ایک رشتہ جو میری اوقات بدل دیتا ہے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا, مجھے تمنا ہے کہ میں اپنے بھائیوں سے ملتا.صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: کیا ہم آپﷺ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تم تو میرے صحابہ ہو اور میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائیں گے.(مسند احمد)
اسی نوعیت کی ایک اور حدیث پیش خدمت ہے:
روایت ہے ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” خوشخبری ہو اسے جس نے مجھے دیکھا اور سات بار خوشخبری ہو اسے جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا.”(مسند احمد).
کتنے لطیف اور خوش کن انداز میں ذکر کیا ہے میرے نبیﷺ نے مستقبل میں آنیوالے اپنے امتیوں کا ان احادیث میں کہ ساڑھے چودہ سو سال گذرنے کے بعد بھی عقیدت اور محبت کی یہ ڈور امت کے موجودہ اور تاقیامت آنیوالے ہر فرد کا روحانی و شعوری رشتہ اپنے عظیم مربی و محسن سے جوڑے رکھتی ہے.ہر کلمہ گو کا اپنے نبی پاک سرور کائنات محمدﷺ سے جڑا یہ رشتہ ہی تو اسے اللہ کے نزدیک خاص الخاص بنا دیتا ہے.
اندھیری راتوں کی تنہائیوں میں اپنے رب سے سرگوشیوں اور سسکیوں میں بھی “امتی،امتی” کی گردان کرنیوالے سے محبت بھرا یہ رشتہ ہی تو ہے جو میرے دل میں دھڑکتا ہے، میرے خون میں گردش کرتا ہے،میری سانسوں میں مہکتا ہے.پھر کبھی محبوب ﷺ کی یاد میں آنکھوں سے بہتا ہے۔کبھی ملنے کی تڑپ پیدا کرتا ہے،تو کبھی آنکھوں میں پیاس بن کر ، محبوب کے دیدار کی تمنا کر بیٹھتا ہے کہ کبھی خواب میں ہی سہی مجھے پیارے نبی ﷺ کا دیدار کرادے مولا.اس دائمی رشتے کی حساسیت ہی تو ہے کہ مسجد نبویﷺ میں روضہ رسول ﷺکی سنہری جالیوں کے اس پار سے وہ شفیق ہستی زخمی دلوں پر اپنی رحمت وشفقت کے پھاہے رکھتی میدان عمل میں جمے رہنے کیلیئے حوصلہ فراہم کردیتی ہے.
اللہ رب العزت کے بعد مجھ گنہ گار سے سب سے زیادہ محبت کرنیوالا یہی تو رشتہ ہے.جس کی محبت اور خلوص نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے طائف کی وادیوں میں خون آلود وجود اور رنجیدہ قلب کے ساتھ میرے لیئے ہم سب کیلیئے عذاب کے فرشتے کی سامنے موجودگی کے باوجود دعائے خیر مانگی.اہل طائف کے ناروا سلوک کے باوجود امیدواخلاص سے بھرپور وہ دعا کہ انکی آئندہ نسلوں سے باایمان ,ہدایت یافتہ افراد اٹھیں کتنے دوررس مثبت اثرات رکھتی ہے کہ اسی طائف کی وادی کا نوجوان محمد بن قاسم برصغیر میں اسلامی تہذیب کے آغاز کا باعث بن گیا.میرے محبوب نبی ﷺکی وہ دعا میرے اور اس خطہ میں تاقیامت آنیوالے ہر ذی شعور مسلم کیلیئے کیسی بارآور ثابت ہوئی.
میں کیسے بیان کروں کہ میرےنبیﷺ سے میرے اس لازوال رشتے کی کیا اہمیت ہے.قلبی کیفیات کو تحریر کرنا بہت کٹھن معاملہ ہے.میں تو ایمان و اخلاص کی انتہائی پست حالت میں ہوں  مجھ بے عمل کی اوقات سے ماورا ہے کہ میں اس رشتہ ،نسبت کا کبھی حق ادا کرسکوں .
میں فقط خاک ہوں پر محمدﷺ سے ہے نسبت میری.
یہ ایک رشتہ ہے جو میری اوقات بدل دیتا ہے.
مجھے شاہ لولاک ﷺ اپنے ماں باپ،اولاد اور ہر شئے اور رشتے سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ بس یہی میری متاع کل ہے.مجھے تو یہ احساس ہی سیر نہیں ہونے دیتا کہ میرے رب نے مجھے خاتم النبیین ﷺ کی امتی بنایا جس کی دعائیں اور گریہ و زاری دنیاوی فتنوں سے لے کر روز محشر کی ہوش ربا حاضری تک اپنی امت کی کفایت کرتی ہیں.
اے میرےرب! تو میدان حشر میں ہم سب کو پیارے نبیﷺ کی شفاعت نصیب کرنا.ہم سے اس دنیاوی زندگی میں حبّ الٰہی اورحبّ رسول ﷺکے تقاضے پورے کروا. پیارے نبیﷺ آخری ادوار کے امتیوں کیلیئے جو خوش خبری دے گئے ہیں ہمیں ان کا مستحق بنادے .بیشک نیک عمل کرنے اور بدعملی سے بچنے کی توفیق تیری ہی طرف سے ہے.آمین یارب.

حصہ

جواب چھوڑ دیں