ کے لئے سہی اس طرف سوچتا، توجہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے.
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی خاص ترجیحات و مقاصد ہوتے ہیں. اس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ مختلف اور نئے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں.
یہی حال ڈیجیٹل میڈیا کا بھی ہے. اہم اور پہلا مقصد اپنی پروڈکٹ کا تعارف پہچانا ہے . ڈیجیٹل میڈیا میں سوشل میڈیا کی بدولت اشتہاری صنعت میں انقلاب برپا ہوچکاہے جو اپنی جدت، نت نئے انداز اور طریقوں کی بناء پر سب سے آگے ہے. کوئی بھی ویڈیو دیکھنے سے پہلے کسی بھی قسم کا اشتہار نظروں سے گزر ہی جاتا ہے. کسی پوسٹ کو پسند کیا، اور کچھ ہی دیر میں اسی سے متعلق اشتہارات کی بھر مار سے نبٹنے کے لیے تیار رہیں. اور بھی نہ معلوم کون کون سے اسباب ہوتے ہیں جن کی بناء پر اشتہارات ابھر، ابھر کر سامنے آ رہے ہوتے ہیں. کبھی پٹی کی صورت میں، کبھی صفحات، کبھی ٹوئٹ اور لا تعداد انداز ہر روز نظر آرہے ہیں.
ان سوشل سائٹس پر اشتہارات کے سیلاب کو کسی طرح حتمی طور ختم نہیں کیا جا سکتا، مگر کچھ دیر، دن کے لیے روکا ضرور جاسکتا ہے.
آن لائن جرنلزم اور موبائل جرنلزم (موجو) کے آنے کے بعد اشتہارات نے جو کیا، کم ہے. اس سے جہاں مشتہر کو آسانی ہوئی وہیں ایک ایسی دنیا وجود میں آئی جہاں ہر چیز بازار میں بکتی ہو . اور جو اس قدر عام محسوس کروائی جاتی ہو کہ اس کو دیکھ کر کچھ محسوس نہ ہوتا ہو، معاملہ عادت تک پہنچا دیا گیا ہے.
کسی بھی میڈیم پر قائم رہنے کے لئے اشتہارات ضرورت بھی ہیں. چاہیے وہ پرنٹ ہو یا آن لائن. ریڈیو ہو یا الیکٹرانک. مگر کیا اس حوالے سے حدود سے تجاوز کیا جاسکتا ہے؟ یا مشتہر کو حدود کا پابند کیا جاسکتا ہے؟ جن اقدار و روایات کی پاسداری کے لئے کام کا بیڑا اٹھایا گیا ہوتا ہے وہ کہیں پس منظر میں جاتا محسوس ہوتا ہے یا اہمیت کم ہونے لگتی ہے. یہاں نہ ان افراد کی بات ہورہی ہے جو بغیر کسی نظریے کے کام کررہے ہیں نہ ان اداروں کی. کیونکہ جب  ان کی پالیسی ہی یہ ہو “کوئی پالیسی نہیں ہے” تو وہ جو چاہیں کریں.
بات  کی جائے اگر ان اداروں کی جہاں اشتہار، مشتہر کے حوالے سے قوانین بنے ہوئے ہیں تو اس سلسلے میں اشتہاراتی قوانین کا حوالہ دیا جاسکتا ہے اور ان کے تحت روکا جاسکتا ہے. مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ وہ گہری نیند میں ہیں. اس لیے ان پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا. اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ کس قسم کے اشتہارات پسند کیے جاتے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ ہی اشتہار لوگوں کی توجہ کا باعث بنتے ہیں جو طرز معاشرت کی نمائندگی کرتے ہیں یا جن میں کوئی مثبت پیغام ہو.
بحیثیت فرد، قوم، میڈیا کو آگاہ کیا جائے کہ یہ اشتہار ہمارے معاشرے، اقدار سے متصادم ہے. یہ اور یہ اشیاء ہیں جن کے اشتہار قطعی دکھائی نہیں دیے جائیں گے. اور جو اشتہارات دکھائے جائیں ان میں موجود پیغام، الفاظ، نظریہ ہماری طرزِ معاشرت کی نمائندگی کرتا ہو، بجائے کسی اور نظریے اور نظام کے . مسلسل کوشش سے پھر ان شاء اللہ ضرور وہ دیکھنے کو ملے کو جو دیکھانا، سننا چاہتے ہیں.

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

1 تبصرہ

  1. کیا فائدہ ایم اے کرنے کا،پڑھنے لکھنے کے بعد بھی اتنا نہ ہوسکا کہ گوگل ٹرانسلیٹر کا ترجمہ ہی ٹھیک کرلیا ہوتا۔

جواب چھوڑ دیں