الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

اب کوئی بات نئی بات نہیں

اب کسی بات پہ چونکا نہ کرو

جو بھی اپوزیشن میں ہوتا ہے اس کی باتیں عوام کے کانوں کو بہت بھلی لگتی ہیں۔ اپوزیشن کے لیڈر کے ایک ایک جملے پر دل جھوم جھوم اٹھتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اٹھ کر اس کا منھ چوم لیا جائے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔ اپوزیشن پارٹی کے تابڑتوڑ حملے دل میں چاہت کے تیروں کی طرح ترازو کیوں ہورہے ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی حامی کیوں ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ مضبوط سے مضبوط حکومت کی دیواروں کی ایک ایک اینٹ ہلنے لگتی اور اس کے بڑے بڑے ستون حکومت کی عمارت میں سے نکل کو حکومت مخالفوں کی جانب کھسکنے لگتے ہیں اور حکومت کی ساری عمارت ریت کا ڈھیر بن جاتی ہے۔

بات خواہ کتنی ہی تعجب خیز ہو لیکن لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ اپوزیشن کی بات دل میں اترجانے کا سبب کوئی راکٹ سائنس نہیں جس کو سمجھنے کیلئے پہاڑ جیسا دماغ چاہیے ہو۔ ہوتا یہ ہے آج کی حکومت گزرے کل کی اپوزیشن ہی ہوتی ہے۔ حکومت میں آ جانے والی گئے دور کے اپوزیشن کے یہ ایسے کھلاڑی، تماشبین اور مبصرین ہوتے ہیں جو میدان سے باہر بیٹھ کر کھیل دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ میدان سے باہر بیٹھے تمام افراد کو میدان میں موجود کھلاڑیوں سے زیادہ اچھا کھیل نظر آرہا ہوتا ہے۔ کسی کا غلط انداز میں کھیل جانا، باہر نکلتی ہوئی گیند کا پیچھا کرتے ہوئے وکٹ کے پیچھے کیچ دیدینا، وکٹ گنوادینا، سیدھی گیند کو الٹے انداز میں کھیل جانا، رن لیتے ہوئے ہاں نہیں نہیں ہاں کا شکار ہوکر رن آؤٹ ہوجانا، بالروں کا نو بال کرجانا، بال وائیڈ کردینا، لائن اور لینتھ کا دھیان نہ رکھنا، فیڈرز کا کیچ ڈراپ کردینا، مس فیلڈنگ کرنا اور اسی قسم کی بہت ساری کمزوریوں پر بھر پور اظہار خیال کرنا اور وہ بھی اس انداز میں جیسے وہ خود میدان میں ہوتے تو کھیل کے میدان ہی کو آسمان پر اٹھا لیتے۔

کھیل میں ہار جیت اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو کھلاڑی میدان میں ہوتا ہے وہی جانتا ہے کہ اسے کس وقت کیا کرنا چاہیے تھا اور کیا نہیں۔ اس کے پاس فیصلہ کرنے کیلئے چند سیکنڈ بھی نہیں ہوتے۔ اسے جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے وہ سیکنڈ کے دسویں حصہ سے بھی کم وقت میں کرنا ہوتا ہے اور وہ اپنی جانب سے جوکچھ بھی کرتا ہے اس وقت وہ اپنے آپ کو کبھی غلط نہیں سمجھ رہا ہوتا۔

یہی کچھ حال اپوزیشن کا ہوتا ہے۔ وہ کیونکہ میدان سے باہر بیٹھی ہوتی ہے اس لئے اسے نہ تو میدان میں موجود کھلاڑیوں کی مشکلات کا اندازہ ہو رہا ہوتا ہے اور ناہی اس کی معلومات میدان اور وکٹ کی کیفیت کے متعلق خاطر خواہ ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ میدان اور وکٹ کی کیفیت کے بارے میں وہ آگاہ بھی ہوں تب بھی وہ اپنے مستقبل کی بقا کیلئے کھلاڑی یا کھلاڑیوں پر تنقید کرنا ضروری خیال کرتی ہے ورنہ اس کے کھیل کا مستقبل تاریک ہو کر رہ جائے۔

سیاست کے میدان میں تو ایسا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ اگر پارٹیاں ایک دوسرے پر سیاسی حملے نہ کریں، حکومت کیلئے رکاوٹیں کھڑی نہ کریں، ایک دوسرے کے کیڑے نہ نکالیں بلکہ اس کے بر عکس حکومتی پارٹی یا پارٹیوں سے معاونت کریں تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مارلے۔ چنانچہ الیکشن سے پہلے تو یہ بات بہت ہی لازمی ہو جاتی ہے کہ حکومت کے تمام کمزور پہلوؤں کو قوم کے سامنے لایا جائے۔ قوم سے کئے گئے وعدوں پر عمل نہ کرنے پر سخت تنقید کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ بڑے بڑے وعدے اور دعوے عوام کے سامنے کرکے عوام کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں۔ وعدوں اور دعوؤں میں وہ سب وعدے اور دعوے بھی کرلئے جائیں جن کو “جن” بھی پورا نہ کر سکیں۔ مختصر یہ کہ جس طرح بھی ممکن ہو عوام کو پاگل کر دیا جائے اور وہ عوام جو حکومت کی ظلم و زیادتی، ناانصافیوں اور مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی بہت پریشان ہیں ان کی حمایت حاصل کرکے کسی نہ کسی طرح مسند اقتدار تک رسائی حاصل کر لی جائے۔

خبر گرم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کئی روز کی ہچکچاہٹ اور سوچ بچار کے بعد بالآخر قرض کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

پاکستان کیلئے یا پاکستان میں آنے والی کسی بھی حکومت کیلئے یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے۔ ایک طویل مدت سے پاکستان اسی طرح قرضوں پر ہی چلتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینا، اس کی شرائط مان لینا اور اس کی پالیسیوں کے آگے سر تسلیم خم کرلینا کوئی پہلی روایت تو نہیں ہوگی لیکن پی ٹی آئی کیلئے جو سب سے بڑی مصیبت آن پؑڑی ہے وہ کسی اور کی لائی ہوئی نہیں خود اس کے لیڈر اور لیڈر کے مصا بحین کی لائی ہوئی ہے۔ وہ اس بات کو فراموش کئے ہوئے تھے کہ جس حکومت پر وہ سخت سے سخت الفاظ میں تنقید کرتے رہے ہیں اور گزشتہ حکومت کے اس دعویٰ کا جس انداز میں ذکر کرتے رہیں کہ وہ کشکول توڑدیں گے لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور وہ اپنے دورانیہ میں آئی ایم سے قرضے لے لے کر ملک کے ایک ایک بچے پر قرضوں کا بوجھ بڑھاتے چلے گئے۔ قوم اس اس گدا گری سے عاجز تھی۔ یہی وہ تنقید تھی جس کی وجہ سے عوام میں ان کی پزیرائی ہوئی۔ ایک اور بات جو عوام کی رائے ان کے حق میں گئی وہ کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا تھا جس سے عوام بہت پریشان تھے اور اس پریشانی کا فائدہ پی ٹی آئی سمیٹنے میں کامیاب ہوئی۔

قرض کے سلسلے میں تو عالم یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت قرض لینے سے بہتر خود کشی تک کرنے کیلئے تیار تھی۔ یہ سب باتیں میدان سے باہر کی تھیں لیکن جب ٹیم میدان میں اتری تو اندازہ ہوا کہ جس وکٹ پر وہ کھیلنے کیلئے اترے ہیں اس کیلئے بالنگ، فیلڈنگ اور بیٹنگ کی تو تیاری ہی نہیں تھی اور دور کے سارے ڈھول بہت ہی سہانے لگ رہے تھے۔

آئی ایم ایف سے قرض لینے کے حکومتی فیصلے کو بہت سارے ماہرین درست کہہ رہے ہیں اور بہت سارے حیران بھی ہیں اور پریشان بھی اس لئے کہ عوامی رد عمل اس فیصلے پر بہت شدید آ سکتا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر عوامی رد عمل حکومت کے خلاف کیوں جا سکتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے اس کی سب سے بڑی وجہ خود پی ٹی آئی کے سربراہ ہیں جو عوام کے سامنے ایک طویل عرصے سے یہ کہتے رہیں ہیں کہ اگر وہ وزیر اعظم ہوئے اور ان کو آئی ایم ایف سے قرض مانگنا پڑا تو وہ قرض لینے سے بہتر خود کشی کرلینا سمجھیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کا سیاسی بیان ہی رہا ہوگا لیکن ایک ایسی قوم جس کے سامنے ہر آنے والی حکومت نے کشکول توڑنے کی بات کر کے کشکول اور بھی بڑا کر لیا ہو، اور جب وہ کسی پارٹی اور لیڈر کو محض اس لئے کہ وہ قوم کو قرضوں سے نجات دلائے گا اور بھیک مانگنے پر مرجانے کو ترجیح دیگا، کی بنیاد پر اپنے سر کا تاج بنا بیٹھی ہو تو اس کیلئے کتنے صدمے کی بات ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قوم کا اعتماد سب پر سے اٹھ ہی جائے اور مایوسیاں اس کے دل میں گھر کرجائیں۔

راقم کے نزدیک یہ ان کا سیاسی بیانیہ تھا جو انھوں نےاس وقت کی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات کے وقت دیا تھا لیکن اگر دستیاب حقائق پر نظر ڈالی جائے تو جہاں آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے بہت سے نقصانات ہیں وہاں کچھ فائدے بھی ہیں”۔

کسی بھی قسم کی امداد یا قرض ایک طرح کی ڈیل ہوتی ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتی ہے۔ ڈیل پر اگر درست منصوبہ بندی کے ساتھ عمل کیا جائے تو فریقین میں سے کسی کو بھی نقصان نہیں ہوتا۔ اس کی مثال کچھ یوں لی جاسکتی ہے کہ لوگوں کے مکانات بن جاتے ہیں، کاروبار کامیاب ہوجاتے ہیں، گاڑیاں اپنی ہو جاتی ہیں اور کارخانے تعمیر ہوجاتے ہیں۔ امداد یا قرض دینے والے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو اس کا پیسہ نہ صرف واپس مل جاتا ہے بلکہ وہ اصل رقم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس سے قرض لیا جاتا ہے اس کی کچھ شرائط بھی ہوتی ہیں۔ آئی ایم کی شرائط میں سے سب سے بڑی شرط سبسڈی کے نظام کو ختم کرنا رہا ہے جس پر حکومتیں کچھ کو ختم کرتی آئی ہیں اور کچھ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بات اب آئی ایم ایف کو قبول نہیں۔ سبسڈی کامطلب یہ ہے کہ حکومت کچھ چیزوں کو خریدے تو مہنگا لیکن عوام کو کم قیمت پر دے جس میں بجلی، گیس اور پٹرول جیسی اشیا شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس مرتبہ آئی ایم سے قرض لیا گیا تو بہت ساری بنیادی اشیا آسمان سے باتیں کرتی نظر آئیں گی۔ مہنگائی کا یہ طوفان عوام کو مارڈالنے کے مترادف ہوگا اور عوام اگر باہر نکل پڑے تو بڑے بڑے سبز باغ دکھا کر عوامی حمایت حاصل کرنے والی حکومت رسوا اور تباہ و برباد ہوکر رہ جائے گی۔

مہنگائی کے اس طوفان سے نمٹنے کا واحد راستہ بچت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جہاں سرکاری اخراجات میں کمی کرنا ضروری ہے وہیں ایسی تمام صنعتوں، اداروں، سرکاری ملوں اور کارخانوں کا بھی فروخت کرنا یا ان کو قابل منافع بنانا بھی ضروری ہے جو حکومت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اگر اس نقطہ نظر سے سوچا جائے تو سرکاری عمارتیں، سرکاری اسکول، سر کاری ہسپتال، سرکاری ملیں، کارخانے، پاکستان ریلوے، پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائین، پاکستان اسٹیل، واپڈا اور پاکستان پوسٹ جیسے ادارے اسی فہرست میں آتے ہیں جو پاکستان کیلئے ایک طویل عرصے سے سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں۔ ان سب کی یا تو نجکاری کی جائے یا ان کو منفعت بخش بنایا جائے کیونکہ ان سب پر کھربوں روپے سالانا حکو مت کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ حکومت کے اقدامات سے اخراجات میں کمی تو آئی ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پروٹوکول اور محافظت کرنے والوں کی تعدا کچھ کم ضرور نظر آنے لگی ہے لیکن وہ تمام کے تمام ملازمین ویسے ہی ہیں جیسے اور جتنے تھے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر کچھ کمی آئی بھی ہوگی تو وہ شمار میں نہیں۔

قرض لینے کے فائدوں سے زیادہ نقصانات کی فہرست بہت طویل ہے جس میں عوامی اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے پیسہ نہ ہونا، ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہونا، ٹیکسز میں اضافہ کرنا، کسانوں، مزدوروں، کارخانے داروں، یا قرض لینے والوں کو قرض دینے کی مد میں کمی کرنا جیسے مسائل سر ابھارتے ہیں۔ شرح سود میں اضافہ بھی کئی الجھنوں کا سبب بنتا ہے اور ان سارے عوامل سے مہنگائی کا ایک طوفان آجاتا ہے جس کی وجہ سے عوام میں حکومت سے بغاوت کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ بیمار ملوں، کارخانوں، سرکاری عمارتوں اور اپنے تمام اُن اثاثہ جات کو فروخت کر سکتی ہے جو پاکستان پر کھربوں روپے سالانہ کا بوجھ بنے ہوئے ہیں یا ان کو منافع بخش بنا سکتی ہے یا ان کے ملازمین کی مراعات کو کم کر سکتی ہے یا ان کو ملازمتوں سے نکال کر سرمایہ بچا سکتی ہے؟۔ اگر ایسا کر سک لے تو کہا جاسکتا ہے پاکستان کی معیشت اپنی پٹڑی پر چڑھ جانے میں کامیاب ہو جائے گی بصورت دیگر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔

اس وقت ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ حکومت ایک بے بسی کے عالم میں ہے اور تمام تر دعوں اور وعدوں کے باوجود اسے وہی کرنا ہے جو پچھلی حکومتیں کرتی چلی آئی ہیں۔ المختصر یہ کہ

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں

لو آج اپنے دام میں صیاد آ گیا

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں