ستاروں سے آگے

1858 میں شروع ہونے والا برطانیہ کا لایا ہوا ” میٹرک سسٹم ” آج 2018 میں بھی ہمارے پاس ذہانت کی  واحد علامت ہے – اور آپ کمال ملاحظہ کریں غلام قوم کے معیارات بھی عجیب ہوتے ہیں – 1988 میں شروع ہونے والا او –  لیولز کا سسٹم بھی سن 2000 تک اپنا اثر کھونے لگا ۔ پورے برطانیہ کے سوچنے ، سمجھنے والے طبقے نے اس او –  لیولز سسٹم کو مسترد کردیا اور بالآخر 2005 میں برطانیہ ، ویلز اور آئر لینڈ تک میں او –  لیولز کا سورج غروب ہوگیا ۔ لیکن ہمارے پاس آج بھی اس کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔

مجھے پہلی دفعہ یقین ہونے لگا ہے کہ بدقسمتی سے غلامی ہر کسی کے لئیے غلامی ہی ہوتی ہے ۔ امیروں اور پیسے والوں کے لئیے غلامی کے “طور طریقے “مختلف ہیں ۔ غریبوں کے لئیے ذرا اور علیحدہ ۔ غریب کا بچہ آج بھی اپنی آنکھوں میں میٹرک کے ” اے – ون ” گریڈ کا سپنا سجائے بیٹھا ہے ۔ اس بیچارے کے لئیے انگریز کا لایا ہوا 1858 کا نظام ہی اتنا قیمتی ہے ۔ اس کی ساری اسکولنگ اسی کے گرد گھومتی ہے ۔ اس کے ماں ، باپ  اس کے استاذہ ، اسکا ماحول اس کا کوچنگ اور اس کے رشتے دار بس آنکھیں لگائے میٹرک کے نتیجے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ اور اگر اس میٹرک میں ” اے – ون  ” گریڈ آگیا تو سمجھیں کہ دنیا کی ساری دولت ہی تو ہاتھوں میں آگئی ۔ اماں ، ابا کو لگنے لگتا ہے کہ بس اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں کیونکہ ہمارا بچہ ” میٹرک پاس ” ہوگیا ہے  اور وہ بھی امتیازی نمبروں سے ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے یہ لاکھوں کی تعداد میں پورے پاکستان میں ” اے – ون  “گریڈ ہولڈرز معاشرے میں کس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہورہے ہیں ؟آپ معاشرے کو بھی رہنے دیجیئے  اپنی ذات اور گھر والوں کے لئیے ہی کوئی  ” کارنامہ ” سر انجام دے رہے ہوں تو بتائیں ؟ میں آپ کو دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ آج کہیں پہنچے بھی ہیں تو اس میں ان کےگریڈ سے کہیں زیادہ ان کی صلاحیتوں کا عمل دخل ہے ۔ لیکن مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے والدین اور بچوں کے لئیے اسکول بھیجنے کا واحد مقصد یہ ظالم ” اے – ون ” گریڈ کا حصول ہی تو ہے ۔

دوسری طرف آپ ہماری ” ایلیٹ کلاس ” کا    حال دیکھئیے ۔ ان معصوموں کے لئیے بھی ستاروں سے آگے جو آخری آسمان ہے وہ بہرحال او – لیولز ہی ہے ۔ جس نظام تعلیم کو حکومت برطانیہ نے ” آؤٹ آف ڈیٹ ” کہہ کر 2005 میں ہی دیس نکالا دے دیا تھا ۔ ہم 2018 تک میں اس میں گریڈز لے لے کر خوش ہیں ۔ ہمارے کھاتے پیتے گھرانوں کی کامیابی کا واحد راز ان کے بچے کے اے اور اے – ون گریڈز پر مشتمل آج سے 30 سال پرانا نظام تعلیم ہے ۔ دوسرا المیہ جو اس نظام تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے وہ  دوسرے اسکولوں اور کم نمبرز لینے والوں کے لئیے تحقیر کے جذبات ہیں ۔ لاہور کے نامور بورڈنگ اسکول کی پرنسپل کہ جن کے اسکول کی ماہانہ فیس 50 اور 60 ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ اس بات پر سخت پریشان تھیں کہ ہم نے 98 پرسنٹ لینے والے بچوں کے لئیے ایک ” سوپر کلاس ” بنائی ہے جس میں 97  لینے والے بچے بھی نہیں بیٹھ سکتے ۔ لیکن اب ہمیں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ” سوپر کلاس ” کے بچے 97 والوں کو بھی اپنے سے نیچا اور حقیر محسوس کرنے لگے ہیں ۔

ماں  باپ پریشان ہوکر پوچھتے ہیں کہ آپ بتائیے بچہ میٹرک نہ کرے ، او –  لیولز نہ کرے تو کیا کرے ؟ میں ان کو کہتا ہوں کہ میٹرک بھی کروائیے اور او – لیولز بھی کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے پاس ان کے علاوہ فی الحال کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے لیکن یہ بھی میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے بچے کی ذہانت اور صلاحیتوں کو اتنا حقیر کیوں سمجھتے ہیں ؟ تین مہینے اسکول جانے والا تھامس ایڈیسن اور اسکول سے نکال دیا جانے والا ہنری فورڈ  کس بورڈ سے پاس آؤٹ تھا ؟کیا ان بورڈز سے پہلے لوگ قابل نہیں ہوتے تھے ؟ اور کیا آج برطانیہ بھی اپنے ہی دئیے گئے نظاموں  سے پیچھا چھڑانے پر مجبور نہیں ہے ؟ تو پھر ہم اور ہمارے بچے کیوں غلام در غلام بن کر رہیں ؟ہمارے ملک کا بچہ کیوں نت نئی ایجادات  نہیں کرسکتا ہے ؟ اس بچے کے دماغوں پر او –  لیولز اور میٹرک کے تالے ڈال ڈال کر ہم کیوں انھیں نام نہاد اور عارضی کامیابیوں کے پیچھے دوڑا رہے ہیں ؟

اس دنیا میں بچہ آذاد پیدا ہوتا ہے خدارا ! اسے آذاد ہی رہنے دیں ۔ ساری زندگی دوسروں سے ” کومپیٹیشن ” اور ” کمپیریژن ” کر کر کے ہم اس کی اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر کے رکھ دیتے ہیں ۔آپ کے بچے میں بے پناہ صلاحیت ہے ۔ وہ اس دنیا میں دوسروں کے بنائے ہوئے نظام تعلیم اور ان کے دئیے گئے کامیابی کے فارمولے کو چھونے ، حاصل کرنے اور سینے سے لگانے کے لئیے پیدا نہیں ہوا ہے ۔اقبال نے کہا تھا :

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

آپکا بچہ شاہین سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ وہ انسان ہے ۔ اشرف المخلوقات  ہے وہ اڑ نہیں سکتا ہے لیکن اڑنے والی چیز ضرور بنا سکتا ہے ۔ اس کا جہان اتنا ننھا منا اور چھوٹا سا نہیں ہے ۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ کسی دوسرے کی منزل کا مسافر بنے ؟ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ ” دریائے تند و تیز ” میں رہنے کے بجائے ساحل سے ٹکرا جائے ؟ ایک عدد  ” اے اور اے –  ون گریڈ ” ،ایک عدد نوکری اور کسی کی غلامی میں چند ٹکوں پر ساری زندگی بسر کروانے کے بجائے اسے اپنے شوق اور صلاحیتوں کو آزمانے دیں ۔ اسے عقل کا غلام نہ بنائیں ۔ آپ سن کر حیران رہ جائینگے کہ آپ کے پڑوسی ملک  ہندوستان تک میں او –  لیولز کی کوئی قدر نہیں ہے وہ اس سے کہٰیں بڑھ کر اپنے نظام تعلیم پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اب ساری دنیا ان گریڈز سسٹم سے پریشان ہے ۔ چاہے وہ  او – لیولز ہو یا میٹرک سسٹم ۔

آج بل گیٹس سے لے کر مارک زکر برگ تک اور اسٹیو جابز سے لے کر جیک ما تک ان میں سے کسی کا بھی اسکول اور بورڈ آپ کو معلوم ہے ؟ یا ان کی اسکول میں شاندار نمبروں سے کامیابی – یہ تو اپنے اسکولوں کے آرڈنری بچے تھے ۔ تف ہے ایسے اسکولوں پر اور ایسے نظام تعلیم پر جو ان بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور جانچنے کے بجائے بس سلیبس ختم کروانے اور بورڈ کا امتحان دلوانے کے لئیے تیار کرتا ہے ۔آپ حوصلہ رکھیں اور یقین کرلیں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں